547

انیتا کریم: صنفی تفریق کے بت کو پاش پاش کرنے والی ہنزہ کی بیٹی

وہ مارچ کی ایک صبح تھی جب ہنزہ میں برف پوش پہاڑوں کی سرد مہر سفیدی پر چیری بلاسم کی ہلکی گلابی تپش پڑنے لگی تھی، ساتھ ساتھ روایتی ساز اور رقص موسم کو مزید گرما رہے تھے، سڑکوں پر بڑے بوڑھے اور بچے سبھی موجود تھے۔ ہجوم میں سب سے زیادہ نمایاں وادیِ ہنزہ کی وہ دادیاں اور نانیاں ہیں جو اپنی بیٹی کا استقبال کرنے آئی تھیں۔

یہ منظر پاکستان میں گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والی انیتا کریم کے مکسڈ مارشل آرٹ میں انٹرنیشنل ٹائٹل اپنے نام کر کے اپنے علاقے میں لوٹنے کا تھا۔

انیتا کریم نے ایک ایسے کھیل میں کامیابی حاصل کی جسے بالعموم مردوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں سنگاپور میں ہونے والے معروف ون وارئیر مقابلوں میں حصہ لیا اور انڈونیشیئن مد مقابل کو ہرا کر یہ انٹرنیشنل ٹائٹل اپنے نام کیا۔
انیتا کریم کو مکسڈ مارشل آرٹ کی تربیت لیتے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں اور وہ روزانہ چھ یا سات گھنٹے مشق کرتی ہیں۔ اس کھیل میں خواتین کی شمولیت نہ ہونے کے باعث وہ بھائیوں اور دوسرے مردوں کے ساتھ ہی مشق کرتی رہی ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کے دوران ان سے اس شاندار استقبال پر تاثرات پوچھے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ بیٹیوں کا ایسا استقبال ان کے علاقے کی روایت ہے۔

‘گلگت بلتستان میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ کوئی خاتون یا کوئی بھی شخص کامیابی حاصل کرے تو سب مل کر اس کی خوشی مناتے ہیں۔ اس بات کی بھی خوشی ہوئی کہ میری جیت کے بعد دوسری خواتین بھی دلچسپی لے رہی ہیں۔’

ہنزہ سے کھیلوں میں کامیابی حاصل کرنے والی انیتا کریم جیسی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ اس پر انیتا کریم ایک بار پھر اسے علاقے کی ثقافت کا خاصہ قرار دیتی ہیں۔

’ہنزہ سے کھیلوں میں خواتین کے آگے آنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں خواتین کے لیے بھی آگے آنے کے اتنے ہی مواقع ہیں جتنے مردوں کے لیے۔ ان کی بھی برابر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کہ وہ اپنے ٹیلنٹ کو استعمال میں لائیں۔’
انیتا سے پوچھا گیا کہ انھوں نے خاتون ہو کر اس خطرناک کھیل کا انتخاب کیوں کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کھیل اپنا دفاع بھی سکھاتا ہے اور اعتماد بھی دیتا ہے۔

’خطرناک کھیل ہے لیکن صرف پاکستان میں ہی لڑکیاں نہیں کھیلتیں باقی دنیا میں تو کھیلتی ہیں۔ مجھے ڈر نہیں لگتا۔ یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان کی خواتین بھی دوسرے ممالک کی خواتین کی طرح یہ کر سکتی ہیں۔’

کہنے والے انیتا کو ‘ہنزہ کی بیٹی’ یا ‘پاکستان کی بیٹی’ ہی نہیں کہتے ، ان کا ایک نام آرم کلیکٹر یعنی بازو جمع کرنے والی بھی ہے۔ آخر یہ نام کیسے پڑا؟

اس بارے میں انیتا کا کہنا تھا کہ ’برازیلین جوجٹسو مقابلوں میں میرے مقابلے پر لاہور سے دو لڑکیاں کھیل رہی تھیں۔ میں نے انہیں آرم لاک لگایا تو انہی کی غلطی کی وجہ سے ایک کا بازو ٹوٹ گیا تب سے مجھے آرم کلکٹر کہا گیا۔’

انیتا کریم کو مکسڈ مارشل آرٹ کھیلتا دیکھیں تو یقین ہوتا جاتا ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے طاقت سے بھرپور پنچ اور کک سے مخالف کو نہیں گرا رہیں بلکہ کھیل کے میدان میں صنفی تفریق کے بت کو پاش پاش کر رہی ہیں۔

ادھر ہنزہ کی سرد وادی میں بڑی بوڑھیوں کو انیتا کی حوصلہ افزائی میں رقص کرتا دیکھیں تو ان کے چہروں کی تپش پر کھلتے ہوئے چیری بلاسم کا گمان زور پکڑتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں