393

اسکردو: ترقیاتی ادارہ ومحکمئہ برقیات تنقید کی زد میں

سیاسی رہنماوں کی بیوروکریسی پر سنگین الزامات؛ ایکسین، اور دیگر اعلی سرکاری عہدے داروں پر فنڈز اور ٹھیکوں میں بے ضابطگی اور خرد برد کا الزام

  • علی اقبال سالک
  • اسکردو

    بلتستان کے سیاسی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نےاسکردو شہر میں بجلی کا بحران، سڑکوں اور صحت کی خستہ حالی اور ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں میں سنگین بے قاعدگیوں،گھپلوں اور نوکر شاہی کے شاہ خرچیوں اور بدعنوانیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کے سربراہوں کے خلاف سنگین الزامات لگائے اور حکومت کے حساس اداروں سے مطالبہ کیا کہ ان چیزوں کا نوٹس لیں اور ذمی داران کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لایا جائے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے فوری اقدامات آٹھایا جائے.

    گزشتہ دنوں اسکردو پریس کلب میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بشارت ایڈووکیٹ، نجف علی، شہزاد آغا، خواجہ مدثر، شبیر مایار،محمد علی دلشاد و دیگر نے کہا کہ اسکردو کو کم سے کم 23 میگا واٹ بجلی درکار ہے لیکن اس وقت شہر کو صرف 7 میگا واٹ بجلی میسر آ رہی ہے جس میں کچورا سرمک مہدی آباد بھی شامل ہے . انھوں نے کہا کہ بجلی کی قلت کی وجہ سے عوام، تاجر، دوکاندار اور طالب علم شدید مسائل سے دوچار ہیں.

    ان رہنماؤں نے کہا کہ 13 ارب روپے سے بننے والا سد پارہ پاور پروجیکٹ کے چاروں فیزز سے واپڈا نے 17 میگا واٹ بجلی فراہم کرنا تھامگر محکمئہ برقیات اور بیوروکریسی کی نااہلی کی وجہ سے یہ اہم پراجیکٹ صف 7 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہی ہے.

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ 27 سالوں میں اسکردو کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے مگر سوائے سدپارہ ڈیم کے کوئی دوسرا میگا ترقیاتی پروجیکٹ پاور سیکٹر میں یہاں کے لئے منظور نہیں ہوا، جس کہ وجہ سے اگلے 10 سالوں تک شہر میں بجلی کا بحران رہے گا. اس بحران کی دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اشرافیہ اور بیوروکریسی کے اعلی حکام کو وی ائی پی لائینیں دینا ہے. اگر وی ائی پی کلچر ختم کیا جاتا ہے تو اس بحران میں کسی حد تک کمی آ سکتی ہے.

    انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہسپتال، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے علاوہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر سمیت تمام وی آئی پی لائینں ختم کی جائیں بصورت دیگر ہم بھر پور احتجاج کریں گے.

    ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جب سدپارہ ڈیم پر کام شروع ہوا تو پی ایس ڈی پی میں شتونگ نالے سے پانی کا رخ تبدیل کرکے ڈیم میں شامل کرنا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا. پانی کی قلت کی وجہ سے سردیوں میں بجلی کا بحران شدید ہوتا ہےتو واپڈا اور محکمئہ برقیات گلگت بلتستان ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہراتے ہیں.

    ان رہنماوں کا کہنا تھا کہ جب تک سدپارہ ڈیم کے بجلی کا انتظام محکمئہ برقیات کے حوالے نہیں کیا جاتا لوگ اس بحران سے دوچار رہنگے.

    انہوں نے اسکردو ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے اور کہا کہ ان کا کام ٹاؤن ایریاز میں رہنے والوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے. حال ہی میں ہسپتال میں لوگوں کی تفریح سمیت دیگر سہولیات کیلئے ایک ارب پچاس کروڑ روپے کا پراجیکٹ شروع ہونا تھا. ًمگر ایک اعلی عہدے دار نے پراجیکٹ شروع ہونے سے پہلے ہی اس میں مبینہ طور پر گپلہ کیا. افسوس کا مقام یہ ہے کہ سابق ڈپٹی کمشنر نے ان کے خلاف کوئی اقدامات نہیں اٹھائے اور معاملات بگڑ تے گئے.

    ان رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ چیف سکریٹری اور اپیکس کمیٹی اس پراجیکٹ میں گھپلوں کی شفاف طریقے سے چھان بین کرے.

    نجف علی نے کہا کہ اس وقت گلگت بلتستان میں کئی حساس ادارے موجود ہیں لیکن وہ اسکردو ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر اداروں میں ہونے والے ٹھیکوں میں بے قاعدگیوں پر نظر رکھنے کی بجائے سیاسی کارکنوں کو حراساں کرنے میں پھرتی دکھاتے ہیں.

    انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایک شخص چار ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بنا ہوا ہے.انہوں نے سوال کیا کہ ایک اٹھارہ گریڈ کے سرکاری ملازم کے پاس پانچ لاکھ روپے مالیت کے موبائل فون، دو لاکھ کی گھڑی اور پانچ کروڈ کےگھر کے لئے رقم کہاں سے آیا؟ کیا نیب اور دیگر انسداد بدعنوانی کے ادارے ان سے ذریعئہ آمدن معلوم کیا ہے؟ یہ عوام کے پیسوں سے بنائے گئے ہیں. ان گھپلوں میں تمام اعلی افسران شامل ہیں.

    انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر اسکردو ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ہونے والے گھپلوں کا شفاف طریقے سے چھان بین نہیں کیا گیا تو چند سالوں بعد اس ڈیپارٹمنٹ کا نام تک باقی نہیں رہے گا.
    انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی ڈبیلو ڈی اور اسکردو ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ہونے والے گھپلوں کی تحقیقات ہونی چاہئے. اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم یاد گار چوک یا پھر حمید گڑھ تک اھتجاجی مظاہرہ اور مارچ کریں گے.

    انہوں نے مزید کہا ہے کہ اسکردو میں سڑکوں کی حالت نہایت مخدوش ہے.

    انہوں نے کہا کہ ایک طرف ریڈیو پاکستان سے مشہ بروم ہوٹل تک روڈ بنوانے اور شہر کی دیگر خراب شاہراوں کی مرمت کیلئے فنڈز کی کمی کا بہانہ بنایا جاتا ہے تو دوسری جانب ہسپتال کی چار دیواری اونچا کرنے کے نام پر ایمرجنسی فنڈز سے اپنے من پسند افراد کو انوازا جاتا ہے .

    انہوں نے کہا کہ آٹاکے مسئلے پر تو لوگ یادگار چوک پہ نکل آتے ہیں لیکن کرپٹ نوکر شاہی کے خلاف اور شہر کے اہم مسائل کے لئے خاموش رہتے ہیں اورحکومت بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے.

    انہوں نے مزید کہا کہ کورونا کے نام پر درجنوں ہوٹلوں کو قرنطینہ بنانے کے لئے بک کئے گئے مگر اب تک ہوٹل مالکان کے 12 کروڈ روپے کی واجبات ادا نہیں کئے گئیے ہیں.

    ان رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ ہوٹل مالکان کے تمام بقایا جات ادا کئے جائیں.

    انہوں نے مزید کہا ہے کہ کورونا ہسپتال کے نام پر عبداللہ ہسپتال میں مریضوں کو رکھا جا رہا ہے لیکن وہاں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی سہولیات نہی دیئے جا رہے ہیں. سی ایم ایچ میں سہولیات ہونے کے باوجود لوگوں کو وہ علاج معالجہ کی سہولیات فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں. ہمیں سی ایم ایچ سے زیادہ عبداللہ ہسپتال پر بھروسہ ہے.

    ان رہنماوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد سے جلد عبداللہ ہسپتال میںکورونا کے سیمپلز کی ٹیسٹ کے لئے پی سی آر مشینیں لگوائیں اور علاج کی تمام ضروری سہولتیں فراہم کریں. اس کے ساتھ ساتھ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے تمام او پی ڈیز کھول دیئے جائیں تاکہ مریضوں کو سہولیات مل سکیں.

    انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ انتظامیہ نے کورونا کے نام پر چالیس گاڑیاں کرائے پر لے رکھی ہیں اور ان کے ایندھن اور مرمت کے نام پر بے تحاشہ فنڈ کھایا جا رہا ہے. انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہم جس دفتر میں بھی جاتے ہیں وہاں افیسران موجود ہی نہیں ہوتے ہیں دور دراز سے لوگ آتے ہیں لیکن سرکاری اہلکار موجود نہ ہونے کی وجہ سے کئی دن سکردو میں رہ جاتے ہیں.
    بیوروکریسی اور کمشنر روز میٹنگ کرتے ہیں ہمیں بتایا جائے ان میٹنگوں میں کیا فیصلے اور عوام کے لیے مسائل کو حل کرنے کے لئے کیا عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں.

    خواجہ مدثر نے الزام لگایا کہ حال ہی میں ایک کروڈ ستر لاکھ کا ٹھیکہ تین ٹھیکداروں کو جو بیوروکریسی کے ایک رکن کے پارٹنر ہیں کو نوازا گیا ہے.

    انہوں نے مزید کہا کہ مقپون پاور پراجیکٹ شروع ہونے سے پہلے ہی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹھیکدار کو کل لاگت کا پچاس فیصد جو کہ بیس کروڈ روپے بنتے ہیں ادا کئے گئے تھے. اب سننے میں آرہا ہے کہ یہ پراجیکٹ ہنزہ منتقل کی جا رہی ہے.

    انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا ہوا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے.

    انہوں نے مزید کہا ہے کہ ایمرجنسی کے نام پر سکردو میں ٹھیکے فروخت ہو رہے ہیں ان کا احتساب ہونا چاہئے. اگر یہی صورت حال رہا تو کچھ ہی عرصے میں سکردو ڈویلپمنٹ اتھارٹی یاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں تبدیل ہو جائے گا یہاں ہر چھ چھ سالوں سے ایکسین آر ایز برجمان ہیں جب تک ان کا تبادلہ نہیں ہوتا تب تک معاملات ٹھیک نہیں ہو سکیں گے.

    اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

    اپنا تبصرہ بھیجیں