409

بیگم قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ سے اہم سوالات

’میرے شوہر کو راستے سے ہٹانے کے لئے نیا پلان تیار ہے‘، بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ جمع کروا دیا.

بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں 14 جولائی 2020 کو ایک حلف نامہ جمع کروایا ہے جس میں انہوں نے آغا افتخارالدین نامی مولوی کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں دینے کے حوالے سے چند انتہائی اہم سوالات اٹھائے ہیں۔

نیا دور اخبار کے نمائیندے اسد علی طور کے مطابق بیگم فیض عیسیٰ نے اس کیس پر اب تک ہونے والی پیش رفت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

اس حلف نامے میں پولیس، ایف آئی اے اور سپریم کورٹ کے حوالے سے تو سوالات اٹھائے ہی گئے ہیں، انہوں نے چند سوالوں میں کچھ نادیدہ قوتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو کہ دلچسپی سے خالی نہیں۔

اخبار کے مطابق حلف نامے اور اس میں اٹھائے گئے اہم ترین سوالات میں سرینا عیسیٰ نے کہا ہے کہ "میں مسلمان، بالغ، قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی … حلفیہ طور پر بیان کرتی ہوں کہ بتاریخ 24 جون 2020 شام 6:15 بجے سیکرٹریٹ پولیس اسٹیشن اسلام آباد اپنے شوہر کو ملنے والی قتل کی دھمکیوں کو رپورٹ کروانے گئی۔

"میں نے اس بارے میں سوچ بچار کیا ہے کہ کیا ہوا ہے اور کیا نہیں ہوا اور میں اس بارے میں سمجھتی ہوں کہ مجرموں کو بچایا جا رہا ہے۔ 2 جولائی 2020 کو میں نے اپنے خصوصی (اٹارنی) وکیل کی وساطت سے چیف جسٹس اور کیس سننے والے ججز کو ایک خط بھیجا جسے وصول نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ درست طریقے سے بھیجیں۔ اسے میرے وکیل کو پڑھنے بھی نہ دیا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ درست طریقہ کیا ہے لیکن میں نے اسے سمجھنے کے لئے بھرپور کوشش کی۔

چونکہ سچ کا انکشاف ہونے نہیں دیا جائے گا، اس لئے میرے پاس یہ سوالات اٹھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
سوال نبمر 1: سیکرٹریٹ پولیس سٹیشن کی جانب سے ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی گئی؟
سوال نمبر 2: کیا ملک میں ہر ایف آئی آر وزارت داخلہ سے ہدایات لینے کے بعد کاٹی جاتی ہے جیسا کہ مجھے بتایا گیا؟
سوال نمبر 3: دہشت گردی کے بڑے جرم کو نظر انداز کرتے ہوئے معمولی جرم کے زمرے میں میری درخواست ایف آئی اے کو کیوں بھجوائی؟
سوال نمبر 4: ایف آئی کے مطابق میری درخواست 25 جون کو موصول ہوئی تو پرچہ 29 جون کو کیوں کاٹا گیا؟ یہ دیر کیوں ہوئی؟
سوال نمبر 5: ایف آئ نے تب ہی ایف آئی آر کاٹی جب اسے معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ دہشتگردوں کو کیوں بچایا گیا؟
سوال نمبر 6: ایف آئی اے کی رپورٹ میں جرم کے رپورٹ کیے جانے کا وقت 26 جون 2020 شام 6 بجے کیوں لکھا گیا ہے جب کہ پولیس کو اس کی رپورٹ اس سے چھ دن پہلے 24 جون کو شام 6 بج کر 15 منٹ پر جمع کروائی جا چکی تھی؟
سوال نمبر 7: ٹی وی چینلز شدید طور پر سنسر کیے جا چکے ہیں۔ مجھے یو ٹیوب چینلز سے معلوم ہوا ہے کہ وہ شخص جس نے سپریم کورٹ کے جج کو قتل کرنے کی دھمکی دی، وہ نہ ڈرا، نہ چھپا اور نہ ہی بھاگا۔ کیوں؟
سوال نمبر 8: قتل کی دھمکی دینے والا شخص 26 جون کو سپریم کورٹ آیا، اسے وہاں گرفتار کیوں نہ کیا گیا؟
سوال نمبر 9: یو ٹیوب چینلز نے بتایا کہ دھمکی دینے والا شخص جب سپریم کورٹ آیا تو وہ پر سکون تھا، اسے چائے پیش کی گئی اور حفاظتی پروٹوکول دیا گیا۔ کیا ایک ایسے شخص کو جس نے سپر یم کورٹ کے جج کو قتل کی دھمکیاں دی ہوں، اس سے ایسے پیش آیا جاتا ہے؟
سوال نمبر 10: اس شخص کی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 26 جون کو اس کے مؤکل کو عدالت نہیں آنے دیا گیا۔ ایسا کیوں؟ اس لئے کہ اگر وہ اس دن عدالت آجاتا تو وہ بتا دیتا کہ اس نے ویڈیو کس کے لئے بنائی۔
سوال نمبر 11: یہ جرم 24 جون کو ہوا۔ میں نے اس کا فون نمبر، تصویر اور پتہ بھی فراہم کر دیا تھا تو اس کی گرفتاری کے لئے 6 دن کیوں لگ گئے؟
سوال نمبر 12: اگر اسے فوری طور پر گرفتار کر لیا جاتا، اس کے کمپیوٹر، کیمرا اپنی تحویل میں لے لیے جاتے تو اسے وہ تمام معلومات ضائع کرنے کا موقع نہ ملتا اور ممکن تھا کہ ان معلومات کے ذریعے ان تک پہنچا جا سکتا جن کے لئے یہ کام کرتا تھا۔ کیوں ایک دہشت گرد کو یہ اہم ترین معلومات ضائع کرنے کا موقع ملا؟
سوال نمبر 13: کیوں اس کی رہائش گاہ اور دفتر کی تلاشی نہیں لی گئی؟
سوال نمبر 14: اس کا ذریعہ روزگار کیا ہے؟
سوال نمبر 15: اس کے مذہبی اور دیگر رابطہ کار کون ہیں؟
سوال نمبر 16: کیوں سپریم کورٹ کے 17 اور دیگر عدالتوں کے اعلیٰ ترین ججز میں سے میرے ہی شوہر کو چنا گیا؟
سوال نمبر 17: اس شخص نے فوج کو کیوں داغدار کیا؟ اور آرمی چیف کی تصویر کیوں استعمال کی؟
سوال نمبر 18: میں نے اپنے پولیس بیان میں کہا ہے کہ مجھے شک ہے کہ یہ معاملہ میرے شوہر کے خلاف عبدالوحید ڈوگر کی درخواست کی کڑی ہے جب کہ اس ملزم نے بھی اقرار کیا کہ وہ عبدالوحید ڈوگر سے ملا تھا۔ اس حوالے سے ان دونوں سے سوال کیوں نہیں ہوا؟
سوال نمبر 19: میں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ عبدالوحید ڈوگر جس کے لئے کام کرتا ہے وہی اس سب کا ماسٹر ہے اور وہی میرے شوہر کو راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ عبدالوحید ڈوگر نے صحافی احمد نورانی کے کیس میں بھی پولیس کو گمراہ کیا تھا۔ اس سے اس بارے میں سوالات کیوں نہ ہوئے؟
سوال نمبر 20: ایف آئی اے کو اپنی رپورٹ میں یہ کیوں لکھنا پڑا کہ اس شخص نے اس سے انکار کیا کہ وہ یہ سب کسی کے کہنے پر کر رہا ہے؟ کیا ایف آئی اے ضرورت سے زیادہ اس کا خیال کر رہی ہے؟
سوال نمبر 21: ایف آئی اے نے اس دہشت گرد سے کیوں نہ پوچھا کہ اس نے میرے شوہر کے خلاف یہ ویڈیو کیوں بنائی؟
سوال نمبر 22: ملک کی تمام انٹیلی ایجنسیوں نے ابھی تک کیا کیا اور کیا پایا؟
سوال نمبر 23: کیا آئی ایس آئی کے سربراہ سے اس سنگین جرم کے حوالے سے رابطہ کیا گیا؟
سوال نمبر 24: میں نے پولیس کو دی گئی اپنی درخواست میں کہا تھا کہ مجھے ایف آئی آر کی کاپی فراہم کی جائے تاکہ میں جان سکوں کہ اس کیس پر کیا پیش رفت ہوئی۔ تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی میں ایسا کیوں نہ ہوا؟
کیا میرے اٹھائے گئے نکات پر کچھ ہوگا یا سپریم کورٹ کے ایک جج کو قتل کی دھمکیاں مکمل تحفظ کے ساتھ دیے جانے کی اجازت ہے؟
جس طریقے سے جرم کی اس واردات کو ڈیل کیا گیا ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ میرے شوہر کو ہٹانے کے لئے اب ایک براہ راست طریقے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں