381

قربانیاں دن کے اجالے میں دی ہے

تحریر: شکورخان ایڈوکیٹ

گھر اور ساری زرعی زمینیں جھیل میں ڈوب گئیں، جانوں کے سوا کچھ پاس نہ رہا تو عطا آباد ہنزہ کے متاثرین نے ریاست پاکستان سے راشن اور سر چھپانے کی جگہ مانگی، انہیں امداد فراہم نہیں کی گئی۔ متاثرین نے احتجاج کیا تو شیلینگ اور لاٹھی چارج ہوا، جس دوران چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اور وزیر اعلی کے گارڈز و دیگر پولیس نے سیدھا فائر کرکے مظاہرین میں سے دو متاثرین کو قتل اور متعدد کو زخمی کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مقتولین میں سے ایک باپ تھا دوسرا بیٹا تھا۔

قتل کے خلاف عوام نے احتجاجی مظاہرہ کیا تو بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں، عقوبت خانوں میں نوجوانوں پہ انسانیت سوز تشدد کیا گیا۔ غریب خاندانوں کے بارا لڑکوں پر سنگین فوجداری مقدمات قائم کئے گئے، یہ جوان 2010 سے قید ہیں۔ قیدی افتخار کو نویں سال اور باباجان سمیت دیگر کو ستر ستر سال کی سزائیں سنا کر جیل میں ڈالا گیا ہے۔

غذر جیل کے ان قیدیوں میں بابا جان، افتخار حسین ، عرفان کریم، کامریڈ علیم، سلطان کریم، راشد منہاس، مٹھو و دیگر پانچ شامل ہیں۔

سلمان کریم گھریلو پریشانی اور پولیس تشدد کی وجہ سے ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے انہیں پیمز PIMS ہسپتال داخل کیا گیا تھا لیکن بغیرعلاج کے واپس غذر جیل منتقل کیا گیا۔
قیدی راشد منہاس کو دل کا عارضہ لاحق ہے، ڈاکٹروں نے فوری انجیوگرافی کا مشورہ دیا ہے لیکن ریاستی طاقت نہیں چاہتی کہ اس دل کے مریض کا علاج کیا جائے۔

گلگت بلتستان کے نامور حریت پسند ریٹائرڈ اسسٹنٹ کمشنر مشتاق احمد صاحب کو شیڈول فور میں ڈال کر علاج تک رسائی نہیں دی گئی، دوسرا رستہ نہ پا کر انہوں نے بذریعہ ڈاک دوائیاں منگوائی تو پارسل کی سیل توڑ کر مطلوبہ دوائی کی جگہ زہریلی دوائی رکھ دی گئی جسے کھا کر وہ گزشتہ دنوں جان بحق ہوگئے۔

ماضی میں حیدر شاہ رضوی اور ایس۔ایس۔پی امیر حمزہ کے ساتھ بھی ایسا ہی خونی کھیل کھیلا گیا۔

گلگت بلتستان کے باشعور جوانوں نے حقوق کے حصول کے لیے پرامن جدوجہد کیا تھا ہمیں پھر بھی جانوں کی قربانی دینی پڑی۔ غازی انور نے ایام جلاوطنی میں سیاسی جدوجہد کے دوران دیار غیر میں جان کا نذرانہ پیش کیا۔

ہم انہیں نہیں بھولے، یہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ ایسی ہی قربانیوں کے طفیل ہمیں حق ملے گا یا آزادی ملے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں