440

پردیسی چترالیوں کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کا رویہ


کہتے ہیں ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے۔ مشکل گھڑی ہو یاخوشیوں کے لمحات، ماں اپنی لخت جگر کو کبھی بھی اپنے آغوش سے دور نہیں رکھنا چاہتی ہے۔ جب سے اس کرونا وائرس کی وباء پاکستان سمیت دنیا، بھر میں پھیلنا شروع ہوا ہے، ہر والدین کو اپنے بچوں کی اور ہر بچے کو اپنے والدین کی فکر میں ڈال دیا ہے۔

اس پریشان کن دور میں ریاستی اداروں بالخصوص وفاقی حکومت اور چترال کے دونوں اضلاع کے انتظامیہ کا لوگوں کے ساتھ جورویہ دیکھنے میں آیا ہےوہ انتہائی افسوسناک ہے۔ پائین اور بالا چترال میں دیکھاوے کے قرانطینہ سنٹرز بنانے کا شوشا رچایا گیا ہے. ان میں رکھیں گے کس کو؟ جب آپ دونوں سرحدوں (شندور اور لواری ٹنل) پر آرمی کے جوان بٹھاکر بند کر دیا گیا، اور لوگوں کا داخلہ چترال میں بند ہے تو ان سینٹرز میں جو لوگ ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں؟
خبر تو دردناک اور اذیت ناک ہے۔ ملک کے مختلف حصوں راولپنڈی، اسلام اباد اور گلگت میں محصور سیکڑوں نوجوان،بزرگ، تعلیم ےا روزگار کی غرض سے مقیم ہیں ، اب بے سارو سامان کی کیفیت میں مبتلا ہیں ، انکا کوئی پرسان حال نہیں ۔ شہر میں مزدوری بند، ہاسٹلز بند، ہوٹل بند، یونیورسٹیاں بند، عبادت گائیں بھی بند ۔ اب یہ بے چارے جائے تو کہان جائی.ں کب تک کسی کے مہمان بنتے رہیں, کس کس کے در پے دستک دیتے رہیں گے ۔ یہ اپنے گھروں کو جانے کے لئے ترستے ہیں ۔ انکا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ۔ چترال جو کہ اذل سے قیادت کا فقدان رہا ہے ۔ جسکا تسلسل بدقسمتی سے جاری ہے ۔ منتخب نمائیندے اپنے مزے لوٹ رہے ہیں ، جو ہارے ہیں وہ آرام فرما رہے ہیں ۔ جب انتخابات کا وقت ان پہنچے گا، سب ہوشیار ہوں گے، شوبازیان کرتے نطر ائیں گے ۔ حقیقی معنوں میں چترال کا کوئی بھی ترجمان تاریخ میں نہیں ملا ہے ۔ اگر اڈمینسٹریشن کی بات کئی جائے، انھوں نے دو چار فوج کے جوان بندوق کے ساتھ داخلی راستوں میں لگا رکھے ہیں ۔ اوپر سے دیر پولیس کو نمٹنے کا حکم دئے گئے ہیں ، باقی سب خوب جانتے ہوں گے کہ دیر پولیس کیسے نمٹتے ہوں گے ۔ بے سہارے کرے تو کیا کریں ، بس جان بچا کر مایوسی کی حالت میں واپسی یا ادھر ہی خواری ہی کو برداشت کرکے دن گزارنے پر مجبور ہیں ۔
غذر کے نوجوان صحافی فدا علی شاہ غذری کے مطابق، گلگت میں مزدوری کرنے والے پچیس کے قریب چترالی شہریوں کو براستہ شندور چترال داخل ہونے سے روکدی گئی ہے ۔ تمام مزدور بے سرو سمانی اور پریشانی کی حالت میں واپس پھنڈر پہنچ گئے ہیں ۔ جہان پر ایک رات کے لیے انسانیت کے ناطع انکو ٹھہرانے کا بندوبست کیا گیا ہے ۔ ان مزدوروں کو تمام طبعی اسکریننگ کے مراحل سے گزارکر چترال سفر کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ لیکن انکو گلگت واپس بیجھنے کی تیاری کی گئی ہے ۔

یہان تصویر کا دوسرا رخ گلگت بلتستان حکومت کا رویہ بھی آپ ملاحضہ کیجئے ۔ جب پورے پاکستان میں پریشانی کا سماں ہے، گلگت بلتستان کے بہت سارے لوگ ملک کے مختلف شہروں میں تعلیم، روزگار اور کاروبار کے غرض سے مقیم تھے،ان سب کو گلگت بلتستان کی حکومت گلگت اور اپنے گھروں تک پہنچانے میں بھرپور مدد مراہم کر رہا ہے ۔ گلگت بلتستان کے چیف منسٹر نے اپنے میڈیا کوارڈینیٹر اور وزیر قانون کو یہ ڈیوٹی لگائی ہے، تا کہ وہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی، اسلام اباد میں پھسے گلگت بلتسان کے شہریوں کو دوسرے صونے کے حکومت سے رابطہ کرکے باحفاظت انکے گھروں تک پہنچائے جا سکیں ۔ گلگت بلتسان کے گورنمنٹ کا یہ عمل قابل تعریف ہے ۔
میری تمام سیاسی نمائیندوں اور ڈسٹرکٹ اڈمنسٹریشن سے اپیل ہے، اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھیں ، دونون طرف سے انے واے چترالیو ن کو مناسب اسکریننگ کے بعد اپنے گھروں تک رسائی کے لئے انکی مدد کی جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں