582

پروفیسر خالد حمید کی بیہمانہ قتل

تحریر: وجیہہ الحسن

Professor Khalid Hameed

دنیا میں انسان بہت سے لوگوں کے سامنے زانو تلمذ طے کرتا ہے لیکن ان میں سے چند ہی ہوتے ہیں جو آپکو زانو سے پیروں پر کهڑا ہونا سکهاتے ہیں اور پهر اڑنا، سر خالد حمید بهی وہی استاد تهے.. کتنا عجیب لگ رہا کہ اس انسان کے نام کے آگے بهی "تها” لگانا پڑا.
آج کا دردناک اور لرزه خیز واقعہ ہم سب کے سامنے ہے ایک مذہبی جنونی طالبعلم نے اپنے ہی استاد کا خنجر سے قتل کردیا، یہ دکھ اس قدر بڑا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل کہ ایهی اس عظیم ہستی کو سپردخاک کر کےآیا ہوں، طبیعت اجازت نہیں دے رہی لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح اس واقع کو رنگ دیا جارہا ہے تو مجبوراً لکهنا ضروری ہے سب سے پہلے آپ کو مختصر سر کا اور اس بدبخت قاتل کا تعارف اور پهر اس واقع کی مسلم روداد سناتا ہوں.
سر خالد حمید ایس ای کالج شعبہ انگلش کے مایہ ناز استاد تهے آپکی علمی استعداد، آپکا انداز بیان، بہاولپور کا ہر وه طالب علم جس نے آپکا ایک لیکچر بهی لیا آپکا گرویده ہوگیا، یہ بات آج ایس ای کالج کے گراؤنڈ میں جنازے میں موجود نوجوان طلبا کی تعداد نے ثابت بهی کردی، صوم و صلواة کے پابند، نفیس لہجہ، سٹوڈنٹ کے حق کی خاطر خود تکالیف برداشت کرنی، ہر لحاظ سے انکو سپورٹ کرنا کوشش کرنا کہ کوئی کولیگ تو دور سٹوڈنٹ بهی آپ سے خفا نہ ہوجائے کسی کولیگ کی بلواسطہ بهی برائی نہیں کی ، ڈائس سے کبهی کوئی غیراخلاقی یا مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ کبهی مذہب کو چهیڑا تک نہیں یہ بات میں تبهی کر رہا ہوں کہ 3سال انکے پاس پڑها ہے وقت گزارا ہے سفر کیا ہے حال دل سنا اور سنایا ہے یہ باتیں محض لیپا لپٹی نہیں انکا ہر سٹوڈنٹ تائید کرے گا.

پهر آخر اس پیارے انسان کو انہی کے سٹوڈنٹ نے مارا کیوں؟

خطیب حسین 5th سمسٹر کا لڑکا ہے یعنی میرا جونئیر، یزمان کا رہائشی یہ لڑکا مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے اسکے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ پچهلے چھ مہینوں سے اس کا انداز تهوڑا مختلف ہو گیا مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مزاق کی گپ شپ کو بهی حرام قرار دیتا اور ایک بار تو مولانا خادم کا فتوی پیش کیا کہ ہنسنا حرام ہے پڑهنے میں بہتر تها کلاس میں خاموش رہتا.
سر نے پانچویں سمسٹر میں انکو پڑهانا شروع کیا یعنی ابهی 2ماه ہی ہوئےتهے.
ہماری اینول پارٹی کا وقت آن پہنچا پارٹی سے 2دن پہلے پورے کالج میں پروپیگنڈا کے تحت پمفلٹ لگے ہوئے پائے گئے کہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کی ہونے والی پارٹی کنجرخانہ ہے یہاں فحاشی ہوتی ہے یہاں یورپیین کلچر کو لایا جا رہا یہ اسلام کے منافی ہے اور نیچے منجانب طلبہ لکها ہوا تها یہ پمفلٹ نہیں معلوم کس نے بنوایا جس نے بهی بنوایا اس سے میرے دو سوال ہیں
1-جب پارٹی ابهی ہوئی نہیں تم پر وحی اتری کہ پارٹی میں یہ سب ہونے جا رہا ہے؟
2-اتنی سلیس اردو میں لکهے پمفلٹ میں محض انگلش ڈیپارٹمنٹ کا نام کیوں باقی ڈیپارٹمنٹس کی پارٹی پر سانپ سونگھ گیا تها؟
(پارٹی دراصل ایک اینول ڈنر ہوتا ہے جس کی تیاری سر خالد کے ساتھ مل کر ہم سبهی طلبہ و طالبات مل کر کرتے جس کا آغاز تلاوت قران پاک اور نعت سے ہوتا ہے)

اس پمفلٹ واقع کے اگلے دن صبح جب سر آفس میں آئےتو خطیب حسین انکے پیچهے کمرے میں چلا آیا اور نیچے گرا کر پہ در پہ خنجر کے وار کرتا رہا ہمارے چونکہ لیکچرز دیر سے ہوتے تو صبح کے وقت زیاده تعداد نہیں ہوتی ایک لڑکی نے جیسے ہی دیکها تو چیخ مار کر بیہوش ہوگئی اسکی چیخ کی آواز سے لڑکے بهاگ کر گئے تو دیکها وه جنونی خنجر سے مار کر خود اطمینان سے کرسی پر بیٹها ہے۔ ایمبولینس آگئی ڈولفن پولیس پہنچ گئی سر تو اسی وقت دم توڑ گئے اسی موقع پر جب ایک اہلکار نے خطیب سے پوچها کہ تم نے وار کیوں کیا تو اسکا کہنا تها کہ یہ اسلام کے خلاف بولتا تها،
اس بدبخت نے سراسر جهوٹ بولا ہے، سر کو پڑهاتے 20 سال سے اوپر ہوگئے ہوں گے آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وه ایسا کچھ کہیں گے سر نے 10 سال سعودی عرب میں گزارے ہیں 3 سے 4 بار حج کر رکها ہے، ہر جمعہ ایک خوبصورت شلوار قمیض میں آتےاور لیکچر کے آغاز میں خدا کی نعمتوں کا ذکر اور اسکا شکریہ ادا کرنے کی تلقین ہوتی یہ انکی فطرت تهی انکا بس جرم یہ تها کہ وه منافق نہ تهے میں نے تین سالوں میں اس جیسا خوبصورت انسان نہیں دیکها جو ایک وقت میں انگریزی ادب کا بہترین معلم، اسی لمحےایک اچها مسلمان، ایک اچها دوست اور شفیق والد تها.

خطیب حسین نے یہ سب خود نہیں کیا یقیناً اس کے پیچهے وه سوچ کار فرما ہے جس سے نہ مشعال خان بچ سکا اور نہ اب سر خالد. یہ عجیب بات ہے کہ آپ کسی ذاتی عناد کی وجہ سے اسے اسلام دشمن کہیں اور قتل کر دیں یہ کون سا اسلام اجازت دیتا ہے ایسے تو اب جس کا دل چاہے وه نوٹس لگائے اور اگلے دن اسے قتل کردے کیا یہی وه اسلام تها جو فتح مکہ کے موقع پر دیکهنے کو ملا؟ نہیں یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام کا استعمال ہے اپنی رنجشوں کی آڑ میں آخر کب تک ہم ان جهوٹے انتہا پسند مولویوں کی وجہ سے جانیں گنوائیں گے، کب تک ہم اپنے معلم، دانشور کهوئیں گے؟
آج صرف سر خالد کا قتل خطیب حسین کے ہاتهوں نہیں ہوا بلکہ علم کو جہل نے خنجر سے مار ڈالا۔
اس واقع کی انکوائری جاری ہے، اس پوسٹ کو لکهنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ غلط پروپیگنڈا میں مت آئیں نہ اسے آگے پهیلائیں، بلکہ آواز بلند کریں ایک معلم آج اس معاشرے میں انصاف مانگ رہا ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں