429

چترال: سیلاب متاثرین کا حکومت کے خلاف احتجاج

امدادی کاموں اور بحالی کے کام میں تاخیر پر متاثرین کا احتجاج، چترال-مستوج روڈ کئی گھنٹوں تک بند رکھا گولین کو سیلاب نے تباہ کیا مگر ابھی تک بحالی کا کام مکمل نہیں ہوا۔

رپورٹ: گل حماد فاروقی

چترال کی خوبصورت وادی گولین میں 14 جولائی کو جو تباہ کن سیلاب آیا تھا جس کے نتیجے میں علاقے کی سڑکیں، پل، پائپ لائن وغیرہ سب کچھ سیلاب میں بہہ چکے تھے وہ ابھی تک بحال نہیں ہوسکا. جس کے خلاف علاقے کے لوگوں نے ہفتہ کے روز چترال-مستوج روڈ پر احتجاج کیا اور سڑک کو کئی گھنٹوں کیلئے بند رکھا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس وادی میں پچھلے سال سات جولائی کو بھی سیلاب آیا تھا جس میں وزیر اعظم عمران خان کی بہن حلیمہ خان پھنس چکی تھی اور ان کو بزریعہ ہیلی کاپٹر اس وادی سے نکالا گیا تھا. لیکن مقامی لوگوں کی امداد کے لئے ہیلی کاپٹر تو درکنار کوئی موقامی نمائندہ تک پوچھنے کے لئے نہیں آیا.

مگر اس بار چودہ جولائی کو ایک بار پھر سیلاب آیا مگر ہیلی کاپٹر تو دور کی بات ہے کسی ذمہ دار شحص نے ا بھی تک متاثرین کا حال تک نہیں پوچھا۔

ان متاثرین کا کہنا ہے کہ یہاں 107 میگا واٹ کا پن بجلی گھر بھی بنا ہوا ہے اور بجلی گھر کے لئے پانی کا تالاب تک سڑک واپڈا کی ملکیت ہے.جس میں نہایت ناقص مواد استعمال ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واپڈا کے اہلکاروں اور ٹھیکدار کی ملی بھگت سے گولین نالہ پر نہایت ناقص پُل بنایا گیا ہے جن کے ارد گرد حفاظتی دیوار نہیں بنیاگیا تھا جس کی وجہ سے معمولی سیلابی ریلہ نے پل کو بہا کے لے گیا. مگر کسی نے ذمہ دار ان یا ٹھیکدار کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔

مقامی لوگوں نے اپنی مددآپ کے تحت ان تباہ شدہ پُلوں کے دونوں جانب پائپ رکھ کر ان کے درمیان بوری میں مٹی بھر کرے چلنے کے قابل بنائے ہوئے ہیں ان دو پائپوں پر لوگ رسی کی مدد سے گز رتے ہیں مگر جہاں رسی باندھنے کی جگہہ نہیں ہے وہاں انتہائی خطرناک ہے اور کسی بھی وقت کوئی بھی شخص دریا میں گر سکتا ہے۔

پچھلے سال بھی لوگ پائپ لائن بحال کرتے وقت تین افراد دریا میں گر کر جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں سے ایک کی لاش ابھی تک نہیں ملی۔

ولی الرحمٰن جو متاثرین میں شامل ہیں، نے بام جہان اور ہائی ایشاء ہیرالڈ کے نمائندے کو بتایا کہ سیلاب کو آئے ہوئے ایک ہفتہ گز ر چکا ہے مگر ابھی تک پیدل چلنے کیلئے بھی انتظامیہ نے وقتی طور پر کوئی عارضی راستہ نہیں بنا سکے۔

"ہم نے ڈپٹی کمشنر سے تین مطالبے کئے تھے مگر ابھی تک ایک بھی پورا نہیں ہوا۔

ایک اور متاثرہ شخص رحمت وزیر نے بتایا کہ ان کا علاقہ سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا مگر ابھی تک نہ راستہ بحال ہوا نہ پانی۔ بلکہ واپڈا کا ٹھیکدار محکمہ کے افسران کی ملی بھگت سے غلط جگہہ میں کام کررہا ہے. ہم نے بارہا سمجھایا کہ جہاں سیلاب آیا ہے وہاں پہاڑی کاٹ کر سڑک کو کشادہ کرے مگر وہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے اور پچھلے سال سیلاب کی وجہ سے تباہ شدہ پل جو اس نے بنائے ہیں اس پر کروڑوں روپے لاگت آئی ہے مگر ان پلوں کے آگے پیچھے کوئی سائڈ وال نہیں تھی یہاں صرف مٹی بھرا ہوا تھا اور واپڈا کے کنسلٹنٹ نے بھی اس پر آنکھیں بند کی تھی . یہ پل ایک ہی ریلے میں تباہ ہوئے اور اب لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دریا پر پائپ رکھ ان کے اوپر گزرتے ہیں جن میں خواتین، بچے، ضعیف لوگ اور مریض بھی شامل ہیں۔

صوبیدار رحمت نے بتایا کہ "ہمارے گھر بارہا تباہ ہوئے، راستے ختم ہیں، ہم ایک تھیلہ آٹا بھی کندھے پر اٹھاکر کئی کلومیٹر دور پیدل جانے پر مجبور ہیں مگر واپڈا والے ٹس سے مس نہیں ہورہے اور ابھی تک پیدل چلنے کا سڑک بھی بحال نہیں کرسکے۔

گولین وادی کے اندر اس چھوٹے دریا پر مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت دریا پر پائپ رکھ کر عارضی پل بنارہے تھے۔

مقامی لوگوں نے یہ بھی شکایت کی کہ یہاں گلوفGLOF 2 کے نام پر 2017 میں UNDP کا ایک پراجیکٹ آیا ہے مگر وہ صرف اپنے ٹی اے ڈی اے بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں کرتے اور کسی کو پتہ بھی نہں ہے کہ ان کیلئے ایک پراجیکٹ بھی آیا ہوا ہے وہ اپنا وقت پورا کرکے کاغذی کاروائی میں سب کچھ اچھا ہے دکھاکر چلے جائیں گے۔

ایک مقامی شحص نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ جب گولین بجلی گھر کوریا کی کمپنی بنارہے تھے تو ایک کوریائی انجنیر نے واپڈا والوں کو پیش کش کی کہ وہ نہایت کم خرچ پر یہاں پہاڑ میں سرنگ بنا سکتا ہے جس سے پانی سرنگ کے اندر جائے گا اور راستہ محفوظ ہوگا مگر واپڈا والوں نے اپنا منظور نظر ٹھیکدار کو فائدہ پہنچانے کیلئے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا مگر اس کی بات نہیں مانا جس پر وہ غیر ملکی انجنیر نہایت حیران ہوا کہ پاکستان کو اپنے ہی سرکاری ادارے کیسے لوٹ رہا ہے۔

ان متاثرہ لوگوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ سے اپیل کی ہے کہ گولین میں بحال کاری کے مد میں جو کروڑوں روپے کاغذات میں خرچ ہوئے ہیں اور جن اداروں نے اس وادی کے نام پر فنڈ کھایا ہے ان کے حلاف جوڈیشل انکوائیری کرکے ان سے وہ فنڈ واپس لیا جائے اور اس علاقے کے تحفظ کیلئے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جائے۔
بعد میں ضلعی انتظامیہ کی یقین دہانی پر ان لوگوں نے اپنا احتجاج حتم کیا۔ ہمارے نمائندے نے واپڈا کے ریذنٹ انجنیر سے بھی ان کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں