کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے

تحریر: کریم اللہ کھوار زبان چترال کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور سوات کے علاقہ کلام میں بولی جاتی ہے۔ چترال کی سب سے بڑی زبان ہونے کے...

421

ہندرپ واقعہ، غذرپولیس کی کارکرگی اور زرد صحافت پر آٹھنے والے سوالات

ایک مقامی صحافی محبوب عالم کی چشم کشا رپورٹ


غذر کے صحافی حضرات اپنے گھروں میں بیٹھ کر جھوٹ پے جھوٹ بول رہے ہیں. ہم ابھی ہندرپ سے گوپس پہنچے ہیں اور وہاں کے حالات صحافیوں کے بریکنگ نیوز کے بلکل برعکس ہیں.
غذر پولیس ہندرپ اور چھشی نالے میں موجود ہیں اورکسی نے بھی کوہستان بارڈر کراس نہیں کیا ہے.
چند زرد صحافت کے علمبرداروں نے کوہستان میں جرگہ بھی بٹھایا ہے اور مغویوں کو غذر پولیس کے حوالے بھی کروایا ہے.
ہندرپ کے ایک نوجوان تاج اکبر جو کہ دہشت گردی کے واقعے سے بچ کر گاؤں واپس آیا ہے کے مطابق تیس مسلح افراد نے اچانک راستے میں انہیں گھیرا اور بندوق کے زور پہ اپنے کمانڈر حمزہ ملک کے پاس لے گئے جو رشتے میں افرین ملک کا بھائی ہے. انہوں نے چار جوانوں افسر ولی, علی شیر, اکرام علی شاہ اور جہانگیر کو اغوا کر کے لے گئے جبکہ تاج اکبر کے ساتھ دو جوانوں کو اپنا مطالبہ بتا کر ہندرپ واپس بھیج دیا. اُن اغوا کاروں کا مطالبہ ہے کہ ہندرپ نالے کو افرین ملک کے نام الاٹ کرکے مغوی جوانوں کو لے جاسکتے ہے.

تاج اکبرنے گاؤں پہنچ کرعمائدین کو واقعے کی اطلاع دی اورعمائدین تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے پہنچ گیے. ایس ایچ او مرزا حسن بیان سننے کے بعد عمائدین ہندرپ کے سامنے افرین ملک کو کال کیا. موبایل فون پر گفتگو کے دوران دونوں کے درمیاں تلخ کلامی ہویی اورافرین ملک نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوے گلگت سے فرار ہوگیے.

اگلے دن پولیس ڈی ایس پی اکبر حسین، ایس ایچ او مرزا حسن اور چند نفری پولیس کے ہمراہ حمزہ ملک کے تعاقب میں نکلے. ہندرپ کے عوام نے راشن سمیت گاؤں کے چند جوانوں کو بھی پولیس کےساتھ بھیج دیا. اُن میں تاج اکبر بھی شامل تھا .
تاج اکبر کے مطابق راستے میں ڈی ایس پی اکبر حسین نے ہندرپ کے جوانوں کے ساتھ تلخ کلامی بھی کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس نالے کو افرین ملک کے حوالے کر دو ورنہ تمہاری خیر نہیں. تاج اکبر کے مطابق ڈی ایس پی اکبر حسین نے ایس ایچ او مرزا حسن اور دیگر پولیس اہلکاروں کو غذر باڈر کراس کرنے سے روک دیا اور واپس ہندرپ نالے جانے کا حکم دے دیا.

تاج اکبر اور دیگر گاؤں کے جوان دلبرداشتہ ہوکر واپس گاؤں آگئے اور عمائدین کو حالات سے اگاہ کیا. جس سے عوام میں بے چینی پھیل گئی اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا.

آج چوتھا دن ہے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے. حکومتی نمائندے اور انتظامیہ کے عہدیداران نے عوامی کمیٹی سے مزاکرات کی کوشش کی مگر ناکام رہے.گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت فدا خان نے جھوٹا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ کوہستان کے لوگوں نے جرگے کے ذریعے ہمارے جوانوں کو بازیاب کرایا ہے کل ہمارے حوالے کیا جائے گا. عوام نے تمام جھوٹے دعوے اور مذاکرات کو مسترد کیا اور کل بروز ہفتہ 20 جولائی کو ہندرپ, پھنڈر, ٹیرو اور آس پاس کے گاؤں سے گوپس کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں