420

’یونیورسٹی تو کیا، پاکستان کی تاریخ میں کسی نے اتنے میڈل نہیں لیے‘

تحریر: زبیر محمد خان
پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹری کے شعبے میں خواتین میڈیکل کالجوں کے محدود وسائل استعمال کر کے ایک طرح سے ضائع کر دیتی ہیں کیونکہ عموماً شادی کے بعد وہ پریکٹس نہیں کرتیں۔ اس رائے میں کتنی صداقت، کتنا جائز گلہ، اور کتنا صنفی امتیاز پنہاں ہے، دو پاکستانی لڑکیوں نے اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔

خیبر پختونخوا کی مژدہ سبحان نے حال ہی میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور سے ایم بی بی ایس میں 19 گولڈ میڈل حاصل کیے ہیں۔ ادھر پنجاب میڈیکل یونیورسٹی فیصل آباد کی رعنا اسلم نے بی ڈی ایس میں 18 گولڈ میڈل لیے ہیں۔

پاکستان میں سرکاری طور پر یہ ریکارڈ تو نہیں رکھا جاتا کہ ماضی میں کس نے کتنے میڈل لیے تاہم دونوں یونیورسٹیوں کے حکام کا کہنا ہے کہ اپنی اپنی یونیورسٹی تو کیا، عین ممکن ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ڈاکٹری کے کسی طالب علم نے اتنے میڈل نہیں لیے ہوں گے۔
مژدہ سبحان کی تو پوری تعلیمی زندگی قابلِ رشک ہے۔ میٹرک میں پشاور بورڈ میں تیسری پوزیشن لینے کے بعد انٹرمیڈیٹ میں نہ صرف پشاور بورڈ ٹاپ کیا بلکہ پورے صوبے میں سب سے زیادہ نمبر لیے۔ میڈیکل کالج انٹری ٹیسٹ میں پورے صوبے میں پہلے نمبر پر آئی تھیں۔

وہ بتاتی ہیں ’بچپن میں ڈاکٹر بننے کا شوق نہیں تھا بلکہ والدہ کی طرح استاد بننا چاہتی تھی۔ مگر مجھ سے بڑی بہنوں نے جب میڈیکل کی تعلیم حاصل کی، جو اب ڈاکٹر بن چکی ہیں، تو میں نے بھی میڈیکل ہی میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔`

رعنا اسلم کی کہانی سن کر لگتا ہے کہ ان کی ہمت جیسے پہاڑ چیر دیتی ہو گی۔ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی رعنا کے مرحوم والد ایک بینکر تھے اور ان کا بچپن لاہور، اسلام آباد کے علاوہ مختلف شہروں میں گزرا۔ مگر اس مشکل کے باوجود وہ سکول میں متواتر پہلی پوزیشن لیتی رہیں۔ ’میں جانتی تھی کہ دنیا اتنی آسان نہیں ہے اور صرف تعلیم اور اعلیٰ نمبروں سے کامیابی ہی میرے لیے بند راستے کھول سکتی ہے۔ اس وجہ سے پڑھائی میں وہ سب کچھ کیا جو ممکن تھا۔’
مگر ان لڑکیوں نے اپنی ذہانت کا سکہ منوا کر کہانی یہیں چھوڑ نہیں دی۔ یہ دونوں لڑکیاں قدامت پسند معاشرے کا حصہ تو ہیں مگر مندرجہ بالا الزام کے برعکس وہ نہ صرف مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں بلکہ پاکستان کی خدمت کرنے کے لیے پرعزم بھی ہیں۔

’میں سیلف میڈ ہوں‘
مژدہ کہتی ہیں ان کی دلچسپی انٹروینشنل ریڈیالوجی میں ہے۔ ’اس شعبے کی تربیت کے لیے اگر بیرون ملک گئی بھی تو واپس آؤں گی اور پاکستان ہی میں خدمات انجام دوں گی۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں انٹروینشنل ریڈیالوجی کا ایک ایسا مرکز قائم کروں جہاں پر ہر امیر اور غریب کو یکساں علاج کی سہولتیں دستیاب ہوں۔‘

رعنا اسلم خود جانتی ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کو صحت کے شعبے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ’حقیقت یہ ہے کہ میں سیلف میڈ ہوں۔ بچپن ہی سے خواہش تھی کہ میں کچھ ایسا کروں جو یاد رہ جائے، بھرپور کامیابیاں حاصل کروں جس کے لیے میں نے اپنی دنیا خود بنانی کی ٹھانی تھی۔‘

رعنا کا کہنا ہے کہ اس راہ پر انھوں نے کبھی کسی مشکل کو حائل نہیں ہونے دیا اور سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ ’یہاں تک کہ میڈیکل کی تعلیم کے دوران میں صرف تین یا چار گھنٹے نیند کیا کرتی تھی۔‘

’اب میں تحصیل ہسپتال شورکوٹ میں خدمات انجام دے رہی ہوں اور میری خواہش ہے کہ اپنے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں۔ اس کے لیے میرے پاس وسائل نہیں ہیں لیکن میں نے ابھی تک ہمت نہیں ہاری اور آج یا کل مزید تعلیم ضرور حاصل کروں گی۔‘

بشکریہ بی بی سی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں