550

اسٹیٹ سبجیکٹ رول اورگلگت بلتستان کا مقدمہ

گذشتہ چند دہایئوں سے گلگت بلتستان کی مقامی آبادی میں جوتبدیلی Demographic change دیکھنے میں آئی ہے اورمقامی لوگوں میں اپنے زمین، وسائل، ملازمتوں اورکاروبار کے مواقع سے محروم ہونے کی وجہ سے تشویش میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے. اس کا اظہار مختلیف شکلوں اور سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے. قوم پرست قوتوں کا کہنا ہے کہ ڈوگرہ دور کے نافذ کردہ اسٹیٹ سبجیکٹ رول جس کو 1970ء کی دہائی میں ختم کیا گیا تھا، کو دوبارہ گلگت بلتستان میں بحال کیا جانا چایئے جبکہ بایاں بازو کے سیاسی قوتوں اوردانشوروں کا اس قانون کے حوالے سے تحفظات ہیں. آن کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کے تبدیل شدہ سیاسی وسماجی حالات میں قانون سازاسمبلی کے انتخابات اوراس کے نتیجے میں بننے والی مقنینہ کے ذریعے مقامی آبادی اور آن کے حقوق کے تحفظ کے لیے نیئے قانون سازی کے ذریعے لوگوں کے بنیادی حقوق اور وسائل پرملکیت کا تحفظ ہو سکتا ہے. اس موضوع کی حساسیت اوراہمیت کے پیش نظر ہم سمجھتے ہیں کہ اس پرسیرحاصل بحث کہ ضرورت ہے تاکہ لوگوں کوآگاہی ہو اوروہ تاریخی، سیاسی اورسماجی سیاق وسباق میں متفیقہ را ئے قائم کرسکیں اورمسقبل کے لئے نیا قومی بیانیہ تشکیل دینے میں آسانی ہو. اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ہم ہایئ ایشیاء ہرالڈ اوربام دنیاء کے ادارہ کے ذریعے ایک سنجیدہ بحث کا آغازکررہے ہیں اوردانشوروں، سیاسی رہنمائوں، محقیقین اورلکھاریوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے اس بحث کو آگے بڑھائیں. ہم یہاں گلگت بلتستان کے نوجوان محقیق، کالم نویس عزیزعلی داد کی تازہ ترین کالم جو انگریزی اخبارThe News on Sunday اور The High Asia Herald میں چھپ چکا ہے، کا ترجمہ اس آمید کے ساتھ شائع کر رہیں ہیں کہ سنجیدہ حلقہ اس موضوع پربحث میں حصہ لیں گے اوراپنی تحریریں ہمیں ارسال کریں گے.– مدیرآعلیٰ

    تحریر: عزیز علی داد

    گزشتہ کچھ عرصے سے قوم پرست قوتیں اور پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول (ایس ایس آر) کی بحالی کے لئےآوازیں بلند کر رہے ہیں۔ تاہم یہ بحث گلگت بلتستان میں ڈوگرہ حکمرانوں کے نافذ کردہ قانون کے بارے میں سیاق وسباق اورتاریخی معلومات کے فقدان کی وجہ سے ابہام کا شکار ہے۔

    گلگت بلتستان کے لوگوں کی بینادی شہریت، حقوق اورقانون کی تشریح کے حوالے سے موجودہ گتھیوں کوسلجھا نے کے لیئے نوآبادیاتی اورمابعد نوآبادیاتی دورمیں اس خطے کی قانونی حثیت کے حوالے سےکی جانے والے تبدیلیوں کوسمجھنا ضروری ہے۔

    تاریخی طور پریہ خطہ جو آج گلگت بلتستان کہلاتا ہے، چھوٹے چھوٹے ریاستوں کا ایک مجموعہ رہا ہے۔ ان ریاستوں میں مطلق العنان حکمران ہوا کرتے تھے جوتمام اختیارات کے مالک تھے۔ وہ بزعم خود قانون ساز، جج اورانتظامی سربراہ ہوتے تھے۔ کچھ علاقے مثلا چلاس، تا نگیر اورداریل قبائلی ریاستیں تھیں۔ اس نظام میں ریاست کا کوئی سربراہ نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی قبایلی ریاستوں کو "بے سرا” acephalous ریاستیں کہا جاتا ہے۔ایسی قبائلی ریاستیں ایک وضع کردہ ضابطہ اخلاق پرعمل کرتے تھے جہاں عمائدین اہم فیصلے کیا کرتے تھے۔

    گلگت بلتستان کی شخصی اورقبائلی ریاستوں کےحکمراں اپنے تمام معاملات بشمول آبادکاروں کو بسانے جیسےمسائل کو روایتی قوانین customary laws کے تحت حل کرتے تھے۔ چونکہ روایتی قوانین کی جڑیں دیسی indigenous ثقافت اورمعاشرتی نظام مِیں جڑی ہویئ تھیں اسلیے ا ن ریاستوں کوبین الریاستی یا بین العلا قائی مہاجرت کے معاملات کو نمٹانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھیں۔ کئی وادیوں میں لسانی اورنسلی تنوع آج بھی اس کی کامیابی کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ اس مفروضہ کو بھی رد کرتا ہے کہ جغرافیایئ دشوار گزاری، ناقابل رسائ اورسخت آب و ہوا کی وجہ سےمقامی باشندوں میں نقل و حمل نہ ہونے کے برابرتھی۔

    کشمیر کے ڈوگروں نے 1860ء کی دہائی میں بلتستان اورگلگت کو فتح کرنے کے بعد طاقت کے توازن میں زبردست تبدیلی رونماء ہویئ- ڈوگرہ حکمرانوں نے خطے پراپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے نئے قوانین نافذ کئے۔ مہاراجہ کشمیرنے 1927ء میں موروثی ریاستی باشندہ کےحکمنامہ Hereditary State Subject Order کو متعارف کرایا۔ اس قانون کے ذریعے لوگوں کو ریاستی اورغیرریاستی باشندوں کی بنیاد پرتشریح اوردرجہ بندی کی گیئ۔ اس قانون کے تحت صرف جموں وکشمیرکے باشندوں کوسرکاری عہدوں پرتعیناتی، زمین کے استعمال اورملکیت کا حق دیا گیا۔ غیر ریاستی باشندوں کو ان حقوق سے محروم کردیا گیا۔ بعد میں ہندوستان نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35-A میں ریاستی باشندہ کی اسی تشریح کو برقرار رکھا۔

    چونکہ گلگت بلتستان مہاراجہ کشمیرکے زیرانتظام کشمیرکا حصہ رہا ہے لہذا اس بنیاد پریہ کہا جاتا ہے کہ SSR کو اس خطے تک بڑھایا جائے گا۔ تاہم گلگت بلتستان میں اس قانون کے نفاذ سے متعلق کوئی دستاویزات یا سرکاری ریکارڈ محکمہ قانون کے پاس موجود نہیں ہے۔ لہذا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ SSR مابعد نوآبادیاتی دورمیں نوآبادیاتی دورکے باقیات hangover کی حثیت سے انتظامی عمل میں لٹکتا آ رہاہے.

    انیسویں صدی کے آخر میں گلگت بلتستان میں ڈوگرہ اوربرطانوی نوآبادیاتی فتوحات کی تکمیل کے بعد ڈوگروں نے کشمیراوراس وقت کے صوبہ سرحد سے کرایے کے لوگ اوراپنے کاسہ لیسوں کو لا کر گلگت بلتستان میں آباد ہونے کی اجازت دی۔ آباد کاروں میں سب سے اہم وہ پٹھان فوجی تھے جنہوں نے یاسین میں منڈوری قلعہ کی سفاکانہ فوجی مہم اورقتل عام میں حصہ لیا تھا۔ بلتستان اورگلگت میں اپنی فوجی مہموں میں ڈوگروں نے کسی اصول اور قانون کی پاسداری نہیں کیں اور بلا استثنیٰ مقامی آبادی کی نسل کشی کیں۔ یاسین میں منڈوری قلعہ کی فتح کے بعد انہوں نے ہر بالغ مرد اور بچہ کوتہہ تیغ کیا اور لڑکیوں کو اغوا کرلیا۔

    کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد اب گلگت بلتستان کے بڑے شہروں اوردیہات میں آباد ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ڈوگرہ حکمرانوں نے اس قانون کے تحت مختلیف وادیوں اورریاستوں کے باشندوں کی نقل وحمل پرپابندی عائد کیں۔ مثال کے طورپرہنزہ اورگلگت بلتستان کے دوسرے حصوں سے آنے والے لوگوں کو صرف دن کے وقت گلگت شہر میں داخلے کی اجازت تھی۔ انہیں رات کے وقت شہرمیں نہیں رہنے دیا جاتا۔ مقامی لوگوں کی نقل و حمل پر پابندی اورغیرمقامی لوگوں کوبسنے کی اجازت 1947 تک جاری رہی تا وقتیکہ گلگت بلتستان کی جنگ ازادی کے نتیجے میں ڈوگروں کو علاقے سے بے دخل نہں کیا گیا۔ ایس ایس آر کی بحالی کے ذریعے اس طرح کے امتیازی سلوک کو دوبارہ رائج کرنے سے علاقے میں بے چینی اور لوگوں کے درمیان ایک دوسرے سے دوری کا باعث بنے گی۔

    گلگت بلتستان کے قوم پرست قوتیں اس حقیقت کو نظرانداز کرتےہیں کہ مقامی لوگوں نے کبھی بھی اسٹیٹ سبجیکٹ رول کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کا ثبوت سترکی دہائی کے اوائل میں ایڈووکیٹ جوہرعلی کی قیادت میں تنظییم ملت کے بینرتلےمقامی لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس تنظیم کا مقصد "اسٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ اور آئینی حیثیت حاصل کرنا تھا”۔

    ستر کی دہایئ میں گلگت بلتستان میں مقامی حکمرانوں کو ان کے باقی ماندہ اختیارات سے محروم کرنے اورپاکستانی ریاستی اداروں کوبااختیاربنانے کے لیے آئینی نہیں بلکہ انتظامی سطح پر تبدیلیاں متعارف کروائی گئیں۔ مقامی ریاستوں اور ان کے قوانین کے خاتمے کے ساتھ ساتھ غیر رسمی طورپر SSR کا گلگت بلتستان سے خاتمہ کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں قانونی خلاء پیدا ہوا۔ اس نے غیر مقامی افراد کو گلگت بلتستان میں جائیدادیں خریدنے، سرکاری اداروں میں ملازمتیں حاصل کرنے اورگلگت بلتستان میں آباد ہونے کے مواقع فراہم کیِے-علاوہ ازیں بیرونی دنیا کے ساتھ خطے کا رابطہ استوار ہونے اوربیوروکریسی کے اختیارات میں اضافہ کے ساتھ ہی گلگت بلتستان میں پاکستان کے دوسرے حصوں سے لوگوں کی آمد اوریہاں بسنے کاسلسلہ شروع ہوا۔ گذشتہ چار دہایئوں میں اس میں اضافہ دیکھنے مِیں آیا ہے۔

    سیاست اورمقامی آبادی میں فرقہ واریت کا عنصرداخل ہونے کی وجہ سے لوگوں کا سیاسی معاملات، آئینی حیثیت اورمقامی باشندگی اورشہریت کی تشریح بھی فرقہ واریت کے پیمانے پر جانچا گیا۔ 1988ء کی فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد ہجرت اورآباد کاری کے مسئلے نے فرقہ وارانہ رخ اختیار کیا- ہرفرقہ نے اپنے ہم عقیدہ لوگوں کو گلگت بلتستان میں ہجرت کرنے کی ترغیب دینا شروع کیا تاکہ وہ دوسرے فرقوں پرعددی غلبہ حاصل کرسکیں۔

    اس مضمون کوتحریرکرتے وقت یہ اطلاع ملی کہ ہندوستان کی حکومت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے ساتھ آرٹیکل 35-A کا خاتمہ کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی حثیت کو ختم کیا ہے۔ ان آیئنی دفعات کے ذریعے جموں وکشمیر کے قانون سازاسمبلی کو یہ اختیارحاصیل ہے کی وہ ریاست کے مستقل رہائشیوں کی تشریح کرسکے۔ ان دفعات کی رو سے ریاست اوراس کے مستقل رہائشیوں کو خصوصی حقوق اورمراعات حاصیل ہِیں۔ اس اقدام کے ساتھ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیرمیں علیحدگی پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پرکاروایئ شروع کی جا رہی ہے۔

    یہ سوال جموں و کشمیر اور وہاں بھارتی حکومت کے اقدامات کے بارے میں پاکستان کے مؤقف کے لئے بہت اہم ہے- پاکستان ایک طرف جموں وکشمیر کو بھارت میں شامل کرنےکے اقدام پراحتجاج کر رہی ہے لیکن گلگت بلتستان کے حوالے سے اس کی پالیسی اس کے موقوف کو کمزورکردیتی ہے- کیونکہ اس خطے کو نہ تو پاکستان نے کوئی خصوصی حیثیت دی ہے اورنہ ہی آئینی تحفظ- جب پاکستان نے اپنے زیرانتظام کسی بھی حصےکوکویئ خصوصی حیثیت نہیں دی ہے تو اسے ہندوستان کی حکومت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پراعتراض مضحکہ خیزمعلوم ہوتا ہے۔

    یہ بات صرف پالیسی سازوں پر موقوف نہیں- کشمیرکمیٹی کے چیئرمین سید فخرامام نے 2 اگست 2019 کوتجویز پیش کیا کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال کرنے پرغور کریں۔

    گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت کے بارے میں لوگوں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔اپنے زمین اور وسائل پرحق ملکیت کے لئے مطالبہ اورآباد کاروں کے خلاف مظاہرے زور پکڑتی جا رہی ہے۔

    اس قسم کے پیچیدہ مسئلے کا حل اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی میں نہیں جوایک مخصوص سماجی حالات اورطاقت کےبل بوتے پرنافذ کیا گیا تھا۔ آج کے تبدیل شدہ صورتحال اورگلگت بلتستان کے تکثیریت diversity کو دیکھتے ہوئے ایس ایس آر کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کی کوئی بھی کوشش غیر موثراور بے سود ثابت ہوگی۔

    اسلیئے پاکستان کو چاہیئے کہ وہ خطے پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے نوآبادیاتی قانون کو بحال کرنے کی بجائے مقامی لوگوں کواعتماد میں لے کرنئے قوانین بنائے اورگلگت بلتستان میں حقوق کا ایک خصوصی بل پیش کریں جو گلگت بلتستان کے پشتنی باشندوں کی حثیت کو واضح کرے اوران کی زمینوں، ملازمتوں، وسائل، سماجی اورسیاسی حقوق کو غصب کرنےکے خلاف تحفظ دے سکے۔ اس طرح کے حفاظتی اقدامات کے بغیرلوگ اپنے کھیتوں، پہاڑوں، برف، پانی اورجنگلات پربڑے پیمانے پرجاری نوآبادیاتی قبضہ سے خوفزدہ رہیں گے۔
    حالیہ چند سالوں سے خطے کی آبادی میں زبردست تبدیلی اورغیرمقامی لوگوں کی زمینوں، کاروبار اورقدرتی وسائل پر قبضے کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلیئے آنھوں نے احتجاجی آواز بلند کرنا شروع کردیا ہے۔

    ترجمہ: فرمان علی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اسٹیٹ سبجیکٹ رول اورگلگت بلتستان کا مقدمہ” ایک تبصرہ

  1. بروشو قبائل

    تحریر: عادل شاہ یاسینی

    سرزمين گلگت بلتستان کے دو عظیم پشتونی قبائل شین اور یشکن ہیں۔ مقامی لوگ یشکن، اور جو باہر سے آکر ان علاقوں پر مسلط ہوئے شین ہیں۔ شین ”درد“ قبلہ جبکہ یشکن ”بروشو“ ہے۔ بروشو گلگت بلتستان کے مقامی لوگ ہے جن کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ فصل اگاتے تھے اور اپنی زمینوں کی حفاظت کرتے تھے۔ اس کے بر عکس ”درد“قبائل کے لوگ خانہ بدوش تھے ۔مال مویشی پالتے تھے ،ایک جگہ سے دوسری جگہ ریورڈ کے ساتھ چلتے تھے۔ زیادہ تر مرکوز ایسی جگہوں پر ہوتی تھی جو کہ مال مویشی پالنے کے لیے مناسب ہوں۔ اس طرح بروشو اور درد قبائل کے درمیان اکثر جگہوں پہ جنگیں ہوتی تھیں۔

    بروشکی بولنے والے قبائل کو ”بروشو“ کہتے ہیں۔ ان کی زبان بروشکی اور وطن بروشال ہے۔

    تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے جتنے بھی قبائل ہیں ،ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کیے اپنے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں گھومتے پھرتے رہیں ۔اسی طرح یہ کہنا قابل از وقت ہوگا کہ بروشال کے قبائل کب ؟کیسے اور کہاں سے آٸے؟ یہ اندازاً واقعات ہی کی بنا پر کرتے ہیں کیونکہ بروشو قبائل کی ایسی کوٸی قدیم تحریر ،تاریخی دستاویز نہیں جہاں سے گم شدہ کڑیاں مل سکیں ۔ اسلیے زبان کی بنیاد پر ،تاریخ اور جغرافيائی ماحول کی بنیاد پر رسم و رواج ہی کی بنا پر فیصلہ کیا جاسکتا ہےکہ بروشو قبائل کس گروہ سے تعلوق رکھتے تھے ۔اکثر موریخین کا نظریہ یہ ہے کہ ہخامنشی دور کے فتوحات میں یہ لوگ ایران سے یہاں وارد ہوئے ۔تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہخامنشی دور میں بالائی سندھ ،کشمیر اور کشمیر سے ملحق کوہستانی علاقہ ایران گروپ کے زیر تسلط رہا اس دوران ایرانی گروپ کے قبائل دریا سندھ کے بالائی علاقوں کی طرف سے براہ راست کشمیر تک پھیل گٸے تھے ۔ یہ قبائل اوستاٸی ایرانی عقائد کے بہت سے عناصر کو اپنے اندر جزب کیے ہیں ۔ پس ان عقائد ،تہذیب وثقافت اور رسم و رواج کا تعلق ایرانی گروپ سے ہے ۔اگر ایرانی گروپ سے نہیں ہے تو پھر ہندوستانی گروپ ”انڈوآرین“ یا انڈویورپین سے، یہ ان سب سے نہیں ،پھر ”ھن“ انڈومنگول نسل سے ہوناچاہیے ۔جب اسکندر نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ،سکندر کے ساتھ فوج یورپین تھیں ۔ جو سپاہی یونان نہیں گٸے وہ شمالی ہندوستان میں آباد ہوئے ۔ان کی اولاد کو انڈویورپین کہتے ہے۔

    بروشو قبائل انڈو آرین اس لیے نہیں ہے کیونکہ بروشو قبائل ویدیک عقائد اور رسم رواج کے آثار نہیں ملتے بلکہ اوستاٸی آثار ملتے ہیں جیسے اصنام پرستی بروشو قبائل میں نہیں پاٸی جاتی ہے ، انسانی لاشوں کو جلانے کی رسم نہیں پاٸی جاتی ۔انڈوآرین لوگوں میں پولو کھیلنے کی رسم نہیں پاٸی جاتی ہے جبکہ بروشو قبائل میں پولو کھیلنے کا رواج زمانہ قدیم سے ہیں ۔ جو کہ قدیم ایرانی کھیل ہے ۔اس طرح زبان پر بھی غور کیا جاٸے ،بروشکی زبان میں قدیم ہندوستانی زبان کے الفاظ نہیں ملتے جبکہ سنسکرت کے الفاظ ملتے ہیں ۔ اس طرح رسم و رواج کو بھی دیکھا جاٸے ایرانی اثرات بہت زیادہ ہیں۔ جیسے تھم شیلگ ”بو“ جس کو شینا میں تلیخی اور بلتی میں مپھنیگ کہتے ہیں ایرانی اثرات ہیں ۔اسی طرح شکل و صورت میں لمبا قد ،اونچا ناک اور کالے بال اس بات کی نشاندہی کرتا ہیں کہ برشو قبائل ایرانی النسل سے شکل و صورت مشترک ہے ۔
    ان تمام دلائل سے واضح ہے ۔ بروشو قبائل کا نسلی تعلق انڈو ایرانین گروپ کے علاوہ کسی اور گروپ سے نہیں ملتا ۔ البتہ ہنزہ اور بلتستان کے کچھ قبائل کا تعلق ”ھن“ قبائل سے گمان ہوتاہے ممکن ہے کہ ھن منگولوں کی خواتين سے شادی ہوٸی ہو۔

    بروشو قبائل کے تاریخی اثرات کا جاٸزہ لیا جاٸے تو مختلف محقیقن ،موریخین ،مفکرین اور سیاح کے نزدیک بروشو قبائل کا اصل وطن قازقستان ہے ۔

    مصنف عبدل الحمید خان ”یاسین بروشکی“ میں لکھتے ہیں کہ ”بون“ بروشو قبائل کے لوگ وسط ایشیا سے لے کر تبت،نیپال ،کشمیر اور ہماچل پردیش کے علاوہ ساٸبریا ، کوکیشا باسک جو فرانس اور اسپین میں موجود ہے ،سے لے کر امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تحقيقاتی نظریہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے اکثر و بشتر علاقے میں بروشو قبائل موجود ہیں ۔ اسی طرح بروشو قبائل کی کئی منظم ریاستیں بھی تھیں ۔ انہی میں سے ایک منظم ریاست ،ریاست ”یاسین“ ہے اس پر بروشو قبائل کی حکومت تھی ،یہی لوگ یاسین کے مقامی باشندے ہیں ۔
    تاریخ شاہد ہے کہ یاسین پر بروشو دور میں دوسری قوموں نے حملہ کیا ۔لیکن بروشو کے سامنے بےبس ہو گٸے ۔اس طرح ریاست یاسین پر چینی جرنیل KAO-HSIEN-CHIH نے 1722ء میں یاسین پر حملہ کیا ۔چینی جرنیل اپنی فوج کو لیکر درکوت نالے سے یاسین پر حملہ کیا ۔ یو 1722ء میں بمقام طاوس میں جنگ لڑی ، لیکن بروشو قبائل نے چینی جرنیل کے دانت کھٹے کیے ۔ دوسری دفعہ چین کے جرنیل نے شکست کا بدلہ لینے کے لیے 1747ء عسویں چینی افواج نے پھر سے یاسین پر حملہ کیا ۔لیکن بدقسمتی سے اس دفعہ چینی فوج نے یاسین پر قبضہ کرلیا ۔بروشوں قبائل کو شکست ہوٸی ۔ لیکن بروشو قبائل اور چینی فوج کے درمیان لڑائی کا سلسلہ جاری رہا۔ 1760ء تیسری دفعہ چینیوں کے ساتھ معرکہ آراٸی ہوٸی اس دفعہ چینیوں کو شکست ہوٸی ،اس طرح برشو قبائل نے اپنے علاقے چینی فوج سے آزاد کرایا۔

    یاسین کے علاوہ بروشو قبائل نے کشمیر پر بھی حکومت کی جیسے کہ مصنف فوق نے اس بات کی تاٸید کی ہے کہ لنگرچک نامی ایک شخص بروشال گاوں سے وادی کشمیر میں راجہ سہد یو کے زمانے میں 1713ء کو آیا تھا ۔ اس کی اولاد یعنی ”چکوں“ نے 1554ء سے 1564ء تک کشمیر پر حکومت کی ۔نگرمیں ایک گاوں کا نام چکوٹی شل ہے ۔اس کو چک نامی ایک شخص نے آباد کیا تھا ۔ پس کشمیر میں 1554ء 1564ء تک ”چول“ یعنی ایک بروشو خاندان نے حکومت کی تھی ۔ اس طرح واقعات کی نشاندہی ”مولوی حشمت اللہ “نے بھی کیا ہے ۔مصنف لکھتے ہیں ”810 عسویں کو ٹھہ خان نامی ایک شخص بگورتھم “راجہ بروشال سے اپنی جان بچا کردریا سندھ کے ساتھ ساتھ رندو ،سکردو،کھرمنگ اور کادگل سے ہوتے ہوٸے ،سوست پہنچا جہاں ٹھٹھا خان ، خاندان کی بنیاد ڈالی اور اس کی 32 پشتوں نے حکومت کی جس میں گوری تھم اور دنگ ملک مشہور راجے گزرے تھے۔
    بروشو نے 1810ء سے لے کر 1834ء تک بحثیت خود مختار حکومت کی ہے ۔جس کا شجرہ نسب سید یحیی نے اپنی کتاب ”برشو قبائل “ میں کیا ہے۔

    یوں بروشو قبائل نے مختلف علاقوں پر حکومت کی آخر اس بات سے کوٸی بھی انکار نہیں ہر عہد میں ان کی باکمالوں کے بعد زوال بھی آہی جاتا ہے ۔۔آخر کار بروشو قبائل بھی زوال پزیر ہوگیا اور ریاست یاسین کا ایک روشن باب غروب ہوگیا ۔ جن کے کچھ وجوہات یوں ہے۔

    پہلی صدی عسوی میں مہاراجہ کنشک نے بروشو قبائل کی فوج سے یاختر چینی ترکستان جس کو ”سنکیانگ“ کہتے ہیں فتح کیا ۔اس جنگ میں ظاہر ہے بہت سارے برشو قبائل کی فوج کام آٸے۔ 715عسویں کے بعد چینوں اور تبتیوں نے پلولاشاہی دور حکومت جو ”کشان“ خاندان سے تعلق رکھتی تھی ،کا اثرورسوخ ختم ہوگیا۔

    1760ءعسویں کے بعد تبتی دور شروع ہوا۔ 1722ء عسویں کو چینی فوج کے ساتھ طاوس میں لڑاٸی، اس کے بعد غٹم سر مناور میں تین دفعہ تبتی افواج کو پیچھے دھکیل دینا ۔جبکہ چوتھی دفعہ بروشو کو شکست ہونا ۔ان جیسے واقعات نے بروشو کو کمزور کر دیا ہوگا ۔ اس کے بعد گوہر آمان نے ملک المان مہتر چترال کو شکست دے کر بروشال حکومت کا ختمہ کر دیا ۔یوں بروشو قباٸل کا ٹمٹہ تا چراغ گل ہو گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں