325

بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کہاں جائے گی؟

تحریر: سعد سہیل

اکستان کی سپریم کورٹ نے نجی ہاؤسنگ کمپنی کے مالک کی جانب 460 ارب روپے کے عوض ان کے خلاف کراچی بحریہ ٹاؤن سے متعلق تمام مقدمات کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔

ملک کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عدالت نے اتنی بڑی رقم کے بدلے میں ملزمان کے خلاف مقدمات کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کی پیشکش کو ماننے کے بعد اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں جائے گی۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ 460 ارب روپے کی یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کروائی جائے گی اور اس کے بعد سپریم کورٹ کوئی لائحہ عمل تیار کرے گی کہ اس رقم کا کیا جائے جو کہ تفصیلی فیصلے میں ہی واضح ہوگا۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا یہ رقم بعد میں سندھ حکومت کو بھی منتقل کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ تنازعہ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کیزمین کا معاملہ ہے جو کہ 16896 ایکڑ پر مشتمل ہے۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ’یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے اور اب یہ ابہام برقرار رہے گا کہ یہ پیسے کہاں منتقل کروائے جائیں گے۔ ’اس سوال کے جواب میں کہ کیا رقم ڈیم فنڈ میں بھی دی جاسکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ ’اس رقم کا ڈیم فنڈ سے کوئی تعلق نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ سپریم کورٹ ایسا فیصلہ کرے گی۔‘

عوامی رد عمل
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے عوام کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ 460 ارب روپے بھی کافی بڑی رقم ہے اور ملکی فلاح کے لیے اہم ہے.
وام بھی تذبذب کا شکار دکھائی دی اور ٹویٹ کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش میں رہی کہ آخر یہ پیسہ جائے گا کہاں؟
ٹوئٹر پر ایک صارف طاہرہ نے سوال اٹھایا اگر اس رقم کا کچھ حصہ غریبوں کی فلاح کے لیے بھی استعمال ہوگا کہ نہیں خاص طور پر ان لوگوں کو یہ پیسہ دیا جائے گا کہ نہیں جن کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا۔
احمر مراد نے ٹویٹ میں کہا کہ کچھ دیر کے لیے بس یہ تصور کیجیے کہ بحریہ ٹاؤن نے کتنا زیادہ پیسہ کمایا ہوگا کہ وہ اتنی بڑی رقم دینے کو تیار ہیں۔

اس مقدمے کا پس منظر کیا ہے؟

اس سے قبل 14 فروری کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کی طرف سے کراچی میں تقریباً 17 ہزار ایکڑ اراضی کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 400 ارب روپے جمع کرنے کی پیشکش مسترد کر دی تھی۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس زمین کی موجودہ قیمت اور ملکی کرنسی کی قدر و قمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کو پہلے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ ایک ہزار ارب روپے دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ کی تعمیر میں جمع کروادیں تو ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے۔ ملک ریاض نے اس پر اپنا کوئی ردعمل نہیں دیا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس نے اُنھیں پانچ سو ارب روپے جمع کروانے کی پیشکش کی جس پر بھی بحریہ ٹاون کے مالک نے کوئی حامی نہیں بھری تھی۔

اس سے قبل ہونے والی 31 دسمبر 2018 کی عدالتی کاروائی میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا ڈیم کا ذکر کیے بغیر ملک ریاض کو مخاطب کر کے کہا کہ ’چلیں ملک صاحب، آپ پانچ سو ارب دے دیں تو وہ خود عملدرآمد والے بینچ میں بیٹھ کر ان کے خلاف تمام مقدمات کو ختم کردیں گے۔‘

بشکریہ بی بی سی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں