499

بروشسکی لسانیات ا و ر تاریخ — حصہ دوم

تحریر: صفدر حسین برچہ



آج بروشسکی ادب کی اشاعت کی سب سے اہم زبانیں فرانسیسی، جرمن اور انگریزی نیز ایک حد تک روسی زبان بھی ہیں۔ ہرمن برجر، ٹِیفو / پِسوٹ اور اینڈرسن کی تحقیقی تصانیف کے دقیق مطالعہ سے بروشسکی زبان کی دیگر اصناف میں تحقیق و تدوین ممکن ہے۔ دیگر تحقیقی رپورٹس کی اشاعت میںایلینا بشیر اور این ۔ٹیفو کی جستجو اور تحقیق شامل ہے۔خاص طور پر فیلڈ ورک کے حالیہ نتائج اور لوک روایات کی اشاعت کے لیے پچھلی دہائیوں اور برسوں میں انجام پذیر تحقیقی سرگرمیوں نے مستقبل کے محققین کے لیے امکانات کے دریچے کھول دیا ہے اور زبان پر تحقیق اور فیلڈ ورک کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بروشسکی کے بارے میں یک زمانی تحقیقات کی حالت بہت ہی اطمینان بخش ہے لیکن کچھ مسائل اب بھی باقی ہیں۔ بعض نکات پر محقق کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ دستیاب مواد پر اعتماد کرنا چاہیے یا نہیں۔ دو زمانی تحقیقات سے اب تک بہت کم معتبر نتائج حاصل ہوئے ہیں لیکن اس میدان میں کچھ پیشرفت بھی ہوئی ہے۔ بہت سارے محققین نے اپنے دعوے ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں لیکن ہمیں ان محققین کو چننا ہوگا جو نظریاتی لحاظ سے درست ہیں۔

یہ زبان بولنے والے اپنے آپ کو بروشوکہتے ہیں ۔ یہ ایک طرح سے جمع کی صورت ہے ، جس میں مارفیم (صرفیہ)  O یا U ہوتا ہے جو بار بار کثرت کے ساتھ بطور لاحقہ استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی میں بروشو اور برشوزکے القابات مل سکتے ہیں ، اس کے علاوہ انگریزی کے موخر الذکر لفظ کی جمع کے ساتھ انگریزی کا حرف S ایزادی لگایا جاتاہے۔ بروشوکا ایک لفظ بروشِن ہے۔ زبان کا نام بروشسکی فقط ایک ماخوذ ہے۔ جیسا کہ دیکھا جاسکتا ہے کہ خود بروشسکی میں بھی اس زبان کے نام کے دوسرے صوت رکنی (سلیبل) پر ارتکازکیاجاتا ہے۔

اس بارے میں مختلف آرا ہیں کہ آیابروشسکی زبان خطرے سے دوچار ہے یا نہیں۔ہرمن برجر نے بیشتر رشحات اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ بروشسکی زبان معدوم ہونے والاہے۔ اس کے برعکس ، اینڈرسن بروشو کے بارے میں لکھتے ہیں: "ان کی زبان اب بھی تابندہ ہے ، بلا رنگ و نسل ہر جگہ بولی جاتی ہے۔اینڈرسن ایک اور مقالہ میں لکھتے ہیں:ان تمام برادریوں میں جہاں بروشسکی بولی جاتی ہے ان کے ہاں یہ زبان اب بھی اہم ہے ، بہت سی خواتین اور بچے اب بھی یک لسانی ہیں۔” در حقیقت ، بروشسکی بچوں نے سیکھی ہوئی ہے اوربروشسکی بولنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ مزید برآں، بروشسکی بولنے والے اپنی زبان کے بارے میں ایک مثبت رویہ رکھتے ہیں اور آبرومندانہ فخر سے آراستہ ہیں۔ان حقائق کے پیش نظر میری رائے میں اس وقت زبان کو خطرے سے دوچار سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے اس نقطہ نظر کی اینڈرسن نے بیک سٹروم کی تائید کی ہے ۔یہ قضیہ اختتام پذیر نہیں بحث جاری رہے گی۔

بروشسکی ایک فاعل، مفعول، فعل پر مشتمل زبان ہے اور اس کے دوسرے بنیادی اجزائے ترکیبی میں اعداد و اسما اور جار موخر قابل ذکر ہیں۔ دوسری زبانوں کی طرح بروشسکی میں بھی حروف علت اور اعراب موجود ہیں۔ بروشسکی میں مصمتے کا نظام ہائیہ اور کوز (زبان کو موڑنا) مصمتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا کی بیشتر زبانوں کی کئی ایک خاندانوں میں گروہ بندی ہوئی ہے لیکن دنیا میں کچھ ایسی معروف زبانیں ہیں جن کا دوسری زبانوں سے کوئی علاقہ نہیں، جن کے لیے میری ہاس نے جداگانہ زبانیں کی اصطلاح تخلیق کی۔ آپ نے ان زبانوں کی وضاحت کچھ اس طرح سے کی ہے۔ "جداگانہ زبان، یعنی ایسی زبانیں جو کسی بھی دوسری زبان یا زبان کے کنبہ کے ساتھ نمایاں قریبی تعلق نہیں رکھتی ہیں ان زبانوں کی جداگانہ حیثیت کوتا دیرتغیر سے روبرو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر بصیرت کے ساتھ زبان کے تانے بانے کھوجنے کے لیے کام کو آگے بڑھایا جائے تو یقینا یہ کوشش بروشسکی کی غیر نوعی اور جدا گانہ زبان کی حیثیت کو ختم کر ے گا۔ بسا اوقات غیر نوعی اورجداگانہ زبان کی مراجع کو تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے، اورکئی معاملات پرمحققین کا آپس میں فقدان پایا جاتا ہے۔

بروشسکی کو بیشتر علمائے لسانیات نے جداگانہ اور غیر نوعی زبان قرار دیا ہے۔ اس بات کو ہرمن برجر، این ٹِیفو ، ٹراسک ، لیووین ،برٹل ٹکانن ، صدف منشی کے تحقیقی حوالوں کے علاوہ دوسرے ذرائعوں کی ایک کثیر تعداد سے تقویت ملتی ہے۔ بروشسکی زبان کے مراجع ڈھونڈنے کی بہت سی کوششیں ہوئی ہیں۔

مورگنسٹیرین بیان کرتے ہیں کہ ابتدائی مصنفین جنہوں نے اس سوال کے بارے میں غور کیا تھا انھوں نے منڈا ، دراوڑی، انڈیمانی، قفقازی اور دیگر زبانوں کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش کی۔ بلیخ سٹینر کاکیشین کے ساتھ بروشسکی زبان کے تعلق کی بھرپور حمایت کرتا ہے لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ قفقاز میں در حقیقت خودمختار زبان کے تین خاندان موجود ہیں جن کے ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ کے شاید ہی کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں: ابخازو-ادیغین ، ناخ – داغستانی اور کارتویلن۔ بلیخ سٹینر دیگر زبانوں (جیسے باسک ، ایلامائٹ) کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہیں نیز اسے ان کے الفاظ قرین قیاس نظر آتے ہیں۔اس مماثلت کی نشاندہی کرنے کے علاوہ اس کے پاس شاید ہی کوئی دوسرا طریقہ ہو۔ بلیخ سٹینر پر مورگنسٹرین اور بودھاکا جائزہ کم تنقیدی نہیں ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ یہ ایک کوتاہی یا تجاہل عارفانہ سمجھا جائے۔ہرمن برجرکے یکے بعد دیگرے مطبوعہ مضامین میں کچھ دلائل موجود ہیں جن کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ بروشسکی کا تعلق باسک سے ہے۔ تاہم بعد ازاں اپنی زندگی میں ہی ہرمن برجر نے خود محسوس کیا کہ ان کی ساری کوششیں غلط ہو گئیں۔ اس ضمن میں گرولیئر بیان کرتے ہوئے ہرمن برجر سے ذاتی رابطوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ برجر بھی نوجوان کی حیثیت سے اپنی علمی اور تحقیقی کوششوں کو ناکامی سے موسوم کرتا ہے۔
اسٹاروسٹین نے ایک مضمون ( میکرو فیملی) شائع کی جسے چینی-کاکیشین کہا جاتا ہے۔ اصل مضمون روسی زبان میں ہے لیکن شیووروشکن اوراسٹاروسٹین نے باہم اس مضمون کا ایک ترجمہ شائع کیا۔ اصطلاح "کاکیشین” سے مرادکارتویلین نہیں بلکہ قفقاز کے دو شمالی کنبے ہیں۔ یہ خیال کچھ دوسرے محققین نے بھی سٹاروسٹین کی دیکھا دیکھی اپنے اسالیب کا جز بنایا ہے۔ مثال کے طور پر،شیووروشکن کے کئی مضامین میں بینگسٹن نے باسک اور بروشسکی کو بھی اس کلاں خانوادہ میں شامل کیا ہے۔ اس کے بعد بینگٹسن کی دیگر اشاعتیں بھی منظر عام پر آئیں جس پر تجزیہ کرتے ہوئے این۔ ٹیفو نے اس میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی۔ اس کے بعد سے بینگسٹن نے اپنے معاملات میں بہتری لانے کی کوشش کی لیکن زیادہ تحسین حاصل نہیں کرسکا۔ (جاری ہے)


صفدر حسین بر چہ کا تعلق نگر سے ہے. و ہ کر اچی میں قائم نگر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے لیے فاصلاتی مدون کا کام کر رہے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں