356

جاننازندگی ہے: کارل ساگان

تحریر: ڈاکٹر شاہ محمد مری

فرمائش ہے کہ اپنے بچوں کو پی ٹی وی کی ایک سیریل ”کاسموس“ ضرور دکھائیے۔یہ دراصل اُس کتاب پر مبنی سیریل ہے جو ہمہ وقت مسکراتے سائنس دان کارل ساگان نے لکھی۔ یہ سیریل آپ کے بچوں کی سائنس سے دوستی کروادے گا اور انہیں سائنسی سوچ عطا کرے گا۔

کارل ساگاں امریکی اسٹرونومر، کاسمالوجسٹ و فزسسٹ، مصنف، سائنس کو مقبول بنانے والا، اور اسٹرانومی سائنس کا ابلاغ کرنے والا ایک بہت بڑا عہد ساز انسان تھا۔ وہ ایک بہت اچھا لکھاری اور یکتائے روزگار قسم کا سائنسی شومین بھی تھا۔ اس نے سائنس کو آسان بناکے عوام کے سامنے پیش کیا اور اس کی ترویج اور پاپولر بنانے میں میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے کلاس روم اور اُس سے باہر اپنے کام سے سائنس دانوں کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔ مگر اس نے سائنس کو ہمیشہ پر مسرت طور پر اور جی خوش کردینے کے انداز میں پیش کیا۔اس کا ایک خوبصورت فقرہ دیکھیے:
"معلوم متنا ہی ہے جبکہ نامعلوم لامتناہی ہے ۔ ”

ان کا پورا نام کارل ایڈورڈ ساگان تھا۔ وہ9 نومبر1934 کو نیویارک میں پیدا ہوا تھا۔ اُن کے والد یوکرائن سے آیا ہوا ایک یہودی مہاجر تھا اور وہ گارمنٹ انڈسٹری میں مزدوری کرتا تھا۔ اُن کی والدہ بھی نیویارک کی تھی۔ کارل گوکہ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور امریکی عیسائی معاشرے میں پروان چڑھا مگر وہ مذہبی اثرات سے دور رہا۔یہ ایک غریب گھرانہ تھا مگر انہوں نے اپنے بیٹے کارل اور بیٹی کیرل کو تعلیم کی دولت سے خوب آراستہ کیا۔ کارل نے 1951میں نیو جرسی سے ہائی سکول اور 1960میں شکاگو یونیورسٹی سے فلکیات اور ایسٹرو بائیولوجی میں ڈاکٹریٹ کا امتحان پاس کیا۔بعدازاں وہ ہارورڈیونیورسٹی اور کارنل یونیورسٹی میں فلکیات کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔

اُس نے ہی لکھاتھا کہ ”لکھنا شاید انسانوں کی عظیم ترین ایجاد ہے، لوگوں کو آپس باندھتا ہوا، دُور کے زمانوں کے باسیوں کو، جو ایک دوسرے کو بالکل نہیں جانتے تھے، کتابیں وقت کی زنجیروں کو توڑتی ہیں“۔

کارل ساگاں میں یہ صلاحیت خوب موجود تھی کہ وہ اپنی تحریروں اور میڈیا کے ذریعے اپنی باتوں کو عام لوگوں اور خواص تک پہنچانے پر قادر تھا۔ اُس کی باتوں کو اکثر لوگ پسند کرتے تھے مگر کچھ لوگ انہیں پسند نہیںبھی کرتے تھے ۔ حتیٰ کہ اُس کو نیشنل اکیڈمی آف سائنس کا ممبر نہیں بننے دیا گیا اور اُس کو اپنی تنقید ی باتوں پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ مگر کارل اپنے راستے سے ہٹنے والا نہیں تھا اور ڈٹا رہا۔وہ اپنے آپ کو ایک اگناسٹک انسان سمجھتا تھا ۔ وہ روحانی جذبات سے بھرا ہوا تھا ۔ وہ کہتا تھا کہ سائنس بجائے خود روحانیت کا سرچشمہ ہے ۔ اس کا ئنات میں جتنے تارے ہیں ان کی تعداد اُن تمام ریت کے زروں سے زیادہ ہوگی جو اس زمین پر سمندروں کے ساحلوں پر بکھرے ہوئے ہیں۔ جب ہم اتنی وسیع وعریض کائنات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اپنے گرد پھیلے ہوئے زندگی کے انتہائی پر اسرار اور خوبصورت حصار کو دیکھتے ہیں تو عجیب سے جذبات اُبھرتے ہیں۔ جیسے ہماری سرگوشی اور کم مائیگی بہ یک وقت ہم سے ہم کلام ہو۔ سائنس ہمیں یہ سب کچھ سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے ۔

کارل کہتا تھا کہ اگر کوئی ایک غیر معمولی دعویٰ کرتا ہے تو اُس کو چاہیے کہ کوئی غیر معمولی ثبوت بھی فراہم کرے تا کہ اُس کی بات کی تصدیق ہوسکے اور تائید کی جاسکے۔کارل ساگان ایک بہترین تخلیقی ذہن کا مالک تھا ۔ اس نے کھل کر کہا کہ ہمیں تنقیدی سوچ اور تشکیکی انکوائری کو تعلیم میں فروغ دینا چاہیے۔

اس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ کارنل یونیورسٹی میں فلکیات کے پروفیسر کی حیثیت سے بسر کیا ، جہاں وہ تنقیدی سوچ پر ایک کورس بھی پڑھاتا تھا۔ وہ کارل یونیورسٹی میں سیاروں کے مطالعے کی لیبارٹری کا ڈائریکٹر بھی تھا۔ وہ نا ساسے ایک عرصے تک بطور ایک ایڈوائزر کے منسلک رہا اور ناسا اور دوسروں سے بہت سارے انعامات بھی لیے۔ جیسے کہ پبلک سروس ایمی اور پی باڈی ایوارڈ ز اور پلٹز ر انعام۔اس نے نظام شمسی کے دوسرے سیاروں مثلاً مارس ، وینس اور جوپیٹر اور سیرن کے کچھ چاندوں پر زندگی کے انتظامات کا جائزہ لیا اور خلائی ایجنسی نا سا کے ساتھ جم کر سالہا سال مختلف پراجیکٹس پر کام کیا۔ اس نے امریکی خلائی مشن (پانیئر) اور وائے جر (Voyger) پر انسانی تصاویر اور آوازوں سے مزین ایسی تختیاں بھجوائیں جواب کئی دہائیوں پہ خلائے بسیط میں رواں دواں ہیں۔

کارل کو ایگز وبائیولوجی (Exo Biology) سے بھی بہت دلچسپی تھی۔ اس لیے اس نے زمین سے دور زندگی کے امکانات پر بھی بہت کام کیا۔ اس نے تجربات سے دکھایا کہ زندگی کی پیدائش کے لیے جو کیمیائی مرکبات،جیسے امائینو ایسڈ(Amino acid) وغیرہ ، ضروری ہوتے ہیں وہ عمومی مادے سے ریڈیائی طریقوں سے بنائے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا دوسری دُنیاﺅں میں زندگی، ہونے کے امکانات روشن ہیں۔

اس نے 600سے زائد سائنسی مقالات شائع کیے۔ اور وہ بیس سے زائد کتابوں کا مصنف یا شریک مصنف ہے ۔ اس کی کچھ کتابیں بہت مقبول رہیں مثلاً Dragons of Eden Broca’s BrainاورPale Blue Dot ´۔”کاسموس“ تو اُس کی گویا پہچان ہے ۔جس وقت اس کتاب کو فلمایا گیا تو یہ دنیا کی سب سے مقبول سیریل بنا۔ 1980میں ٹی وی کی ایک شاہکار اور پاپولر خلائی سیریل ”کوسموس “ کا لکھاری اور پیش کار بھی وہی تھا۔ اس نے سائنس فکشن ناول ”کنٹریکٹ“ بھی لکھا۔اُس کی کتاب”کنٹریکٹ“ پر 1997میں اسی نام سے ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنائی گئی۔ یہ سائنس فکشن فلم زمین پر کسی خلائی مخلوق کے ریڈیائی پیغام کی وصولی کے موضوع پر تھی اور کامیاب رہی۔

ساگان نے ہمیشہ سائنسی شبہ ، تجسس اور سائنسی طرز کی وکالت کی۔ اس نے exobiologyکی راہبری اورextraterrestrial intelligenceکی تحقیق کو فروغ دیا۔اس نے اور اس کی تصانیف نے بے شمار انعامات و اعزازات حاصل کیے ۔ ان میں ناسا ممتاز پبلک سروس میڈل ، نیشنل اکیڈمی آف سائنسز پبلک ویلفیئر میڈل شامل ہیں۔

کارل کے اہم کاموں میں وینس سیارے پر اُس کی پیشگوئی بھی شامل ہے کہ اُس کی سطح بے حد خشک اور جہنم کی طرح گرم ہے ۔جہاں درجہ حرارت (500) ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے ۔ اُس کی یہ بات 1962میں ناسا کے خلائی جہاز میری نر۔ 2(Mariner-2) نے کنفرم کردی۔ وینس کا جہنم گرین ہاﺅس گیس (جیسے کاربن ڈائی اکسائیڈ) کی ایک دبیز چادر چھا جانے کی وجہ سے ہے جو حرارت کو خلا میں جانے نہیں دیتی اور ایک کمبل کی طرح سیارے کی سطح کو گرماتی ہے ۔ وینس اتنا گرم ہے کہ اس کی سطح پر سیسہ پگھل سکتا ہے ۔ لہٰذا وہاں زندگی کا گزارہ نہیں ہوسکتا۔

کارل نے سیڑن سیارے (Saturn) کے سب سے بڑے چاند نائی ٹن کے بارے میں بھی ٹھیک پیش گوئی کی تھی کہ وہاں کی سطح پر مائع مرکبات کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ٹائی ٹن کی سطح پر ہائیڈ روکاربن مرکبات جیسے میتھین کی جھیلیں اورسمندر ہیں اور یہ آبادیوں سے برستے ہیں ۔ وہاں کا سطحی درجہ حرارت 179سینٹی گریڈ منفی ہے ۔

اِسی طرح کارل نے جو پیڑ(Jupiter) کے ایک چاند یوروپا(Europa) کے بارے میں کہا تھا کہ وہاں کی برفانی سطح کے نیچے پانی کے سمندر ہوسکتے ہیں۔ یہ بات بھی اب صحیح لگتی ہے ، اس طرح وہاں زندگی بسائے جانے کے امکانات بھی ہوسکتے ہیں۔

کارل نے زمین پر بھی گلوبل وار منگ کے ابھرتے خطرات کو پہچانا تھا اور اِسے وینس (Venus) پر آﺅٹ آف کنٹرول گرین ہاﺅس اثرات سے مماثلت دی تھی۔ آج کی دنیا میں یہ مسئلہ سیاسی فٹبال بن گیا ہے ۔گو کہ اس زمین کے اکثر گلیشیئر برف سے پانی ہورہے ہیں اور کارل کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ قطبین کی برف بھی پانی ہو کر سمندروں میں آرہی ہے ۔ جن کی سطح بلند ہورہی ہے اور بحرِ ہند میں مالدیو جیسے جزائر کے ڈوبنے کا خطرہ بہت بڑھ چکا ہے ۔ ہمارا اپنا کراچی کا ساحل بھی بہ آسانی ڈوب سکتا ہے ۔

مارس کے بدلتے رنگوں پر بھی کارل نے کہاتھا کہ یہ موسمی اثرات ہوسکتے ہیں اور صحرائی ریت کے آندھی طوفان اس کی وجہ ہوسکتے ہیں ۔ آج مارس (MARS) پر امریکہ کے دور یموٹ کنٹرول سے چلنے والے ٹھیلے سائنسی تحقیقات میں مصروف ہیں اور کارل کی باتوں کی تائید ہوچکی ہے ۔اکثر سائنس دان یہ نہیں جانتے کہ اپنی سائنس کو عام فہم کس طرح بنائیں ۔اس لیے اُن کی باتیں عام لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں۔ جیسے اکثر لوگوں کو سو برس گزرنے کے بعد آج بھی معلوم نہیں کہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت آخر ہے کیا؟ یا پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ پروفیسر عبدالسلام نے آخر کس بات پر یہ انعام حاصل کیا تھا؟۔

یونیورسٹی میں وہ تنقیدی سوچ پر ایک کورس عرصہ تک پڑھاتا رہا۔ اُس کی کتاب”دی ڈیمن ہانٹڈورلڈ“( The Demon Haunted World) میں تنقیدی سوچ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے کہ انسان کیسے کیسے توہمات کا شکار ہے اور کس طرح ان بلاؤں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے ۔ وہ سمجھاتا ہے کہ ہم کس طرح فراڈی اور غلط دعوؤں کو پہچان کر ان کی قلعی کھول سکتے ہیں۔

کارل اس زمین پر رہتے ہوئے بھری کائنات میں (Intelligent life) کے روشن امکانات پر یقین رکھتا تھا۔ اور اس نے اس کی تلاش کے لیے ریڈیو ٹیلی سکوپس کے ذریعے ایک پراجیٹ شروع کرنے میں مدددی جس کو ”سیٹی“ کا نام دیا گیا ۔ یعنی (Search for intelligent life)۔ یہ پراجیکٹ اب ایک انسٹی ٹیوٹ کے تحت ہے ۔ (Seti Institute) ۔

پھر اس نے ایک اور تنظیم Planetary Societyکو وجود میں لانے پر بھی خوب کام کیا جو سائنس اور فلکیات کو عوام میں پاپولر بنانے کا کام کرتی ہے۔ آج اس سوسائٹی کے ایک لاکھ سے زیادہ ممبرز ہیں جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اور بھی بہت سی سوسائٹیوں کے ساتھ منسلک رہا۔

کارل ساگان نے زندگی میں تین عورتوں سے شادیاں کیں جن کی بدولت اُس کے ہاں تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اُس کی آخری بیوی این ڈروین (Anndruyan) خود بھی ایک اچھی لکھاری اور سائنس کی دلدادہ ہے جس نے ٹی وی سیریز ”کاسموس (Cosmos) کو بنانے اور دوسرے کئی پراجیکٹس کا خوب ساتھ دیا۔کارل 1990کی دہائی میں خون کے کینسر (Myelodysplasia) کا شکار ہوگیا۔ اُس نے اس بیماری پر بھی ایک بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی کتاب لکھی۔

سٹیفن ہاکنگز نے اپنی مشہور کتاب ”ہسٹری آف ٹائم“ کا پری فیس ساگان سے لکھوایا تھا۔وہ 1996میں بیس دسمبر کو واشنگٹن ریاست میں باسٹھ سال کی عمر میں نمونیا ہوجانے سے چل بسا اور اسے نیویارک لے جا کر سپرد خاک کیا گیا۔

کارل ساگان جیسے انسانوں کی روحیں اپنے بدن سے جب آزاد ہوتی ہیں تو بھی اُن کا کائنات کے حیرت کدہ کی دریافت (Exploration) کا سفری جاری رہتا ہے ۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ کارل خلائی جہازوں کی طرح اس نظام شمسی کی حدود سے نکل کر کروڑوں ستاروں اور کہکشاؤں کی دریافت کے سفر پر رواں دواں ہے ۔ اپنا کاسموس والا ”بلین اپ آن بلین “ کاراگ الا پتے ہوئے نوری سالوں کے نہ ختم ہونے والے حصار کی تمام حدود سے آگے ،کیونکہ کاسموس لامحدود ہے ۔یہ شخص مجھے اس قدر اچھا لگتا ہے کہ میں نے اپنی ایک کتاب کارل ساگاں کے نام منسوب کردی۔

بہ شکریہ: سنگت
ریفرنسز
کارل ساگان۔ وکی پیڈیا(Wikipedia) کارل ساگان پورٹل WWW.Carlsagan.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں