388

دیامر کے نوجوانوں کا گلگت، چیلاس اور دیگر شہروں میں مطالبات کے حق میں مظاہرے

دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کو معاوضہ اور بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتوں میں ترجیح دی جائے، دیامر میں ٹیکنکل، انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔

رپورٹ: ارشد حسین جگنو

گلگت:دیامر کے عوام کو حقوق دئے بغیر ڈیم نہیں بننے دیں گے۔ زمین دیامر کے غریب لوگوں کی ڈیم کی زد میں آرہی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو پورا معاوضہ دیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس میگا پروجیکٹ میں مقامی لوگوں کو ملازمتیں دی جارہی ہے۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے بدھ کے روز مختلیف شہروں میں احتجاجی مظاہروں سے خطاب کے دوران کیا۔

مظاہروں کا اہتمام دیامر گریجویٹس الائینس، گوہر آباد یوتھ آرگنائزیشن اور ہوڈور کے نوجوانوں نے کیا تھا۔

گلگت میں بھی چیلاس کے عوام کے ستھ یکجہتی کے طور پر ایک مظاہرہ گلگت پریس کلب کے سمانے ہوا. جس سے مختلف سیاسی و سماجی رہنماوں نے خطاب کیا. مقررین میں مولانا سلطان رئیس، چئرمین عوامی ایکشن کمیٹی، فدا حسین، ذوالفقار علی، فیضان میر، تجمل حسین مرحوم، شہزاد الہامی، تھے. انہوں نے اپنے خطاب میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گریجویٹس الائینس دیامر کے جائز مطالبات کو پورا کریں، مقامی نوجوانوں کو ملازمتوں میں ترجیح دی جائے اور متاثرین کو زمینوں کا معاوضہ دیا جائے۔

مولانا رئس نے کہا کہ آج نوجوان تعلیمی اداروں میں ہونے کی بجائے روڈؤں پر نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں. حکومت ان کے مسائل کو حل کریں. انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس قسم کی ناانصافیاں جاری رہیں تو یہ تحریک پورے گلگت بلتستان میں پھیل جائیگی.

چیلاس، اسلام آباد اور کراچی میں بھی مظاہرے ہوئے جن میں سینکڑوں لوگوں نے حصہ لیا اور حکومت اور واپڈا کی ناانصافیوں، امتیازی سلوک اور وعدہ خلافیوں کی مذمت کیں۔

مظاہرین پلے کارڈز اور بینرز جن پر مختلف نعرے یعنی ‘ظلم کے ضابتے ہم نہیں مانتے، ‘واپڈا گردی نامنظور’، ‘حق دو، ڈیم بناو’ ‘زمین ہماری حق ہمارا’ ‘ظالمانہ فیصلے نامنظور’ درج تھے.

چیلاس میں ہزاروں کی تعداد میں متاثرین دیامر بھاشا ڈیم نے واپڈا آفس کے سامنے دھر نا دیا ۔مظاہرین نے کہا کہ جب تک واپڈا اور مقامی انتظامیہ کےاعلی حکام ان کے ساتھ تحریری معاہدہ نہیں کرتے وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

https://www.facebook.com/HighAsiaTv/videos/774330513172077/

مقررین نے کہا کہ گریجویٹس الائینس جو پڑھے لکھے نوجوانوں کی تنظیم ہے، نے ان مسائل کو اجاگر کرنے اور حکومت، واپڈا اور مقامی انتظامیہ کے اعلی حکام تک پہنچانے اور متعدد بار پر امن مذاکرات کے ذریعے ان کو حل کرنے کی کوشیشں کی ہیں لیکن اعلی حکام مسلسل وعدہ خلافیوں اور جبر کے ذریعے دیامر کے عوام کو دبان چاہتے ہیں اور انہیں ان کی ملکیتی زمینوں اور وسائل سے محروم کرنا چاہتی ہے ۔

انہوں نے مقامی انتظامیہ پر بھی تنقید کیا جو پر امن احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو غیر ملکی ایجنٹ کہتی ہے۔
مظاہروں میں قراردیں منظور کی گئیں جس میں کہا گیا کہ گریجویٹس الائنس دیامر نے متعدد بار مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لوکل انتظامیہ اور واپڈا حکام زمینی حقائق سے بخوبی واقف ہیں لیکن تا حال مسائل کوحل کرنے سے گریزاں ہیں۔

"اب زبانی وعدوں کا وقت گزر چکا ہے اب واپڈا حکام اور گریجویٹس الائنس دیامر کے ما بین صرف تحریری معاہدے کے بغیر کوئی حل قابل قبول نہیں۔ مزید مذاکرت محض وقت کا ضیاع تصور کیا جائیگا جس سے پیدا ہونے والے تمام تر پچیدگی کی ذمہ داری واپڈا حکام اور لوکل انتظامیہ پر ہوگی”۔

گریجویٹ الائنس کا مطالبہ ہے کہ دونوں فریقین کے مابین اسٹام پیپر پر معاہدہ تحریر کیا جائے جس میں صوبائی حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے ڈپٹی کمشنر دیامر اور واپڈا حکام کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم پروجیکٹ کے جنرل منیجرضمانتی ہو ں اور معاہدہ کو عدالت سےتصدیق کروایا جائے۔

ایک اور قرار داد کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ اشتہار نمبر 416 کو فلفور منسوخ کیا جائے اور مشتہر پوسٹوں اور مستقبل میں بھی اسکیل 1سے 16 تک تمام کے ملازمصرف اور صرف دیامر کے امیدواروں کو لیا جائے۔ اور سکیل 17 اور اس سے اوپر کے پوسٹوں پہ دیامر کے نوجوانوں کو خصو صی ترجیح دی جائے اور گلگت بلتستان کے لے 50 فیصد کوٹہ مختص کیا جائے۔ بنیادی سکیل 17 سے اوپر کے ملاز متوں میں دیامر کے لوگوں کو تر جیح دی جائے ، موزوں امیدوار نہ ملنے کی صورت میں گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع سے امیدواروں کو لیا جائے۔ان ملازمتوں کو اس معاہدے کی روشنی میں دوبارہ مشتہر کیا جائے۔

ایک اور قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ واپڈا حکام دیامر بھاشا ڈیم پروجیکٹ میں مستقبل میں بھی سکیل 1 سے 16 تک تمام ملازمتوں میں سو فیصد (%100 ) تمام انتظامی، ٹیکنیکل و نان ٹیکنیکل پوسٹوں کو قومی و مقامی اخبارات میں مشتہر کریں اور ان پر شفاف اور اہلیت کی بنیاد پر صرف اور صرف ضلع دیامر کے امیدواروں کو لیا جائے . دیامر سے امیدوار مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کی صورت میں دوبارہ مشتہر کریں اور دیامر کے نوجوانوں کو خصوصی تربیت کا اہتمام کرکے ان کو مطلوبہ معیار کے لئے تیار کیا جائے اور ملازمتیں دی جائے۔.

انہوں نے مطالبہ کیا کہ دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ میں کام کرنے والی تمام سرکاری، نیم سر کاری اور غیر سرکاری ادارے اور کمپنیاں اس بات کی پابند ہونگیں کہ ان میں کام کرنے والے تمام انتظامی، ٹیکنیکل و نان ٹیکنیکل ملازمین بھی ضلع دیامر سے ہی لیے جائیں ۔ درکار مہارت نہ ہونے کی صورت میں معاوضہ سمیت انٹرن شپ کے ذریعے دیامر کے گریجویٹس کو ملازمت دی جائے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں دیامر بھاشہ ڈیم کے متاثرین کیلئے ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں اعلٰی تعلیم کے لیے سکالر شپس اور انٹرن شپس کا مخصوص کوٹہ مختص کیا جائے۔

ایک اور قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ دیامر ٹیکنیکل انسٹیوٹ کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے’ چلاس ہسپتال کو میڈیکل کالج کا درجہ دیا جائے اور دیامر میں ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔

ڈیم پراجیکٹ میں غیر مقامی کنٹیجنٹ اور کنٹریکٹ ملازمین جوکہ چور دروازوں سے بھرتی ہوئے ہیں ۔ ان کو فارغ کرکےمقامی ملازمین کو رکھا جائے اور انہیں مسقل بنیادوں پر ملازمتٰ دی جائیں ، معزور افراد کا کوٹہ ہر اشتہار میں مختص کیا جائے۔

مظاہرین نےخبردار کیا کہ گریجویٹس الائنس دیامر کے مندجہ بالا مطالبات پر عمل درآمد کیلئے فوری ٹھوس اقدامات اٹھائیں جائیں بصورت دیگر اگلے لائحہ کا اعلان کیا جائے گا جس سے ہونے والے قوی نقصانات کی مکمل ذمہ داری واپڈا حکام اور لوکل انتظامیہ پر ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں