397

سیاسی جماعتوں کے کالعدم تنظیموں سے مبینہ تعلقات: ’اس حمام میں سب ننگے ہیں‘

گذشتہ دنوں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر سے سیاست دانوں اور ان کے شدت پسند کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ تعلقات پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ یہ موضوع یقیناً پرانا ہے لیکن اس وقت اس بحث کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اجاگر کیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کے وزرا کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں اور ان کے اقدامات کو تب تک کوئی سنجیدہ نہیں لے گا جب تک ان وزرا کو ان کے عہدوں سے ہٹا نہیں دیا جاتا۔ انھوں نے نیب میں اپنی پیشی کے دوران بھی کہا کہ جب بھی وہ ملک میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی بات کرتے ہیں تو جے آئی ٹی اور نیب کی طرف سے بلاوا آ جاتا ہے۔
دوسری جانب حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پہلے سے زیادہ عمل درآمد ہو رہا ہے اور انھوں نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا ہے اور شدت پسند تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔

ماضی میں بھی ایسے الزامات منظر عام پر آتے رہے ہیں لیکن کیا صرف مخصوص سیاسی جماعتوں کا ہی شدت پسند کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلق رہا ہے اور آخر ایسی کیا مجبوری ہے جس کے تحت بڑی سیاسی جماعتوں کو ان سے رجوع کرنا پڑتا ہے؟

’اس حمام میں سب ننگے ہیں‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ کسی نہ کسی وقت تمام بڑی پارٹیوں کا کالعدم تنظیموں کے ساتھ اتحاد رہا ہے اور ان کے مطابق ’اس حمام میں سب ننگے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صرف موجودہ وزرا کے شدت پسند فرقہ وارانہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ ہی تعلق نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی وقتی سیاسی ضروریات اور مصلحت کے تحت ان کے ساتھ تعلق رکھتی رہی ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ رشتہ کبھی مستقل نہیں رہا۔‘

کالعدم تنظیموں پر تحقیق کرنے والے سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ یہ تعلق کافی پیچیدہ ہے کیوں کہ ماضی میں یہ جماعتیں کالعدم نہیں تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ماضی میں مختلف سیاسی جماعتیں سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ کی حمایت طلب کرتی رہی ہیں لیکن اس کے سیاق و سباق مختلف تھے اور آج اتحاد کالعدم جماعتوں سے نہیں بلکہ ان میں موجود افراد سے ہوتا ہے۔‘
عامر رانا نے کہا کہ یہ سب ماضی کی باتیں ہیں اور ان کے خیال میں ابھی کسی ایک مخصوص جماعت کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا کسی کالعدم تنظیم سے اتحاد ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’انفرادی سطح پر ہر حلقے کے اندر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ انھیں مؤثر اور بااثر شخصیات کی حمایت حاصل ہو خواہ وہ پیپلز پارٹی کے ہوں، پی ایم ایل این کے یا پی ٹی آئی کے لیکن گزشتہ الیکشن میں ہم نے جماعتی سطح پر کوئی ایسا اتحاد نہیں دیکھا۔

صحافی سبوخ سید بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہ تو بڑی عام بات ہے پاکستان کی تقریباً تمام نمایاں جماعتوں کے کالعدم تنظیموں سے بڑے قریب کے تعلقات ہیں۔‘
نھوں نے بتایا کہ جماعت الدعوہ کے کارکنان مسلم لیگ نون کو ووٹ دیتے رہے ہیں جبکہ انتخابات کے دوران سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں موجود کالعدم اہلسنت والجماعت کے دفتر کا دورہ کیا تھا۔

جب ان سے پیپلز پارٹی کے کالعدم تنظیموں سے تعلق کا سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اہلسنت والجماعت کے رہنما مولانا احمد لدھیانوی نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ سنہ 2008 کے الیکشن میں ان کی جماعت نے پیپلز پارٹی کے 18 امیدواروں کی حمایت کی تھی ’ان میں قمر زمان کائرہ جیسے بڑے نام بھی تھے۔‘

پروفیسر حسن عسکری نے بھی پیپلز پارٹی کے ماضی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’جہاں تک بات ان کے فرقہ وارانہ جماعتوں سے تعلق کی ہے تو پاکستان کے پہلے جمہوری دور میں یعنی سنہ 1988 سے سنہ 1999 میں سپاہ صحابہ کے منتخب ہونے والے لیڈروں کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی‘
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی سمیت اے این پی اور ایم کیو ایم وہ تین جماعتیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ واضح طور پر عسکریت پسندی کی مخالفت کی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے کالعدم تنظیموں سے تعلقات کوئی ’مجبوری‘ ہیں؟

سبوخ سید کہتے ہیں کہ انتخابات کے دوران سیاسی پارٹیوں کے لیے سو دو سو ووٹ بھی بہت اہم ہوتے ہیں اور وہ ان کالعدم جماعوں سے لیے جاتے ہیں۔ وہ سیاسی پارٹیوں سے زیادہ منظم ہوتے ہیں لہذا یہ ’ان کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ ان (کالعدم)جماعتوں کے پاس جائیں۔

حسن عسکری صاحب کہتے ہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت میں بعض دفعہ حکومت کو بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ممبران کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ صوبائی اسمبلی کے ہوں یا قومی کے، تو اس مقصد کے لیے وہ اس قسم کا سمجھوتا اور ایڈجسٹمنٹ کرتے رہتے ہیں۔‘

بشکریہ بی بی سی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں