374

غذر بچاو تحریک کو کس طرح موثر بنایا جا سکتا ھے

تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ

Ehsan Ali Advocate

گلگت بلتستان کے ایک پسماندہ ضلع غذرکے مقامی پسے ھوئے عوام کے ساتھ انگنت ظلم، زیادتیوں،ناانصافیوں اورجبرواستحصال کے خلاف غم وغصہ ایک بار پھرابھرکرسامنے آیا ھے- ہندراپ کے واقعہ نے محض ایک چنگاری کا کردارادا کیا ہے جس نے پورے غذرمیں آگ لگا دی ہے اورآج ضلع غذر کے کچلے ھوئےعوام سڑکوں، چوراہوں اور بازاروں میں سراپا احتجاج بنے ہوئیے ہیں.
ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے کہ گندم سبسیڈی کی شاندارتحریک کی ابتداء بھی غذرسے ہی ھوئی تھی جب یاسین کے ہزاروں غریب محنت کشوں نے گاہکوچ تک پیدل مارچ کرکے دھرنا دیا تھا- معدنیات کے ذخائر پہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے جابرانہ قبضے کے خلاف بھی غذرکےعوام نے بھرپوراحتجاج کرکے استحصالی سرمایہ داروں کو بھاگنے پہ مجبورکیا تھا-
اس سے قبل غذرکے عوام نے 1952ء میں فرسودہ راجگی نظام کے خلاف بھی سب سے پہلےایک انقلابی بغاوت کی تھی- اس طرح ہردور میں اس ضلع کے بہادرمحنت کش عوام نے جبرو استبداد کے خلاف اٹھ کھڑے ھوتے رہے ہیں. مگر گلگت بلتستان کے دیگرعلاقوں کی طرح غذر میں بھی محنت کش عوام کی اپنی ایک انقلابی سوچ و فکر پہ مبنی تنظیم اورایک جرات مند انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے مقامی عوام کی ہر جدوجہد رائیگان چلی گئی-
آج غذر کے کچلے ھوئے عوام ایک بار پھر ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے ہیں- پچھلی تحریکوں کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ھوئے غذرکے انقلابی نوجوانوں کو مختلف مصلحتوں کی زنجیروں کو توڑکرکھل کرمیدان عمل میں سرگرم ھو کراس نئی عوامی ابھار کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینے کی ضرورت ھے تاکہ اس تحریک کو نچلی سطح تک پھیلانے کیلئے غذر کے ہرگائوں، ہرتحصیل، ہرسکول، ہرکالج، ادارہ اور محکمہ کے محنت کشوں میں کمیٹیاں منتخب کرکے ان کمیٹیوں کی بنیاد پہ مرکزی قیادت کوجمہوری طریقے سے منتخب کیا جا سکے اورتحریک کا ایجنڈا اورفیصلے جمہوری طریقے اورسب کی رائے سے طے کیا جاسکے.
گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کی طرح غذر میں بھی سب سے بڑا مسلئہ پولیس، انتظامیہ اورتمام محکموں کی بے لگام افسرشاہی کو بطور”عوامی خدمت گار” کےعوام کے منتخب کمیٹیوں/کونسلوں کے کنٹرول میں لا کرانہیں عوام کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا- اورحق حکمرانی صحیح معنوں میں محنت کش عوام کے حوالہ کرنا ھو گا- مگرموجودہ نوآبادیاتی افسرشاہانہ نظام میں سارے اختیارات، مراعات، بجٹ اور تمام تر پالیسیسازی ومنصوبہ بندی کرنے اورملازمتیں اور ٹھیکے تقسیم کرنے کا اختیارعوامی بجٹ پہ پلنے والی اسی افسرشاہی کے ہاتھوں میں مرتکزھے- ہندراپ کا واقعہ ہویا شندورکا مسلئہ ھو یا آئے دن درپیش آنے والے مسئلے ہوں یہ سب موجودہ عوام دشمن نوآبادیاتی نظام کے پیدا کردہ ہیں-
آج غذر کے نوجوانوں کے سامنے ایک بنیادی سوال کھڑا ہے کہ کیوں نہ موجردہ عوامی تحریک کو گلگت بلتستان کےعوام پہ بہتر سالوں سے مسلط جبرواستبداد کے نظام کے خاتمے سے جوڑا جائے تاکہ غذرمیں جاری اس عوامی تحریک کی دیکھا دیکھی دیگراضلاع تک پھیلا کرایک وسیع عوامی تحریک کے ذریعے اسلام آباد کے حکمرانوں کو گلگت بلتستان کے تمام ترسیاسی، معاشی، اقتصادی، انتظامی، بجٹ سازی اورمنصوبہ بندی سے متعلق تمام ترامورسے بے دخل کیا جا سکےاوراختیارافسرشاہی سے اٹھا کرموجودہ ڈمی اسمبلی اورنمائشی حکومت کے بجائےمقامی عوام کے منتخب کمیٹیوں اور کونسلوں کے حوالہ کرنے پہ مجبور کیا جا سکے۔

احسان علی گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ بار کے صدر اور بار کونسل کے چیرمین رہے ہیں اور سو شلسٹ سیاسی رہنما اور سایسی کارکنوںاور انسانی حقوق کے مقدمات کی مفت پیروی کرتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں