کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے

تحریر: کریم اللہ کھوار زبان چترال کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور سوات کے علاقہ کلام میں بولی جاتی ہے۔ چترال کی سب سے بڑی زبان ہونے کے...

643

غذر کے با اثرشخص کی چترال بالا میں زمین ہتھیانے کی مبینہ کوشیش

گلگت بلتستان کے سابق گورنر نے سابق مہترچترال سے منصوب جعلی سند مبینہ طورپرنیشنل آرکایئو لائبریری پشاورمیں رکھوا کراربوں روپے مالیت کی زمین ہتھیانے کی کوشیش کیں

رپورٹ: گل حماد فاروقی

گلگت بلتستان کےسابق گورنر کے کارندوں نے نیشنل آرکائیو لائبریری پشاوراورجوڈیشل کونسل چترال میں سابق حکمران سرشجا ع الملک سے منصوب جعلی سند مبینہ طور پر رکھوا کراربوں روپے مالیت کی زمین ہتھانے کی کوشش.
گلگلت بلتستان کے سابق گورنر پیرکرم علی شاہ کے کارندوں نے چترال کے جوڈیشل کونسل میں سرشجاع الملک کے نام سے ایک جعلی سند ریکارڈمیں رکھنوانے کی کوشیش کیں تھیں۔
ذرائع کے مطابق سید اکبر حسین جن کے آباء و اجداد جونالی کوچ چترال سے گلگلت بلتستان کے ضلع غذرکے وادیئ یاسین منتقل ہوئے تھے، نے صحافیوں کو بتایا کہ گلگت بلتستان کا سابق گورنر پیر کرم علی شاہ رشتے مییں ان کا چا چا لگتا ہے اورجونالی کوچ میں اربوں روپے کی زمین میں سے اسے مبینہ طور پرمحروم کرکے اپنے نام انتقال کروانا چاہتے ہیں۔
سید اکبر حسین کے مطابق سابق گورنرنے اپنا اثرو سوخ استعمال کرتے ہوئے نیشنل آرکائیو لائبریری پشاورمیں بھی چترال کے سابق حکمران سرشجاع الملک سے منصوب ایک سند رکھوا کراسے چیف لائبریرین شاہ مراد چترالی سے تصدیق بھی کروایا ہے. جس میں جعلی طور پر یہ تحریر تھا کہ جونالی کوچ والی زمین کو شجاع الملک نے اس کے بزرگ پیرجلال علی شاہ کے نام ہبہ کیا ہے یعنی یہ زمین اسے حوالہ کیا گیا ہے۔
"جب مجھے اس بارے میں پتہ چلا تو میں نے لینڈ سیٹلمنٹ آفیسرچترال کے دفترمیں تحریری درخواست دی کہ اس سند کے بابت تحقیقات کی جائے۔ جب انہوں نے پشاورکو اس سلسلے میں خط لکھا تو اس کے جواب میں 29 اپریل 2019 کو ڈائریکٹر آرکائیوز اینڈ لائبریری نے جواب دیا کہ اس نام کے کسی سند کا ہمارے ریکارڈ میں کوئی وجود ہی نہیں ہے”- تاہم اس نے اپنے افسر کو بچانے کیلئے یہ لکھا کہ "شائد چترال کے لینڈ سیٹلمینٹ آفیسرنے ریفرنس نمبرغلط لکھا ہو”- اس کے بعد اس پرکوئی کاروائی نہیں ہوئی۔مگر یہ ثابت ہوا کہ جس سند کو سابق گورنرصاحب نے لائبریری کے ریکارڈ میں رکھوایا تھا وہ سند جعلی ہے جس پرمزید انکوائری کی ضرورت ہے۔
اکبر حسین کے مطابق سابق گورنر کے بیٹے سید جلال شاہ نے چترال میں اپنے ایک کارندے محمد علی شاہ کے ذریعے ڈپٹی کمشنر کے زیرتسلظ جوڈیشل ریکارڈ میں ایک جعلی سند نہایت ہوشیاری سے رکھوایا اوراسے ریکارڈ کیپرسے تصدیق بھی کروایا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ جعلی ہے تو جوڈیشل کونسل چترال کے ریکارڈ کیپرشیراحمدخان نے ڈپٹی کمشنرکوباقاعدہ تحریری درخواست دیا کہ محمد علی شاہ نامی شحص نے جوڈیشل ریکارڈ میں ایک جعلی سند رکھوا کرجونالی کوچ والی زمین پیرکرم علی شاہ کے نام انتیقا ل کرنےکی کوشش کی ہے۔
ہمارے نمائندے نے اس سلسلے میں شیراحمد خان سے بھی پوچھا جنہوں نے اس درخواست کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ "میں نے اپنے نائب قاصد سے پوچھا بھی تھا کہ آیا جس سند کی فوٹوسٹیٹ لایا گیا ہے اس کا اصل ہمارے ریکارڈ میں موجود ہے؟ تو اس نے اس کی تصدیق کی”۔ مگرجب وہی شخص دوبارہ آیا اوراس کی مصدقہ کاپی مانگی تومیں نے یہ کہہ کرانکارکیا کہ وہ جعلی ہے۔ میں نے ڈپٹی کمشنر کودرخواست لکھا جسے ایڈیشنل کمنشرفیاض قریشی کے حوالہ کیا گیا۔
حسین نے مزید بتایا کہ انکوائری اپریل میں شروع ہوئی تھی.مگرچونکہ گورنرصاحب سیاسی اورمالی طورپرمستحکم ہے. ان کے اثرورسوخ اورپیسے کی وجہ سے انکوائری چارمہینے تک لٹکتا رہا۔
حسین نے مزید بتایا کہ جب آنھیں پتہ چلا کہ وہ انکوائری رپورٹ 24 جولائی کو ڈپٹی کمشنرکے دفتر بھیجا گیا ہے توآنھوں نے ڈپٹی کمشنرکو تحریری درخواست دی کہ اس انکوائری کی ایک مصدقہ کاپی آنھیں بھی فراہم کی جائے- اس پرانہوں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرکوہدایت کیں کہ اس کی نقل مجھے فراہم کی جائے. مگرجب میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرکے دفترگیا توانہوں نے اس کی نقل دینے سے صاف طور پرانکارکیا- میں نے جب ان سے یہ کہا کہ میں اس بابت پریس کانفرنس کرکے حکومت کے نوٹس میں لاؤں گا تو ان کا جواب تھا کہ "آپ صدر پاکستان کے پاس بھی جاؤ گے تب میں اس کی نقل نہیں دوں گا”۔
اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے ڈپٹی کمشنرسے فون پربات کرکے تصدیق چاہی تو ڈی سی نے اسے اپنے دفتر بلایا۔
ہمارا نمائندہ ڈپٹی کمشنرکے دفترجاکراس کا موقف جاننا چاہا توآنھوں نے کسی قسم کی انٹرویو یا بات کرنے سے انکارکیا۔ ہمارے نمائندے نے اسے یہ بھی بتایا کہ یہ Right To Information Act 2014 کی خلاف ورزی ہے- اس کے باوجود وہ بات کرنے کو تیار نہیں ہوئے اور یہ بہانہ بنایا کہ "میں نیا آیاہوں مجھے اس بارے میں معلومات نہیں”- تاہم انہوں نے اکبرحسین کےدرخواست پرلکھ کردیا کہ اسے اندرونی نقل فراہم کی جائے-
مگر ابھی تک وہ نقل موصول نہیں ہوا ہے۔
ہمارے نمائندے نے اس سلسلے میں ریکارڈ کیپرشیراحمد خان کا انٹرویو کرنا چاہا توا س کا جواب تھا کہ وہ اپنے افسران بالا سے اجازت لیکرانٹرویو دے گا۔ جب ہمارے نمائندے نے جوڈیشل کونسل اورمحافظ خانہ کے دفتر کا ویڈیو بنانا چاہا تو اسے روک دیا گیا کہ اس کیلئے بھی ڈی سی کی اجازت چاہئے-
اکبرحسین نے الزام لگایا کہ چونکہ گورنرصاحب بہت با اثر آدمی ہے یہی وجہ ہے کہ چترال کا انتظامیہ بھی اس کے کہنے پرانصاف کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اورمیڈیا کو بھی کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کررہے ہیں۔
انہوں نے اپنے دلیل میں اسناد پیش کئے جس میں سابقہ لینڈ سیٹلمینٹ آفیسرشاہ نادرکے وقت میں باقاعدہ انکوائیری ہوئی تھی اورتحصیلدارنے اپنے سفارشات میں لکھا تھا کہ اکبرحسین کو بھی شجرہ نسب میں شامل کیا جائے- اس انکوائری کا مفہوم یہ تھا کہ اکبرحسین شاہ جونالی کوچ والی زمین میں برابرکا حقدارہے۔
اس سلسلے میں جب ہم نے لینڈ سیٹلمینٹ آفسیرسید مظہرعلی شاہ سے رابطہ کیا توآنھوں نے تحریری طورپراپنا موقف دیتے ہوئے لکھا کہ درخواست دہندہ نے تین درخواستیں ان کے دفتر میں جمع کئے تھے ایک اپنے نام سے، دوسرا اپنی بیوی اورتیسرا اپنے رشتہ داررضوان کے نام سے- جن میں دو درخواستیں تو منظورہوئی مگراکبرحسین شاہ کی درخواست اسلئے مسترد کیا گیا کہ وہ دورکا رشتہ دار ہے۔ انہوں نےمزید لکھا کہ موجودہ بندوبستی ریکارڈ کے مطابق جونالی کوچ میں سید اکبرحسین شاہ کا کوئی جائداد نہیں ہے- تاہم اگروہ کسی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لائے یا سرشجاع الملک کی طرف سے منصوب سند مورخہ 18.02.1929 جو آرکائیو لائیریری پشاورمیں جمع کیا گیا ہے کوجعلی ثابت کرے تو پھربندوبستی ریکارڈ میں حسب ضرورت ترمیم ہوسکتی ہے۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ جب آپ نے اسی سند کی تصدیق کیلئے آرکائیو لایئبریری کو لکھا تو ان کا جواب تھا کہ اس نام کا کوئی سند اس بنڈ ل میں موجود نہیں ہے تواس سےیہ صاف ظاہرہوتا ہے کہ وہ سند جعلی ہے تو ان کا جواب تھا کہ شائد وہ سند کسی اوربنڈل میں موجود ہو۔
سید اکبرحسین شاہ نے اس پر بھی الزام لگایا کہ وہ بھی پیر کرم علی شاہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اورایک جعلی سند کی بناء پرجس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے وہ اسے اپنے موروثی زمین سے محروم کررہاہے۔
حسین نے شجاع الملک کا ایک اصلی سند میڈیا کو دکھایا جسے کسی اورشحص کو دیا گیا تھا جس پرباقاعدہ ایک مہربھی لگا تھا اوراس کا سند کا طریقہ کارہی محتلف تھا۔
آنھوں نے نہایت مایوسی کا اظہار کیا کہ اس نے سنا تھا کہ خیبرپحتونخواہ میں انصاف ہے اورنئے پاکستا ن میں حق دارکو ضرورحق ملے گا- مگر یہاں تو آوے کا آواء ہی بگڑا ہوا ہے۔ اوراسے طویل عرصے تک کوشش کے باوجود انصاف نہیں ملا۔
انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، وزیراعظم عمران خان اوروزیر اعلی محمود خان کے ساتھ ساتھ وزیرمالیت شکیل خان سے بھی پرزور اپیل کی کہ اس سلسلے میں ایک اعلی سطحی جوڈیشل انکوائیری کا حکم دیا جائے جس میں ایمانداراورغیرمقامی افسران ہوں تاکہ ان جعلی سندوں کا کھوج لگائے اوراس زمین کو مافیا کے چنگل سے واہگزارکرے- انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس جعل سازی میں جو لوگ بھی ملوث ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی اورشحص اتنی دیدہ دلیری سے جعل سازی نہ کرے۔
اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے بارہا پیر کرم علی شاہ سے رابطہ کرنے کی کوشیش کیں لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا. ان کے بیٹے سید جلال شاہ سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انھوں نے موقوف دینے سے انکار کیا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں