367

فیض آباد دھرنا: فیصلے پر عمل درآمد نہ بھی ہوا تو تاریخ کا حصہ رہے گا

شہزاد ملک – بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے عدالت عظمیٰ میں پٹیشن درج کرائی ہے جس میں انھوں نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے نومبر 2017 کے فیض آباد دھرنے کے خلاف سنائے گئے ان کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دائر کی گئی نظرثانی کی اپیل میں فیض آباد دھرنے کا فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کو جانبدار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں 2014 میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے دیے گئے دھرنے کا ذکر کر کے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی اور دیگر کی جانب سے جمع کرائی گئی پٹیشنز میں کیا ہے؟
نظرثانی کی ان درخواستوں میں یہ متفقہ طور پر موقف اپنایا گیا ہے کہ معزز عدالت کے جج نے اپنے فیصلے میں ایسے معاملات پر بھی اپنے رائے دی ہے جس کے بارے میں کوئی شواہد بھی سامنے نہیں آئے۔


نظرثانی کی اس درخواست میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان ایسے بینچ میں بیٹھنے سے گریز کریں جس میں یہ ذرا سا بھی گمان ہو کہ اُنھیں جانبدار تصور کیا جاسکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے علاوہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست جمع کراتے ہوئے ان کا نام نومبر 2017 کے دھرنے کے فیصلے سے نکالنے کی استدعا کی ہے۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی طرف سے دائر کی گئی نظرثانی کی اس اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کا نام بھی اس عدالتی فیصلے سے نکلا جائے اور اگر ایسا نہ ہواتو ان کی سیاسی ساکھ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

فیض آباد دھرنے پر دیے جانے والے فیصلے میں کیا تھا؟
رواں برس چھ فروری کوسپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نومبر 2017 میں فیض آباد کے مقام پر انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دیے گئے دھرنے کے خلاف سو موٹو کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔


واضح رہے کہ تحریک لبیک کی قیادت نے رکن پارلیمنٹ کے حلف میں مبینہ تبدیلی کے خلاف اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے علاقے فیض آباد پر دھرنا دیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تقریباً تین ہفتے تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج ہو گیا تھا۔

فیصلے میں عدالت نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

عدالت نے آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا ہے کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔’

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ‘پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان وزارتِ دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے’۔

اسلام آباد
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہا گیا ہے کہ’تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں (چینلز اور اخبارات) کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے’۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا۔

فروری میں سنائے گئے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے سنہ 2014 میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دیے گئے دھرنے کے علاوہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آمد کے موقع پر فائرنگ سے درجن سے زائد وکلا کی ہلاکت کے واقعے میں ایم کیو ایم کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

فیض آباد
کیا ان پٹیشن سے کوئی فرق پڑے گا یا عدالتی فیصلہ برقرار رہے ؟
ماہرینِ قانون کہتے ہیں کہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ سپریم کورٹ فیض آباد دھرنے کے خلاف مقدمے میں دیا گیا اپنا فیصلہ تبدیل کرے۔

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حکمران اتحاد میں شامل ایم کیو ایم اور عوامی مسلم لیگ کی جانب سے عدالت میں نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عدالتی تاریخ میں 90 فیصد سے زیادہ امکانات اس بات کے ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ واپس نہ لے یا اس میں ترمیم نہ کرے کیونکہ نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت بھی اسی بینچ نے کرنا ہوتی ہے جس سے فیصلہ دیا ہوتا ہے۔

سابق اٹارنی جنرل اور ماہر قانون عرفان قادر نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ بھی ہو لیکن پھر بھی یہ فیصلہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا اور وکلا اور سیاست دان اس فیصلے کو عدالتوں میں نظیر کے علاوہ سیاسی جلسوں میں مخالفین کے خلاف استعمال کریں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ضابطہ اخلاق میں ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی سیاسی نوعیت کا مقدمہ آجائے جس میں قانونی پہلو بھی نکلتا ہو تو جج ایسے مقدمات کو سننے سے اجتناب کریں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ایسا رویہ اپنانے سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ ملک کے چیف ایگزیکٹیو یعنی وزیر اعظم کو بھی اپنا ماتحت بنایا جارہا ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عدلیہ اور فوج کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور سیاست دانوں نے اپنے مفاد کے لیے ان اداروں کا ساتھ دیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس فیصلے میں بہت سے قانونی سقم موجود ہیں اور سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کر کے حقائق کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔

جنرل حیات رقم تقسیم کرتے ہوئے
‘جج سپریم کورٹ کے جج رہنے کے اہل نہیں’
نظرثانی کی اس اپیل میں ججوں کے قواعد وضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنے کا فیصلہ لکھنے والے جج سپریم کورٹ کے جج برقرار رہنے کے اہل نہیں رہے۔

ماہر قانون اور سابق فوجی افسر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت کے رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاست دانوں نے تو اپنی ساکھ بچانے کے لیے نظرثانی کی اپیل دائر کردی ہے لیکن فوج کی طرف سے اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر نہیں کی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلے میں وزارت دفاع اور فوج کے سربراہ سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں حصہ لیا ہے۔

واضح رہے کہ متعدد سینیٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کے اجلاس میں ان کے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ فیض آباد دھرنے میں فوج ملوث ہے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔

انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ پوری قوم کی نظریں فیض آباد دھرنے اور اصغر خان کیس پر لگی ہوئی ہیں کہ کس طرح طاقتور حلقوں کے بارے میں عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ساری چیزیں ریکارڈ پر ہیں کہ فیض آباد دھرنے میں کسی شخص یا ادارے کا کیا کردار رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں پنجاب رینجرز کے سربراہ فیض آباد دھرنے کے شرکاء میں ایک ایک ہزار روپیہ تقسیم کر رہے ہیں۔ فوجی افسر کے کردار کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے کافی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ فوج سے ریٹائر ہونے والے افسران کی نتظیم بھی اس بات کی منتظر ہے کہ کب ان دونوں مقدمات کے بارے میں عدالت عظمی کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں