376

ماہرین کا عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے سماجی یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے پر زور

اسلام آباد (پ ر) گورننس کا موجودہ عالمی نظام سماجی یکجہتی اور ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے سماجی مسائل جس میں فوڈ سکیورٹی ، عدم مساوات، بے روزگاری ، تعلیم، مائیگریشن اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اسٹریٹجک مسائل پر سماجی مسائل کو ترجیح دینا ہو گی ، جس کے لیے سماجی یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار فرانس کے مشہور سیاسی اور بین الاقوامی امور کے ماہر ایمیریٹس پروفیسر برٹرینڈ بیدی نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کے زیر اہتمام ’’ نیو گلوبل گورننس ‘‘ کے عنوان سے ایک لیکچر میں کیا۔
ایمیریٹس پروفیسر برٹرینڈ بیدی (Bertrand Badie) نے کہا کہ گورننس کا موجودہ عالمی نظام بدلتے معاشرتی پہلوؤ ں کے حوالے سے اصلاحات لانے او ر اس کے مطابق پالیسیاں مرتب کرنے میں ناکام رہا۔ انہوں نے کہا کہ کثیرالجہتی معاشرتی نظام نے (multilateralism ) بدلتے معاشرتی پہلوؤ ں اور مسائل کو ملحوزِخاطر نہ رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ملٹی لیٹرا لزم کو جس سیاق و سباق میں تشکیل دیا گیا تھا اُس وقت دو سپر پاورز کے درمیان مقابلہ تھا ، اور ماحولیات، سماجی تشدد اور کثیر ثقافتی تنازعات جیسے مسائل زیادہ اہم نہ تھے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے جسے ‘ پروٹیسٹ ڈپلومیسی’ قرار دیا جاتا ہے ۔ پروٹیسٹ ڈپلومیسی کی وجہ لوگوں کو فیصلہ سازی میں شمولیت کے تمام پلیٹ فارمز سے محروم رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی یکجہتی اور ہم آہنگی ہی ترقی یافتہ سماج کی اصل بنیاد ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ ہمیں نئی تحقیق کی ضرورت ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کا گلوبل گور ننس میں کردار پر تحقیق کی جانی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو ملٹی لیٹرا لزم میں اصلاحات کے حوالے سے فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورننس کے عالمی نظام کی بحث میں نوجوانوں اورکمزور طبقے کی آواز اب بھی لاپتہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا ایک خطے کے طور پر فرانس اور جرمن کے تعاون کی طرح اقتصادی فوائد حاصل کر سکتا ہے ، جو پاکستان اور بھارت تعاون کے لئے بھی ایک سبق ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں