430

‘میرا جسم میری مرضی’


عورت آزادی مارچ پہ میری آزاد نظم

شاعر: راجہ سعد خان

” میرا جسم اور میری مرضی ”
تونے اتنی بات نہ سمجھی
تجھ کو آ سمجھاتی ہوں میں
دکھ اپنے بتلاتی ہوں میں
پہلے تم غیرت کو سمجھو
پھر اپنے سینے میں جھانکو
اور انصاف سے بات بتاو
تم سب مردوں کی نظروں میں
کیا میری اوقات ہے ؟ بولو !
تم جس کو جینا کہتے ہو
یہ جینا، جینا ہوتا ہے؟؟
کیا تم یہ بتلا سکتے ہو؟
اک بیٹی کی عزت کیا ہے؟
ماں کی قدر و قیمت کیا ہے ؟
ایک بہن کی عصمت کیا ہے ؟
اک بیٹی کو بازاروں میں
تم صدیوں سے بیچ رہے ہو
بیٹی کو زندہ درگور بھی
تم ہی مرد کیا کرتے تھے
مائیں،بہنیں،بیوی سب ہی
اب بھی مردوں کی باندی ہیں
صدیوں کا معمول یہی ہے
میری شادی کی صورت میں
کبھی نہ میری مرضی پوچھی
جس نے زیادہ مال دیا ہے
اُس کے ساتھ ہی باندھ دیا ہے
کوئی جوڑ نہ عمر کو دیکھا
کیا من میں ارمان ہیں میرے
کبھی نہ میرے من جھانکا
صدیوں سے میں جھیل رہی ہوں
مرد کی غیرت دیکھ رہی ہوں
پہلے دشمن داری کرکے
دشمن قتل کیا کرتا ہے
پھر بیوی کو زانی کہہ کر
بیوی کی بھی جاں لیتا ہے
یوں اک بے حس مرد کی صورت
اپنی جان بچا لیتا ہے
یہ ہے مرد کی کار و کاری
یعنی مردوں کی مکاری
ایک ونِی بھی کھیل ہے ان کا
یعنی اپنی غیرت دے کر
اپنی جان بچالیتے ہیں
تم نامرد نُما مردوں نے
کب عورت کو عزت دی ہے
جیتے جی تم مارتے آئے
جوئے میں مجھے ہارتے آئے
جب بھی تیرے دل سے اُتری
سمجھو میں آتش میں اُتری
جب بھی تیرے ہاتھ نہ آئی
تو نے یہ ترکیب لڑائی
یعنی اک تیزاب کی بوتل
کھا گئی میری سب رعنائی

کب تک آخر دکھ جھیلوں گی
اب میں چیخوں گی، بولوں گی
اب نہ چلے گی تیری مرضی
” میرا جسم اور میری مرضی "

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں