452

وادی بروغل، غربت و افلاس اور افیون کا استعمال

تحریر: کریم اللہ

جغرافیہ :
سطح سمندر سے 13 ہزار فٹ بلندی پر واقع وادی بروغل چترال شہرسے انتہائی شمال کی جانب 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ شمال کی جانب اس کی سرحدین بروغل پاس کے ذریعے جبکہ شمال مغرب کی جانب’ دروازہ پاس ‘ کے ذریعے وادی کی سرحدین واخان کی پٹی سے ملتی ہے ۔جنوب میں اس وادی کی سرحد دار کھوت پاس کے ذریعے یسین جبکہ مشرق کی جانب اس کی سرحدات قرمبر پاس کے ذریعے قرمبراشقامون سے کنکٹ ہوتی ہے ۔

زبان و ثقافت :

بروغل کے لوگوں کی زبان وخی پامیری ہے ۔یہ زبان افغانستان کے صوبہ واخان، تاجکستان ، چین، اپر ہنزہ گوجال، یسین اور اشقامن گلگت بلتستان میں بولی جاتی ہے ۔ بروغل کے لوگ وقتا فوقتا مختلف علاقوں جیسا کہ واخان، تاجکستان اور چائینز ترکستان سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوگئے۔1917ء کو روس میں جب سوشلسٹ انقلاب آیا تو بہت سارے لوگ اس دور میں ہجرت کرکے یہاں آباد ہوگئے ۔

معیشت :

سطح سمندر سے بلندی نیز انتہائی سخت موسم کی وجہ سے یہاں پر زراعت کا کوئی خاص انتظام نہیں، گندم اور جو کی فصل کاشت کی جاتی ہے مگر سخت موسم کی وجہ سے عموما یہ فصلیں نہیں پکتی یہی وجہ ہے کہ یہاں کی آبادی کا اصل ذریعہ معاش مال مویشی پالنا اور محنت مزدور ی ہے۔مال مویشیوں میں بکری، یاک اور دنبہ قابل ذکر ہے ،حکومت پاکستان نے بروغل کو نیشنل پارک ڈیکلئر کیا ہوا ہے ۔ جنگلات نہ ہونے کے باعث یہاں کے لوگ جلانے کے لئے مال مویشیوں کا گوبر اور ایک مخصوص قسم کے گھاس کو کیچڑ کے ساتھ نکال کر انہیں خشک کرکے استعمال کررہے ہیں، جو بہت زیادہ بدبودار ہونے کے علاوہ خطرناک زہر آلود دھوان چھوڑتے ہیں جو یہاں کے لوگوں کی صحت پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں اسی دھوان میں رہنے کے باعث یہاں کے لوگ بالخصوص خواتین کی اکثریت دمہ کے مریض ہیں۔ جبکہ چترال سے لکڑی خرید کر بروغل لے جانا یہاں کے لوگوں کے لئے ممکن ہی نہیں ۔

شرح خواندگی :

یہاں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے تاہم دور جدید میں یہاں کے لوگوں کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے لئے مختلف ادارے سرگر م عمل ہے ۔اور نوجوان نسل میں تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔

بروغل میں غربت اور آفیون کا استعمال :

ایک طرف اس وادی میں غربت کا راج ہے تو دوسری جانب یہاں آفیون کا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے ، تشویش ناک امر یہ ہے کہ عمر رسیدہ افراد سے زیادہ نوجوان نسل اس لت میں بری طرح مبتلا ہوچکی ہے، نوجوان نسل شروع میں فیشن کے طور پر آفیون کا استعمال کرتی ہے اور پھر اس کے عادی ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی صلاحتیں اور مال و دولت تباہ ہورہی ہیں۔

انفراسٹریکچر کا نظام:

بروغل لشکر گاز تک تو این جی اوز نے سڑک بنائی ہے اس سے آگے کاسفر پیدل یا گھوڑوں، گدھوں یا بیلوں پر بیٹھ کے کرنا ہوتا ہے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سفری گھوڑ سواری ہی ہے۔ بروغل ہموار ڈھلوانی علاقہ ہونے کے باعث موسم گرما میں جنت کا نظارہ پیش کررہے ہوتے ہیں ۔ تاہم روڈ انفراسٹریکچر کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث سیاحت کو وہ فروع نہیں مل رہا ہے جو ملنا چاہئے۔ تاہم بعض سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک این جی او نے چند برس قبل لشکر گاز تک سڑک تعمیر کی جس کے باعث یہاں کے لوگوں کا روزگار ختم ہوگیا کیونکہ یارخون لشٹ سے آگے سیاح مقامی لوگوں کے گھوڑوں پر سفر کرتے تھے جبکہ مقامی لوگ ان سیاحوں کے سامان وغیر بھی ساتھ لے جاتے تھے جس سے ان کا اچھا خاصا کاروبار چلتا تھا مگر اس سڑک کی تعمیر کی وجہ سے عوام سے ان کا ذریعہ معاش چھن لیا گیا اور اب لوگ اپنی ہی گاڑیوں میں لشکر گاز (جہاں جشن بروغل منعقد ہوتا تھا) تک جارہے ہیں۔

بروغل فیسٹول اور بروغل گراؤنڈ:

ہر سال اشکار واز کے مقام پر جشن بروغل کا انعقاد ہوتا ہے پرانے زمانے میں اسی مقام پر یسین اور اشقومن سے بھی پولو اور یاک ٹیمیں یہاں آتی تھی اور یہاں پولو، یاک پولو، گدھا پولو اور بزکشی کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا جس کے لئے یہاں ایک قدرتی گراؤنڈ موجود تھا جسے ایک این جی او نے بلڈوز کرکے مٹی سے بنے ایک گراؤنڈ میں تبدیل کردیا جو کہ اس علاقے کے فطری حسن کے ساتھ سراسر کھلوڑ تھا، بجائے اسی نیچرل گراؤنڈ کو اصل حالت میں بحال کرنے کے۔

جشن بروغل، نوکر شاہی کی عیاشیا ں اور عوام کے مسائل

ہر سال ماہ اگست یا ستمبر میں یہاں مشہور زمانہ تین روزہ جشن بروغل کا انعقاد کیاجاتا ہے جس میں یہاں کے مقامی کھیلوں جیسا کہ یاک پولو، بزکشی، پولو اور دوسرے ثقافتی کھیل منعقد ہوتے ہیں ۔اس سال ستمبر کے بارہ سے تیرہ تاریخ کو جشن بروغل کا انعقاد ہوا، روایتی طور پر جشن یا فیسٹول سے کسی بھی علاقے میں سیاحت کو فروع ملتا ہے اور اس سے عام لوگوں کی معیار زندگی میں تبدیلی آتی ہے مگر چترال میں جتنے فیسٹولز منعقد ہوتے ہیں وہ محض نوکر شاہی کی عیاشیوں کا ذریعہ بن رہی ہے۔ ان فیسٹولز کے نام پر کروڑوں روپے ریلیز ہوجاتے ہیں مگر محکمہ سیاحت و ثقافت پشاور سے اس رقم کی بند بانٹ شروع ہوجاتی ہے اور ڈسٹرکٹ و تحصیل انتطامیہ تک پہنچتے پہنچتے وہ رقم ہڑپ ہوجاتی ہے مگر ان فیسٹول کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا الٹا بڑی تعداد میں آمدرفت کے باعث کھنڈر نما سڑکین مزید کھنڈرات میں تبدیل ہوجاتی ہے، جبکہ گرد و غبار کے اٹھنے سے ماحول پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہےہیں۔ان فیسٹولز میں مقامی سول سوسائیٹی تنظیمات، فنکاروں اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے افراد کو مدعو کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی البتہ باہر سے مہمان بلا کر سرکاری اخراجات پر نوکر شاہی عیاشیوں میں مصروف ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں