517

کرونا وائرس کے بعد کیا ہوگا…؟

گزشتہ سال کے آخر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس تقریباً ساری دنیا میں پھیل چکا ہے اور دنیا کے زیادہ تر ممالک اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے لاک ڈاؤن کیے جا چکےہیں. چین کے شہر ووہان میں تباہی مچانے کے بعد اب یہ وائرس تقریباً پورے یورپ اور امریکہ میں تباہی مچا رہا ہے اور روزانہ ہزاروں افراد اس وائرس کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن رہے ہیں.

پاکستان میں بھی کورونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے. کورونا وائرس طبی لحاظ سے انسان کےلیے جتنا خطرناک ہے اس سے بھی کئی سو گنا یہ وائرس سماجی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے خطرناک ثابت ہوتا جارہا ہے اور اس کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوگئی اس کو دیکھ کر ہر ذی شعور انسان سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ آخر اس صورتحال سے کیسے نپٹا جائے. طبی ماہرین نے ابھی تک اس وائرس سے بچاؤ کا جو حل بتایا ہے وہ سماجی دوری اختیار کرنا اور صفائی کا خیال رکھنا ہے. سماجی دوری کے لیے دنیا کے تقریباً 70فیصد ممالک نے لاک ڈاؤن کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرکے شہریوں کو اپنے گھروں تک محدود کیا ہے.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے لاک ڈاؤن سے مطلوبہ نتائج حاصل ہورہے ہیں؟ فی الحال ان نتائج کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے تاہم یہ عمل اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار مدگار ہوسکتا ہے. سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے ترقی پزیر ممالک کی کمزور معیشت اس لاک ڈاؤن کی متحمل ہوسکتی ہے؟ یہ وائرس دنیا میں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ نہ صرف کمزور معیشتوں کو لقمہ اجل بنا رہا ہے بلکہ اس وقت ترقی یافتہ ممالک کی معیشت بھی متزلزل دکھائی دے رہی ہے.آنے والی وقتوں میں ترقی پزیر ممالک کی کمزور معیشتوں کا کیا ہوگا یہ تصور کرتے ہوئےبھی خوف آنے لگتا ہے. صورتحال اسی طرح خراب رہی تو دنیا کے پیشتر ممالک بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہونگے اور یہ کورنا وائرس سے بھی خطرناک ثابت ہوگااوراسکی وجہ سے بین الاقوامی سیاست میں یکسر تبدیلیاں رونما ہونگی. یہ تبدیلیاں عام آدمی جوکہ دنیا کی 90فیصد آبادی پر مشتمل ہیں کے حق میں ہونے کے آثار بلکل بھی دکھائی نہیں دیں رہے ہیں. عام آدمی بین الاقوامی سطح پر مزید مشکلات کا شکار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے جوکہ ایک اور عالمی سنگین صورتحال کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے.

یہ وباء انسانی زند گی کے ابتداء سے تشکیل کردہ سماجی نظام کو بھی بری طرح درہم برہم کرتا دکھائی دے رہا ہے اور انسان جو کہ "واقعی ایک سماجی حیوان ہے” کو سماجی دوری اختیار کرنےپر مجبور کیا ہے. یہ سماجی دوری ذیادہ دیر حضرت انسان قائم نہیں رکھ سکتا ہے اور اگر بروقت یہ وباء کنٹرول نہیں ہوا تو ہماری سماجی ساخت میں ایسی خطرناک تبدیلیاں متوقع ہیں جس کا متحمل حضرت انسان کسی بھی صورت میں نہیں ہوسکتا.

کورونا وائرس نے دنیا کے تقریباً تمام سیاسی نظاموں کو بھی سخت مشکلات سے دوچار کردیا ہے اور دنیا میں رائج ہر سیاسی نظام اس بحرانی کیفیت میں ناکام دکھائی دے رہا ہے. ایسے میں پوری دنیا میں لوگوں کا مختلف سیاسی نظاموں پر سے اعتماد کم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے. سپر پاور کی دوڑ میں دنیا کے بڑے بڑے طاقتور ممالک کے ایٹم بم، جنگی جہاز ٹینک اور جدید ہتھیار بھی بے معنی ہوتے جا رہے ہیں.

اس وباء نے نہ صرف دنیا کی سیاست، سماج اور معیشت کو مشکلات سے دوچار کیا ہے بلکہ جدید سائنس سمیت دنیا کے تمام عقائد کے سامنے بھی سوالوں کے پہاڑ کھڑے کردیئے ہیں اور وہ بھی حضرت انسان کو کوئی خاطر خواہ جواب دینے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں. اگر کوئی ویکسین یا دوا ایجاد کیا بھی جائے تو اس وائرس نے حضرت انسان کی سیاست، سماج معیشت اور دیگر تمام شعبوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان سے بچنا بلکل بھی ناممکن ہوچکا ہے. بظاہر حضرت انسان کو ایسا لگ رہا ہے کہ وائرس کنٹرول ہونے کے بعد دوبارہ سے سب ویسا ہی ہوگا پھر سے زند گی ایسے ہی شروع کریگا جیسے پہلے تھی. حقیقت میں بلکل بھی ایسا نہیں ہوگا اس کے بعد حضرت انسان کے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں تبدیلیاں رونما ہونگی. یہ تبدیلیاں مثبت ہونگی یا منفی ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا. انسانی سماجی ذند گی میں بھی یکسر تبدیلیاں متوقع ہیں اور سیاست خصوصاً بین الاقوامی سیاست کا منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگا.

بین الاقوامی معیشت اس وائرس سے بری طرح متاثر ہوگئی ہے اس کے منفی اثرات بلواسطہ یا بلا واسطہ حضرت انسان پر مرتب ہونگے اور اس کو اس نئے معاشی میدان میں بہت مشکلات کا سامنا ہوگا. اس وائرس پر کنٹرول کے بعددنیا کے مختلف عقائد کا حضرت انسان پر گرفت مزید مضبوط ہوگا یا کمزور ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائےگا اور اس حوالے سےکم لکھنا اور بولنا ہم جیسے ترقی پذیر معاشروں میں صحت کے لیے کافی بہتر ہوتا ہے.

بہر حال ہم سب کو اس صورتحال سے سبق لینے کی ضرورت ہے اور اپنے اپنے انفرادی رویوں میں ایک مثبت تبدیلی لاکر ایک اجتماعی رویہ تشکیل دینا ہوگا اور آنے والے مشکل وقت اور حالات کے ساتھ ملکر مقابلہ کرنا ہوگا. ہمیں انفرادی طور پر خود کو معاشرے کےلیے فائدہ مند بنانے کی ضرورت ہے. اگر ہم اس صورتحال سے مثبت سبق لین گے تو آئندہ آنے والے مشکلات کا مقابلہ کر پائیں گے اور مستقبل کو خوشگوار بنا سکیں گے. اگران حالات سے منقی سبق لیکر صرف اپنی ذات تک محدود ہونے والی سوچ اپنائیں گے تو ہمارا معاشرہ مزید کمزور ہوگا اور کمزور معاشرے اس وائرس کے بعد کے چیلنجز کا بلکل بھی مقابلہ نہیں کر پائیں گے. آنے والا وقت بہت مشکل اور انتہائی کھٹن ہوگا اور تباہی ہماری قسمت ہوگی.

سماجی دوری اختیار کرنے کا مقصد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ اس کا ہرگز بھی یہ مطلب نہہں لینا چاہیئے کہ دوسروں سے ہمیشہ دور رہنا ہے اور کمزور کی مدد نہیں کرنی ہے اور صرف اپنی ذات کا سوچنا ہے. اس وائرس کے خاتمے تک سماجی دوری کو ایک عارضی جدائی سمجھ لیں اور اپنے اندر سماج کی بھلائی اور سماجی بہبود کے جذبات کی آبیاری کرے تاکہ آنے والے امتحانات کا ہم سب ملکر مقابلہ کرسکے.


عباس وفا گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں