کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے

تحریر: کریم اللہ کھوار زبان چترال کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور سوات کے علاقہ کلام میں بولی جاتی ہے۔ چترال کی سب سے بڑی زبان ہونے کے...

361

گزشتہ چار سالوں میں تحصیل کونسل مستوج کو کم و بیش 50 کروڑ روپے کے فنڈز ریلیز ہوئے۔ سابق ممبر تحصیل کونسل سردار حکیم

چترال (کریم اللہ ) بہت سارے لوگ بالخصوص ممبران تحصیل و ضلع اور ویلج کونسلز یہ پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے بلدیاتی اداروں کو کیا دیا،حالانکہ ان چار برسوں میں چترال کے طول و عرض میں اربوں روپے بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ ہوئے صرف تحصیل کونسل اپر چترال کو ان چار برسوں میں 48 سے 50 کروڑ روپے کے فنڈ ریلیز ہوئے ، ان خیالات کا اظہار سابق ممبر تحصیل کونسل یوسی چرون سردار حکیم نےہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ان کا کہناتھا کہ ویلج کونسل اور ضلع کونسل کے ممبران کو ملنے والی کروڑوں روپے کے فنڈز اس کے علاوہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سابقہ ایک تحصیل ناظم کے دور میں اپر چترال کو صرف28 لاکھ روپے جبکہ دوسرے تحصیل ناظم کے پورے دورانئے میں تحصیل کونسل مستوج کو 48 لاکھ روپے کے گرانٹ دئیے گئے مگر ہماری حکومت میں 48 سے 50 کروڑ روپے صرف تحصیل کونسل اپر چترال کے ذریعے خرچ کئے۔
سردار حکیم نے بتایا کہ تحصیل کونسل مستوج جس کا میں حصہ تھا نے یوسی چرون میں گزشتہ چار سالوں میں 3 کروڑ 18 لاکھ 56 ہزار روپے خرچ کئے۔ جن میں سے میرا اپنا فنڈ ایک کروڑ 5 لاکھ 12 ہزار روپے تھے۔
مجموعی طور پر تحصیل کونسل اپر چترال کو ان چار سالوں میں 48 سے 50 کروڑ روپے کے فنڈز صوبائی حکومت نے ریلیز کردئیے ۔۔۔
ان کا کہناتھا کہ میں نے جیتنے کے بعد اپنے یوسی کا دورہ کرکے عوام سے اپیل کی کہ انفرادی کاموں کے بجائے اجتماعی کاموں کی ایک فہرست بناکے مجھے دیا جائے تاکہ انہیں حل کرنےمیں آسانی رہے اور عوام نے بھی میرا بھر پور انداز سے ساتھ دیا اور میں نے اپنے ان چار سالوں کے دورانئے میں میرٹ کی بنیاد پر اجتماعی کام کرنے کی کوشش کی ۔ سردار حکیم کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ تحصیل کونسل کے وجود میں آنے سے قبل ہی بعض لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا تھا جن کے لئے تنخواہیں ہماری بجٹ سے دینا پڑی جس کے باعث بجٹ کا بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں میں چلا گیا ۔انہوں نے کہا کہ ماضی کی طرح ہمیں فینانشل معاملات میں زیادہ اختیارات حاصل نہیں تھے جبکہ ہم بحیثیت ممبر صرف منصوبوں کی نشاندھی کرسکتے تھے باقی کام کروانا ٹی ایم او کی ذمہ داری تھی ۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ بلدیاتی ادارے عوامی مسائل کے حل کے لئے بہترین ادارے ہیں کیونکہ عوام کی اکثریت کی پہنچ ایم این ایز یا ایم پی ایز تک نہیں ہوتی اور یہ کریڈٹ بھی ہماری حکومت کو جاتا ہےکہ انہوں نے نہ صرف بلدیاتی ادارے قائم کئے بلکہ اب بلدیاتی نظام میں مزید تبدیلی لاتے ہوئے بہتر انداز سے ان اداروں کو اسٹبلش کررہے ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہا ر کیا کہ ٹی ایم اے کی کوتاہیوں کے باعث روان مالی سال میں کم و بیش ایک کروڑ 92 لاکھ روپے استعمال ہی نہیں ہوسکیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں