534

گلگت-بلتستان میں قدرتی آفات سے بچاؤ

سید صمد شاہ

Syed Samad Shah is a graduate Urban Planner from the University of Engineering and Technology, Lahore.

گلگت-بلتستان قدرتی آفات کا سب سے زیادہ شکار خطہ ہے جو پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اس خطے کو حال ہی میں بے شمار قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گلگت بلتستان کو پاکستان کے Seismic Zone-II میں رکھا گیا ہے۔ لہذا ، یہ قدرتی آفات خصوصاََ سیلاب اور زلزلے کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ مالی نقصان کے علاوہ صوبے میں غیر متوقع قدرتی آفات کے سبب متعدد ہلاکتیں بھی ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔

پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) تیرہ کے ہدف نے آب و ہوا کی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے فوری اقدام اٹھانے کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے۔ آب و ہوا میں اچانک تبدیلیاں ماحول سے متعلق مسائل جیسے سیلاب اور لینڈ سلائیڈز کو جنم دیتی ہیں۔ دوسری طرف ، شہروں میں غیر منصوبہ بندی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔

سال 2010 میں ، پورے پاکستان میں غیر متوقع بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں جانوں کے ساتھ ساتھ خطے کی معیشت کو بھی ایک غیر معمولی نقصان پہنچا۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں گلگت بلتستان شامل تھے۔

نیز ، 2017 میں ، وادی اشکومین میں بادسوات کو گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) نے نشانہ بنایا جس نے خطے میں مالی، سماجی اور ماحولیاتی بحران پیدا کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسے کئی واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں، جنہوں نے بالعموم ، صوبے کو ، اور خاص طور پر ، قدرتی آفات کا شکار لوگوں کو بہت متاثر کیا ہے۔

پاکستان کے شمالی علاقوں میں قدرتی آفات بہت عام ہیں۔ انسان کسی قدرتی آفت کو روک تو نہیں سکتا البتہ اگر مندرجہ ذیل حکمت عملیوں پر عمل کیا جائے تو تباہی کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

1۔گلگت بلتستان میں ایک مناسب زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی (Landuse Planning) کی ضرورت ہے۔ متعلقہ حکام سے مشورہ کیے بغیر کہیں بھی تعمیر کرنا صوبے میں ایک عام رواج ہے۔ حالانکہ لوگوں کو یہ حقیقت معلوم ہونا چاہئے کہ کہاں کیا تعمیر کرنا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ "منصوبہ بندی کا لازمی سوال یہ نہیں ہے کہ کہاں تعمیر کیا جائے بلکہ کہاں تعمیر نہیں کیا جائے۔”

2-گلگت کا ماسٹر پلان آخری مراحل میں ہے، اس میں مستقبل میں ہونے والی پیشرفت کے لئے منصوبہ بندی کے قوانین خصوصاََ بلڈنگ کوڈ کو عملی جامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے۔

3- عوام کو بھی قدرتی آفات کے خاتمے میں کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ اپنے مکمل تعاون کو یقینی بنانا چاہئے-

4- اس خطے میں جنگلات کی کٹائی کی شرح بڑھ رہی ہے جو قدرتی آفات کے خطرے کو دوگنا کردیتی ہے۔ ماحولیاتی خطرات کو کم کرنے کے لئے جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور شجر کاری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

5- ابتدائی انتباہی نظام (Early Warning System) ان علاقوں میں لگایا جائے جہاں تباہی کا خطرہ زیادہ ہو۔ مذکورہ بالا حکمت عملیوں کو فیصلہ سازی کے ایک حصے کے طور پر شامل کرکے، قدرتی آفات سے نمٹنے کے مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے اس سے پہلے کہ اس میں بہت دیر ہو جائے۔

سید صمد شاہ اربن پلانر ہین۔ انہوں نے یونیورسٹی اف ینجینئرنگ اور ٹیکنالوجی لاہور سکے گریجویٹ ہیں۔ وہ ایک پرایئویٹ ادارے میں اسسٹینٹ منیجر پلاننگ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں