797

دنیا بھر کے مظلوم عوام اور مظلوم اقوام! متحد ہو جاؤ – لینن

سن 1917ء میں برپا ہونے والا انقلاب روس انسانی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا۔ 1871ء میں صرف چند مہینوں کے لئے قائم رہنے والے پیرس کمیون کے علاوہ انقلاب روس تاریخ کا وہ پہلا واقعہ تھا جس میں کروڑوں محنت کشوں نے نوجوانوں اور چھوٹے کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور اجتماعی ملکیت کی بنیادوں پر ایک غیر طبقاتی سماج تعمیر کرنے کی شعوری کوشش کی۔ اسی غرض سے روس کے تجربے سے قومی سوال کی طرف سوشلسٹوں کے رجحان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ روسی تجربے میں قبل از انقلاب مارکسسٹ رہنماوں کے قومی سوال بارے مکالمے (بالخصوص لینن اور روزا لکسمبرگ کے مابین) اور پھر ردِ انقلاب کے وقت قومیتوں کی علحیدگی کے سوال پر روسی مارکسسٹوں کا رویہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ مارکسسٹ اپنے بیانیہ (قبل از انقلاب) اور اپنے عمل (بعد از انقلاب) دونوں میں قومی سوال پر سب سے واضح موقف رکھتے ہیں۔

انقلاب روس کے بانی ولادیمر لینن کے بقول زار شاہی کا روس قومیتوں کا جیل خانہ تھا جس کی لگ بھگ 16کروڑآبادی میں سے 9 کروڑ غیر روسی اقوام پر مشتمل تھی جو کہ روسی حکمران طبقے اور اس کی مطلق العنان زار شاہی کے قومی جبر کے شکار تھے۔ لینن اس حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتا تھا کہ زار شاہی کے خلاف اٹھنے والی انقلابی تحریک میں روسی محنت کش طبقہ تمام محکوم قوموں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرے گا۔ لینن کیلئے دیگر تمام سیاسی و سماجی مسائل کی طرح قومی مسئلہ بھی حتمی تجزئیے میں ایک طبقاتی مسئلہ ہی تھا اور لینن کے نزدیک اس مسئلے پر مارکسسٹوں کے مؤقف کا حتمی مقصد مختلف اقوام کے محنت کشوں کو بالادست طبقہ کے خلاف لڑائی میں طبقاتی بنیادوں پر متحد کرنا تھا۔ اسی مقصد کیلئے لینن نے ’’اقوام کے حق خود ارادیت‘‘ کا موقف پیش کیا تاکہ بالشویک تمام محکوم قومیتوں پر یہ واضح کر سکیں کہ وہ قومی جبر کی ہر شکل کی مخالفت کرتے ہیں اور قوم پرستی کی ہر شکل اور ہر قسم کی بھی سخت مخالفت کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ حتمی نجات کیلئے مختلف اقوام کے محنت کشوں کا طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہونا لازمی ہے۔

نوآبادیات کے اندر قومی سوال پر مختلف رجحانات بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ پہلا رجحان روایتی اور تنگ نظر قوم پرستی کا ہوتا ہے جو علٰحیدگی پسندی کو مرکز و محور مان کر سیاست کرنے کا قائل ہوتا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات میں سے ایک اہم وجہ نوآبادیاتی جبر کے نتیجے میں جنم لینے والی وہ نفرت ہوتی ہے جو دیسی باشندے کی جدوجہد کو نسل پرستانہ جواز فراہم کرتی ہے اور اسے تنگ نظری کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ اس صورت حال میں قوم پرستی تنگ نظر قبیلہ پرستی کی شکل اختیار کرتی ہے اور پھر نسلی بنیادوں پر محبت اور نفرت کی جانے لگتی ہے۔ جیسا کہ سندھی، بلوچ، پشتون، کشمیری، گلگتی و بلتی قوموں کے اندر پنجابی قوم کی طرف نسل پرستانہ اور نفرت انگیز رویہ قومی سوال کے اس پہلے اور تنگ نظر رجحان کی دین ہوتا ہے (کیونکہ بیوروکریسی، فوج اور تمام بالادست طبقے کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے مگر پنجاب کے محنت کش اور مفلوک الحال عوام کا اس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا، بلکہ وہ بھی اسی بالادست طبقہ کے جبر کا شکار ہوتے ہیں)۔ چونکہ اس نقطہ نظر کے مرکز میں نسلی بنیادوں پر نفرت پائی جاتی ہے اور علٰحیدگی کو اس کا حل مانا جاتا ہے لہذا اس طرز کی قوم پرستی اپنے حتمی تجزیے میں بالادست طبقہ کے مفادات کی پالن ہار بن جاتی ہے۔

دوسرا رجحان قومی جدوجہد سے سطحی یکجہتی کے دعوؤں کا ہے، جس میں جب مظلوم قوموں کے مابین یکجہتی یا قومی جبر کے خلاف جاری تحریکوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا تقاضا ہوتا ہے تو محص زبانی ہمدردی سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہ قومی ہمددری کا لبادہ اورڑھے قوم فروشوں کا گروہ ہوتا ہے، جس کا تعلق تو قوم کے اندر سے ہی ہوتا ہے مگر مفادات نوآبادیاتی آقاؤں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ یہ رجحان اپنے زبان و بیان میں قوموں کے حقوق سلب کئے جانے کی بھرپور مذمت کرتا ہے، مگر حقوق سلب کئے جانے کے اصل محرکات پر یا تو ابہام کا شکار ہوتا ہے، یا مصلحتاً خاموش ہوتا ہے۔ چونکہ اس طرز کی قومی یکجہتی محض سطحیت کی بنیاد پر ہوتی ہے لہذا یہ رجحان اپنے حتمی تجزیے میں قومی جبر کے خاموش تماشائی (اور کالونائزر کے مددگار) کا کردار ادا کرتا ہے۔

تیسرا اور سب سے اہم رجحان قومی سوال کو دیگر سیاسی سوالوں کی طرح طبقاتی سوال سے جوڑ کر دیکھنا ہے۔ یہ رجحان بائیں بازو (سوشلزم) کا رجحان ہے۔ سوشلسٹ ہر شکل کے قومی جبر کی مخالفت کرتے ہیں جس میں کسی قوم کو زبردستی کسی جغرافیائی سرحدوں کے حدود کے اندر رکھنا بھی شامل ہے۔ اس رجحان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قومی جبر کو قوم کے محنت کش اور نچلے طبقے کی انقلابی جدوجہد اور طاقت سے توڑا جائے نہ کہ قوم کے بالادست طبقہ کے ساتھ مک مکاؤ سے۔ قوم کا بالادست طبقہ اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر قبضہ گیروں کی نہ صرف مکمل حمایت کرتا ہے بلکہ ان کے ساتھ مل کر اپنے ہی قوم کے مفلوک الحال لوگوں پر نوآبادیاتی جبر کو نافذ کرنے میں مدد گار بنتا ہے۔

سوشلسٹ رجحان یہ سمجھتا ہے کہ مختلف اقوام کے محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کی اہمیت پر زور دئیے بغیر صرف اقوام کے حق خود ارادیت کے نعرے کو دہراتے رہنے کا مطلب بالادست طبقے کی قوم پرستی کی اندھی کھائی میں گر جانا ہے۔ اسی طرح محکوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کی بات کئے بغیر (اور قومی جبر کی ہر شکل کی مخالفت کئے بغیر) قوموں کی یکجہتی کے سطحی نعرے لگانا قومی جبر پر تماشائی بننے کے مصداق ہے۔ اور ایسے مبہم رجحانات سے مختلف قوموں کے محنت کشوں کے مابین طبقاتی اتحاد قائم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی اور یہ پالیسی بالآخر حاکم اور محکوم اقوام کے حکمران طبقات کی محنت کش طبقے کو قومی بنیادوں پر تقسیم رکھنے کی کوششوں کو تقویت پہنچانے کا سبب بنے گی۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مارکس اور لینن نے سب سے پہلے قومی آزادی کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس پر کئی مضامین اور کتابیں بھی لکھیں۔ لینن کی مشہور کتاب قومیتوں کا سوال آج بھی ترقی پسند قوم پرستوں کے لئے ایک اہم اور لازمی مطالعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسلئے کمیونسٹ پارٹیوں نے چالیس اور ساٹھ کی دہائیوں تک سامراجی اور نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف قومی آزادی کی تحریکوں کا بھر پور ساتھ دیا خواہ وہ آفریقہ ہو یا ایشیا، لاطینی امریکہ ہو یا مشرقی وسطی ان خطوں میں قومی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ عملی طور پر مدد بھی کی گئی جس کی مثالیں الجزائر، مصر، یمن، تیونس، عراق، موزمبیق، جنوبی افریقہ،ویت نام اور کیوبا، اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ملکوں میں بعد ازاں آنے والے ڈکٹیٹرز کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انقلابات کے ثمرات عام لوگوں تک کُلی طور پر نہیں پہنچ پائے اور اشرافیہ طبقہ اقتدار سے چمٹے رہے اور طبقاتی فرق کو مٹا نہی سکے۔

برصغیر میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف اور قومی آزادی کی جدوجہد میں جتنی قربانیاں بائیں بازو نے دی ہیں کسی دائیں بازو کے شاونسٹ قوم پرست نے اس کا ایک فی صد بھی نہیں دیا ہوگا، اور یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جس کی مثالیں غدر پارٹی، ہندوستان سوشلسٹ رپبلک پارٹی (بھگت سنگھ کی جماعت)، کمیونسٹ پارٹی اور سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج شامل ہیں جن کی مسلح جدوجہد برطانوی سامراج کو ہندوستان سے بھگانے کی کلیدی وجوہات میں سے ایک ثابت ہوئی۔ پاکستان میں بھی قومی جدوجہد کرنے والی طلبا تنظیموں کو بنانے میں کمیونسٹوں کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ ون یونٹ کو توڑنے اور بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی کی بھی حمایت بائیں بازو نے ہی کی تھی۔ آج بھی بائیں بازو کی جماعتیں قومی سوال پر واضح موقف رکھتی ہیں، چاہے وہ فلسطین کا مسئلہ ہو، پاکستان و ہندوستان کے اندر مظلوم قوموں کا مسئلہ ہو، یا پھر پاکستان و ہندوستان کے قبضے میں موجود اقوام کی حق خود ارادیت کا مسئلہ ہو۔

گلگت بلتستان کے قومی سوال کو بھی یہاں کے محنت کش طبقے کے مفادات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ طبقاتی شعور کے بغیر کی جانے والی قومی جدوجہد اس خطے میں دو ہی صورتیں پیدا کر سکتی ہے: (الف) ایک نئی قومی پورژوازی (یعنی اپنی قوم کے اندر ایک نئے مقتدر طبقے) کو جنم دینا، اس کی پرورش کرنا اور اسے ایک خونخوار بھیڑیئے کی طرح اپنے ہی قوم کے محکوم طبقات پر مسلط کر دینا (جیسا کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں نوزائیدہ ممالک میں ہوا)۔ (ب) سامراجی طاقتوں (چین اور امریکہ) کے گریٹ گیم پر انحصار کرنا اور انہی میں سے کسی ایک کے ہاتھوں کھیلنا۔ جب قومی جدوجہد کا محور گلگت بلتستان کے اندر موجود تمام قوموں کا نچلا طبقہ نہیں ہوگا، تو مفلوک الحال عوام کو بتایا جائے گا کہ چونکہ وہ (عوام) انقلاب کے لئے تیار نہیں ہیں، لہذا قومی سوال کا حل اب نیچے (عوام) سے نہیں بلکہ اوپر (امریکہ و چین کی بارگیننگ) سے طے گا۔ اس ضمن میں عوامی حلقوں کو اعتماد میں لینے لے لئے سامراجی ممالک کی سفاک طاقت اور اپنی قوم کے قوت بازو کی کمزوری کا بارہا موازنہ کرایا جاتا ہے اور پھر کسی ایک سامراجی لابی کی حمایت میں دلیل بھی گھڑے جاتے ہیں۔ گویا کہ:

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لئتے ہیں ۔ ۔ ۔

گلگت بلتستان کے سوشلسٹ سمجھتے ہیں کہ یکم نومبر 1947ء کے بعد اس خطے نے دوہری غلامی کے سفر کا آغاز کیا۔ سینتالیس سے قبل مہاراجہ کی ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا کا حصہ بھی اس خطے کو جبری بنیادوں پر بنایا گیا تھا۔ پاکستان اور ہندوستان سمیت بین الاقوامی قوتیں جس کو مسئلہ کشمیر کا نام دیتی ہے، وہ در اصل مسئلہ جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا ہے۔

چونکہ اس کالم میں قومی سوال پر بائیں بازو کے موقف کا بیان مقصود ہے، ہم تاریخ پر گفتگو زیادہ نہیں کریں گے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ نہ تو سینتالیس سے قبل، اور نہ ہی سینتالیس کے بعد اس خطے کے سیاسی فیصلوں میں یہاں کے عوام کی مشاورت شامل رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے سوشلسٹوں کا یہ موقف ہے کہ اس خطے کے سبھی سیاسی فیصلے نہ صرف اس خطے کی اکثریت (یعنی یہاں کے محنت کش طبقے) کی مشاورت سے ہوں، بلکہ حتمی طور پر اس خطے سے متعلق تمام سیاسی فیصلے کرنے کا مجاز بھی یہاں کا محنت کش طبقہ ہی ہو۔ یہ صرف خواہشات اور مطالبات کا سوال نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی جدوجہد کا سوال ہے، جو کہ گلگت بلتستان میں عوامی ورکرز پارٹی، پروگریسیو یوتھ فرنٹ، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، انقلابی سوشلسٹ، بلور ریسرچ فورم اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن وغیرہ کی شکل میں اس وقت جاری و ساری ہے (یہاں ان تنظیموں کے نام لکھنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں سوشلسٹوں کے موقف بارے مزید تفصیلی جانکاری کے لئے ان تنظیموں کے سیاسی لٹریچر سے مدد لی جا سکتی ہے)۔ گلگت بلتستان کی قومی سوال کو ایک منظم تحریک اور تحریر شکل میں سب سے پہلے سوشلسٹ کارکنوں نے ہی 80ء کی دہائی میں گلگت بلتستان اسٹوڈنٹس فرنٹ، گلگت بلتستان جمہوری محاذ اور قراقرم نیشنل موومنٹ کی تعمیر کے ساتھ آٹھایا تھا۔

المختصر، سوشلسٹ گلگت بلتستان کے قومی سوال پر واضح موقف رکھتے ہیں۔ یہ قومی جبر کی ہر قسم اور ہر شکل کی مخالفت کرتے ہیں، تمام مظلوم اقوام کی جدوجہد سے مکمل یکجہتی رکھتےہیں (جو کہ صرف زبانی ہمدردی نہیں ہوتی، بلکہ عملی طور پر مظلوم اقوام کے حق میں کھڑے ہونا ہوتی ہے)۔ یہ تمام اقوام کی حق خود ارادیت بشمول حق علحیدگی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن سوشلسٹوں کی تمام حمایت دو اہم عوامل سے مشروط ہوتی ہے، اول تو یہ کہ قومی جدوجہد قوم کے محنت کش طبقے کے ساتھ اور ان کے حق میں ہو اور دوئم یہ کہ قومی جدوجہد کے اندر سرمائہ دارانہ نظام پر واضح تنقید اور سامراجیت کی مکمل مخالفت نہ صرف لکھت کا ایجنڈا ہو بلکہ عمل میں بھی ظاہر ہو رہا ہو۔

تحریر کو سمیٹے ہوئے یہ خلاصہ ضروری ہے کہ سوشلسٹ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں موجود تمام جبر و نابرابری کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے۔ اس خونی سرمایہ داری نے کہیں پر صنعتی مزدور کو صنعت کار کا غلام بنایا، کہیں مفلوک الحال کسانوں اور ہاریوں کو وڈیرے جاگیردار کی غلامی میں رکھا ہے، کہیں عورت کو سخت گیر پدرشاہی کا غلام بنایا ہوا ہے تو کہیں مظلوم اقوام کو نوآبادیاتی جبر کے ذریعے نوآبادیاتی آقاوں کا غلام بنایا ہوا ہے۔ لہذا چاہے وہ مزدور ہو ہا ہاری، عورت ہو یا اقلیت، افرو امریکن کالے ہوں یا مظلوم اقوام، ان کی حتمی آزادی اس خونی سرمایہ دارانہ نظام کی شکست سے ہی مشروط ہے، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی کُلی شکست تک پرشاہی، جاگیرداری، اور قومی جبر کو کسی بھی صورت بخشا جائے۔ یہ جدوجہد بیک وقت نظر نہ آنے والے دشمن (سامراج) اور نظر آنے والے دشمن (مقامی آلہ کاروں) کے خلاف ہے۔ چونکہ سرمایہ داری ایک عالمگیر نظام ہے، اس کے رد کا بھی عالمگیر ہونا ضروری ہے، لہذا حتمی تجزیے میں سرمایہ داری کا رد، قومی جبر اور جبر کی دیگر  شکلوں کے خلاف برسر پیکار عالمگیر سیاسی نقطہ نظر سوشلزم ہی ہے۔


عنایت بیگ ہائی ایشیاء میڈیا گروپ کے بیورو چیف سندھ اور سیاسی کارکن ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں