عزیزعلی داد
اگر کسی معاشرے کی ذہنیت سمجھنا ہے تو اس معاشرے کے اعلی آدرشوں اور دعووں پر غور نہیں کرنا چاہیۓ کیونکہ بعض اوقات بڑے دعوے معاشرے میں موجود ذہنی بیماریوں کو عیاں کرنے سے زیادہ ان کو چھپاتے ہیں۔ معاشرے کی ذہنیت اور ذہنی حالت روزمرہ کی بات چیت اور حرکات کے ذریعے اہنے آپ کو آشکار کرتی ہے۔
گلگت بلتستان میں آئے دنوں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدتہذیبی اور گالم گلوچ پہ پریشانی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ اس کو گلگت بلتستان کے روایتی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے علاقے کے کوئی اقدار ہیں؟ اکثریت اس مغلاطے میں مبتلا ہیں کہ ہمارے اقدار پاکستان کے دیگرعلاقوں سے بہتر ہے۔ چونکہ میں پاکستان کے دیگر علاقوں کو بہتر نہیں جاتا اس لئے کچھ زیادہ کہہ نہیں سکتا۔ البتہ گلگت بلتستان کے متعلق کچھ لکھ سکتا ہوں۔
حالیہ دنوں میں ہمارے دوست صحافی شبیر میر اور عبدالرحمان بخاری کے خلاف گالم گلوچ کا سلسلہ شروع ہوا۔اب سوال یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں صحافی ٹھیک تھے یا غلط؟ اصل بات یہ ہے کہ ان سے اختلاف کی جو صورتیں اور آرا سامنے آئیں وہ صحافت کی کم مگر ہمارے معاشرے کی اجتماعی نفسیات کی بہترغمازی کرتے ہیں۔ اگر ہم اس رویے کوکسی ایک زبان،شعبے، مسلک، علاقے یا نسل سے منسلک کرینگے تو ہم اپنے معاشرے کی کلی نفسیات کی تفہیم نہیں کرپائینگے۔
گلگت بلتستان میں عمومی رویہ یہ ہے کہ جب ہمارا کسی شخص سے اختلاف ہوتا ہے تو ہم جس چیز یا نظریہ پر اختلاف کرتے ہیں اس کو بھول جاتے ہیں اور ذاتیات پر اترتے ہیں۔ چونکہ ہماری ذہنی تشکیل قبائلی اور عصبی ہے اس لیے جس بندے کی مخالفت کرتے ہیں اس کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کھینچ کر درمیان میں لاتے ہیں اور ان کو گندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا ان ہدر شاہی یا مردوں کے پبلک قضیوں کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اوپر سے ہم دعوی یہ کرتے ہیں کہ ہماری ثقافت میں عورت کا زیادہ احترام ہے۔ یہ سب ثقافتی جھوٹ ہے جس کو اقدار کی کھوکلی عمارت کو سہارا دینے کے لیے تراشا گیا ہے۔ دشنام طرازی اور نسلی تحقیر کی یہ ذہنیت گلگت بلتستان میں ہر سطح، گروہ اور علاقے میں بدرجہ اتم موجودہے۔اس کو میں چند مثالوں سے واضع کرنے کی کوشش کرونگا۔
تین سال پہلے ہنزہ کے علاقے شیناکی میں کچھ تاریخی حوالوں کی تصدیق کے لیے ایک جرمن پروفیسر کے لیے کام کر رہا تھا۔ دوران تحقیق میں لوگوں سی انکے قبیلوں اور مختلف نسلوں کے متعلق کچھ سوالات پوچھتا تھا۔ لوگ اپنے قبیلے اور نسل کے متعلق سوال کاجواب دینے کی بجاۓ دوسرے قبیلوں کے متعلق اپنی آرا زیادہ دیتے تھے جو انتہائی منفی قسم کی ہوتی تھیں۔ ہر قبیلے یا خاندان والے دوسرے قبیلوں اور خاندانوں کے اجداد کو یا ناجائز اولاد قرار دیتے تھے یا ان کو نچلے طبقے کے لوگ گردانتے تھے۔ میں نے ایک دن زچ آکر اہنےایک محقق دوست کو کہا کہ مجھےاپنی تحقیق کے حوالے سے موادبہت کم ملا مگر یہاں رہنے والے قبیلوں اور خاندانوں کے متعلق جو مواد ملا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کےسارے لوگ یا تو ناجائز اولاد ہیں یا شودر۔ایسے میں ناجائز نسلوں پر ہی کچھ لکھا جاسکتا ہے۔
اس طرح کی تحقیری ذہینت گلگت بلتستان کے ہر کونے میں مختلف اشکال میں اپنے آپ کو ظاہر و باہر کرتی ہے۔ بحیثیت قوم ہم فرقہ پرستی کے علاوہ دوسرے نفسیاتی عارضوں میں بھی مبتلا ہے۔گلگت بلتستان میں علاقائی تحقیر اور نسلی تعصب ہر علاقے اور نسل میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ آپ کو شاید یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ ہماری یہی گندی ذہنیت ہی ہمیں اجتاعی قوم کی تعریف میں پروتی ہے۔ اس کو ایک مثال دینے کے بعد واضع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ کوشش ہوگی کہ یہ مثال خنجراب سے لیکر بصری بیرل دیامر تک کا احاطہ کرے۔
ہنزہ کے معاملے میں نسلی و علاقائی تحقیر کی بیماری نہ صرف پرانی ہے بلکہ زندہ بھی ہے اور آج کے دور میں بھی بین علاقائی و نسلی تعلقات و نظریات پر اثر انداز ہوتی ہے۔وہ یوں ہے کہ ہنزہ میں آباد بروشو جو مرکزی ہنزہ میں رہتے ہیں وہ بالائی ہنزہ/ گوجال کے وخیوں کو بے غیرت ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ اسی طرح ہنزہ پائین میں رہنے والے شیناکی مرکزی ہنزہ یعنی بروشو کو بے غیرت کہتے ہیں۔یہ تینوں مل کر گلگت میں ایک شناخت یعنی ہنزہ والوں کے طور پر متعارف ہوتے ہیں۔ گلگت والےہنزہ کو بے غیرت کہتے ہیں۔ پھر گلگت میں بھی نسلی درجہ بندیاں ہیں اسی لئے ان میں بھی تحقیر اور نسلی تعصب کی درجہ بندیاں ہیں۔میں گلگت کے جس محلے میں رہتا ہوں اس کو ڈومیال کہتے ہیں۔ ڈومیال کے مکینوں یعنی ڈوم کو ان کےہمساۓ کشروٹی(کشمیر ی نزاد) بے غیرت کہتے ہیں۔ اسی طرح کشیرو لوگوں کو گلگت کے دیگر لوگ بے غیرت کہتے ہیں۔ یہ سب لوگ مل کر اجتماعی طور پر باہر والوں کے لیے گلگتی بن جاتے ہیں۔ اب چلاسی ان گلگتیوں کو بے غیرت کہتے ہے۔پھر ہنزہ، گلگت اور دیامر مل کر گلگت بن کر بلتستان والوں کو بے غیرت کہتے ہیں۔ اس مثال یا بیانئے سے جو بات واضع ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خنجراب اور سیاچن سے لیکر بصری تک بے غیرتوں کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔ کون کہتا ہے کہ ہم گلگت بلتستان والے اپنے لوگوں کو قوم کی ایک تعریف میں نہیں پرو سکے ہیں۔ یہاں تو ساری قوم بے غیرت نظر آرہی ہے۔ اور ہماری ان حرکات اور نفسیات کو دیکھ کر باہر کی طاقتیں اور قومیں ہمیں بے وقوف گردانتی ہیں۔
یہ تحقیری خیالات اور جزبات ہماری نفسیات میں اس حد تک رچی ہوئی ہیں کہ اگر آپ ان کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کریں گےتو لوگ آپ کے خون کے پیاسے بن جائینگے کیونکہ انھوں نے اپنی شناخت کی ساری عمارت تحقیر اور نفرت کے بیانئے پر رکھی ہے۔ہماری شخصیت کے اندر سے نفرت و تحقیر نکال دو تو ہم میں کچھ نہیں بچتا۔ یوں ہماری تحقیری شناخت کی عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ ہم جو اپنی اقدار کو بچانے کی بچانے کا اعلان کرتے ہیں تو اصل میں اپنی ٹوٹتی ہوئی منافق اور زہر آلود ذہینت کو بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل آزادی اور ذہنی صحت تب حاصل ہوگی جب ہم ان ذہنی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس کے لیے نہ دعا نہ دوا کام آئیگی۔ اس کے لیے ہمیں ذہن کی جراحت کرنی ہوگی اور اس عنصر کو ذہن سے کاٹنا ہوگی جو معاشرے کے جسم و ذہنیت میں کینسر کا سبب بن رہا ہے۔