نظام خون آشام

خون آشام نظام

آج گلگت بلتستان میں ریاستی ادارے شہریوں کی محافظ کی بجاۓ، ان کے بنیادی سیاسی و انسانی حقوق کو سلب کرنے کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ اب یہ نظام...

249

سرمائی کھیل اور اس کے معاشی وماحولیاتی پہلو


تحریر۔ فرمان بیگ


محکمہ سیاحت کھیل اور ثقافت گلگت بلتستان کی جانب سے نیشنل ونٹر سپورٹس کا سات روزہ پروگرام کا آغاز 14 جنوری سے عطا آباد جھیل کے کنارے منعقد ہونے جارہی ہے اور دوسری جانب التت اسکارف کے زیر اہتمام سیزن پانچ قراقرم ونٹر لوڈ چمپیئن شپ دس جنوری سے آغاز ہونے جارہا ہے۔

گزشتہ چار سالوں سے التت اسکارف کے زیر اہتمام ونٹر سپورٹس فیسٹیول کاانعقاد التت کے تاریخی قلعہ کے دامن میں ہوتے  آرہے ہیں پچھلے سال قومی سطح پر ایک کامیاب ایونٹ کا انعقاد کرایاجاچکا ہے جس کی افتتاحی تقریب التت کے سکی گراونڈ میں منعقد ہوئی تھی اور بیشتر آئس سپورٹس مقابلے بالائی ہنزہ کے گاؤں غلکین گوجال کے گراونڈ پر منعقد کرائےگئےتھے۔

پاکستان میں کینیڈین ہائی کمشنر وینڈی گلمور نے گیمز کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی اور التت اسکارف اور چپورسن ہنزہ کے لڑکیوں کی ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے میچ میں ریفری کے فرائض بھی انجام دیئے تھے۔

ہنزہ میں سرمائی کھیلوں کا آغاز التت اسکارف ہنزہ کے نوجوان نے شوقیہ طور شروع کیا تھا رفتہ رفتہ اس کھیل کو سالانہ ایونٹ کا حصہ بنایا گیا ان کی دیکھادیکھی غلکین گوجال کے چند نوجوان نےمل کر اپنی پشتنی زمین پر آئس رنگ قائم کیا تاکہ سردیوں کے موسم میں بھی علاقے کے باشندوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکیں۔

ہنزہ میں سرمائی کھیلوں کا آغاز التت اسکارف ہنزہ کے نوجوان نے شوقیہ طور شروع کیا تھا رفتہ رفتہ اس کھیل کو سالانہ ایونٹ کا حصہ بنایا گیا ان کی دیکھادیکھی غلکین گوجال کے چند نوجوان نےمل کر اپنی پشتنی زمین پر آئس رنگ قائم کیا تاکہ سردیوں کے موسم میں بھی علاقے کے باشندوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکیں۔

اسی طرح گزشتہ دو سالوں سے خیبر اور چیپورسن کیل میں بھی مقامی سطح پر ٹریننگ وغیرہ کروا رہے ہیں اب اس کا دائرہ بڑھتا جارہا ہیں۔ ماضی میں اسکو محض تفریح ​​کے طور پر شروع کیاگیاتھا جو اب ایک سالانہ تہوار میں تبدیل ہونےکےعلاوہ سیاحوں کی توجہ کا  مرکز بننے کے ساتھ آرگنائزز کے لیے ایک منافع بخش کاروبار کی شکل بھی اختیار کرتاجارہا ہیں۔

گوکہ گلگت بلتستان میں پاکستان ائیر فورس گزشتہ کئی سالوں سے نلتر میں سرمائی کھیلوں  کا انعقاد کرتے آرہے ہیں البتہ ہنزہ میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر اس کا انعقاد عطاء آباد جھیل کے کنارے کیا جارہا ہے۔

 سرمائی سیاحت اور کھیلوں  کے حوالے سے تحریک انصاف کے دور حکومت کے سابقہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے چائنہ اکنامک نیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا شمالی علاقہ رقبے کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ سے دوگنا ہے جو سرمائی کھیلوں کے لیے موزوں ہیں انھوں مزید کہا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سرمائی کھیلوں کی ترقی اور فروغ کے لئے چینی تجربات سے سیکھنے کے لئے تیار ہے ۔

دوسری جانب گلگت بلتستان اپنی خوبصورت سیاحتی مقامات کی وجہ سے دنیا بھرکے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کررہی ہیں جس کی وجہ سے ٹواریزم انڈسٹری میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھی ہیں۔ یوں سرکاری سطح پر سرمایہ کاروں کے لئے مواقع پیدا کرنے کے لئے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا جارہا ہیں۔

جیسے جیسے سرمائی کھیل لوگوں میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ وہی دوسری جانب  اس کی معاشی اور اقتصادی پہلو بھی خاصی اہمیت اختیار کررہی ہے جس کے پیش نظر سرکاری اور کاروباری گروپوں اور اداروں کے اشتراک سے سرمائی کھیلوں کے انعقاد کو ممکن بنایا جا رہا ہیں۔

جیسے جیسے سرمائی کھیل لوگوں میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ وہی دوسری جانب  اس کی معاشی اور اقتصادی پہلو بھی خاصی اہمیت اختیار کررہی ہے جس کے پیش نظر سرکاری اور کاروباری گروپوں اور اداروں کے اشتراک سے سرمائی کھیلوں کے انعقاد کو ممکن بنایا جا رہا ہیں۔

 بڑے بڑے سرمایہ کاروں کی طرف سے اس کے انعقاد میں شامل ہونے سے مستقبل قریب میں مقامی سطح کے چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروباری معیشت میں اس کا  کوئی خاطر خوا مثبت کردار ادا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہیں البتہ بڑے بڑے ہوٹل مالکان ،باآثر اور طاقتور سرمایہ کاروں کے معاشی مفادات کے گرد چکر لگتا ہوا نظر آرہا ہیں جس کی چند مثالیں درجہ ذیل ہیں ۔

حکومت ان سرگرمیوں سے سیاحوں کو راغب کرنے کو ایک مواقع کے طور پر دیکھتی ہے لیکن عملا دیکھا جائے توان کھیلوں کے معاشی پہلو زیادہ نمایاں ہے جو اسپانسرشپ کی صورت میں آرگنائزز کے حصے میں آئے گا اس کے بعد سہولیات سے بھر پور بڑے بڑے ہوٹلز اس ایونٹ سے معاشی فائدے اٹھائیں گے جبکہ چھوٹے، درمیانہ اور مقامی کاروباری آٹا میں نمک کے برابر فائدہ حاصل کرپائیں گے۔

دوسری جانب مستقبل قریب میں سرمائی کھیل کے بانی آرگنائزر التت اسکارف اور دیگر مقامی کمیونٹی آرگنائزیشن کے ہاتھوں سے یہ معاشی و اقتصادی وسائل نکل کر ملٹی نشنلز کمپنیوں، بڑے بڑے سرمایہ کار گروپوں اور اداروں کے ہاتھوں میں جانے کے خدشات موجود ہیں۔

بڑے پیمانے پر اس طرح کے ایونٹ کےانعقاد سے بے ہنگم ٹرانسپورٹ اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت سے علاقہ میں کوڑ اکرکٹ پھیلنے اوررہائشی ہوٹل کمروں کو گرم رکھنے کے لیے کوئلہ کے جلانے سے ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے کا سبب بننے گا۔

لیکسس، سرینہ اور پی سی جیسے بڑے بڑے ہوٹل مالکان کے پاس وسائل ہونے کی وجہ سے تمام کاروباری فوائد ان بڑے بڑے ہوٹلوں کے پاس چلا جائے گا۔

سرمایہ کار ادارے سیاحت کے فروغ کے بہانے حکومتی سرپرستی میں زمین اونے پونے داموں خرید کر مقامی وسائل، دریا، چراگاہوں وغیرہ پر قابض ہوجائیں گے۔

بڑے پیمانے پر اس طرح کے ایونٹ کےانعقاد سے بے ہنگم ٹرانسپورٹ اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت سے علاقہ میں کوڑ اکرکٹ پھیلنے اوررہائشی ہوٹل کمروں کو گرم رکھنے کے لیے کوئلہ کے جلانے سے ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے کا سبب بننے گا۔

انسانی سرگرمیوں سے پیدا گند اور کوڑا کرکٹ کو صاف کرنے کے بہانے سیاحتی مقامات کو سرکاری تحویل میں لے کر سیاحتی ترقی کے نام پر باآثر سرمایہ کاروں اور اداروں کے لئے پرائیوٹائز کرنے کے خدشات اپنی جگہ باقی رہیں گے۔

ماضی کے تجربات اور حکمران اشرافیہ کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہے سکتے ہیں کہ مستقبل میں بے ہنگم سیاحتی سرگرمیوں کی وجہ سے خطے کے لوگ نہ صرف وسائل یعنی زمین، دریا اور چراگاہوں سے محروم ہوں گے بلکہ ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں