410

عالمی یوم ماحولیات

تحریر: فرمان بیگ

آج دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ماحولیاتی تحفظ کا عالمی دن منایا جارہاہے۔ گلگت بلتستان میں بھی گزشتہ پچیس تیس سالوں سے تسلسل سے اس دن کو منایا جارہا ہے۔ یوم ماحولیات1974 سے دنیا بھر میں منایا جانے لگا۔ اس کا تصور 5جون1972 کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دیا گیا تھا ۔اس اجتماع میں دنیا بھر سے 100 سے زائد ممالک کے حکومتوں کے نمائندوں اور غیر سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ اس کا عنوان صرف ایک کراہ ارض (Only One Earth )رکھا گیا اور لوگوں کے رویوں میں تبدیلی کی حوصلہ افرائی اور ماحولیات کے بارے میں عالمی سطح پر شعور وآگہی اجاگر کرنے کے لیے اسے ایک اہم دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کا یہ تصور بڑی طاقت کے ساتھ دنیا کے سامنے لایا گیا ۔

فوٹو بشکریہ: یو این ای پی

گو کہ پاکستان نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے بہت سارے اقدامات اٹھائے ہوئے ہیں خصوصاً گلگت بلتستان کے فطری ماحول کو لاحق خطرات کو کم سے کم کرنے کی عرض سے ایسے علاقوں کو تحفظ اور بقاء کے لیے محفوظ قرار دیا ہے۔ ان میں گیم ریزرو کمیونٹی کنزرویشن ایریاز اورنیشنل پارکس کی صورت میں موجود ہے مگر وہ کیا وجوہات ہیں کہ جس کی وجہ سے ماحول بہتری کی بجائے زوال کی سمت جارہا ہے ۔جرمن واچ نامی عالمی تھنک ٹینک کے رپورٹ گلوبل کلائیمٹ انڈکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔

ماحولیات سے وابستہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ہمارے کراہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا ویسے ویسے زمین پر زندگی کم ہوتی جائے گی۔ دنیا کی اقوام ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے اقدامات مثلا زہریلی گیسوں کو کم سے کم کرنے، معدنیات کی کان کنی پر پابندی جیسے اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہیں لیکن ہمارے ملک میں قانوں کے عدم تسلسل، انسانی حرص و طمع اور ترقی کی دوڈ فطری ماحول کی تباہی کا مرتکب ہورہی ہے ۔

پاکستان میں گزشتہ دس پندرہ سالوں میں جس بدترین طوفانوں، بارشوں اور سیلابوں کے واقعات پیش آرہے ہیں اور دوسری جانب جب ہم گلگت بلتستان کو دیکھتے ہیں، تو گزشتہ چند سالوں سے بے موسم بارشوں، تیز آندھیوں، سردی اور گرمی میں نمایاں تبدیلی دیکھی جارہی ہے جس کی وجہ سے زراعت اور زرعی اجناس کی پیداوار متاثر ہورہی ہے مگر سرکاری سطح پر کوئی خاطر خوا ہ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔ جب کہ مقامی آبادی حکومت اور غیر سرکاری ماحولیاتی اداروں کی مدد کے تحت جنگلات، جنگلی حیات اور ماحولیات کو بچانے کے لیے گزشتہ پینتیس سالوں سے سرگرم عمل ہے جس کے نتیجے میں جنگلی حیات کا تحفظ اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق پائیدار بنیادوں پر حیاتیاتی تنوع کی بقاء پر عمل جاری ہے۔

ایک طرف قدرتی ماحول اور حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے نیشنل پارکس اور کیمونٹی کنزرویشن ایریاز کے قیام کے لیے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اسی اثنا میں ان کیمونٹی کنزرویشن ایریاز میں سرکاری سرپرستی میں معدنیات کی کان کنی کے لیے سرمایہ کاری پر زور دیا جارہا ہے۔ واضح قوانین نہ ہونے اور بااثر سرمایہ داروں کی حرص وطمع کی وجہ سے کیمونٹی کنزرویشن ایریاز جنہوں نے گزشتہ پینتیس سالوں سے فطری ماحول کو بچانے کے لیے جو اقدامات اٹھائے ہیں معدنیات کی کان کنی کی وجہ سے ضائع ہونے کا سو فیصد خدشہ ہے۔ معدنی وسائل کی کان کنی کی وجہ سے نہ صرف جاری تحفظ جنگلی حیات بلکہ اس کے اثرات سے پانی کی آلودگی میں اضافہ ،دریائی اور زمینی کٹاؤ اور گرد وغبار سے علاقے میں بسنے والے افراد کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے بلکہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگر بروقت قدرتی ماحول کو بچانے کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو ماحولیاتی تبدیلیاں گلگت بلتستان کے لیے کتنی تباہ کن ہوسکتی ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں