عورتوں کے حقوق اور سوشلزم 385

حقوق النسا، فیمینزم کے تناظر میں

صفیہ حیات


یہ ایک حقیقت ھے کہ سوشلسٹ طرز فکر نے عورت کو مساوی حقوق اور سماج میں جائز مقام دلانے کے لیے ایک طویل جدو جہد کی۔ کیمونسٹ انٹرنیشنل نے یہ مطالبہ کیا کہ
قانون کے سامنے اور عملی زندگی میں عورت و مرد کی سماجی برابری، ازدواجی حقوق اور خاندانی ضابطے میں انقلابی تبدیلیاں ، حمل کو باطور سماجی وظیفہ تسلیم کرنا ، بچوں ، نوجوانوں کی پرورش اور تعلیم میں معاشرتی زمہ داری ، عورت کو غلام بنانے والی آئیڈیالوجی اور روایات کے خلاف تمدنی جد وجہد کی تنظیم سازی ، یہ مطالبات عورت کے وقار کو بلند کرنے کی طرف بنیادی قدم تھے ۔
یہاں میری وول اسٹون کرافت کا ذکر کئے بغیر چارہ نہیں جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ حقوق نسواں کے لئے قلم سنبھالا اور اس بارے میں پہلی کتاب 1787ء میں لکھی ۔ 1790ء میں اس کی مشہور کتاب "اے وینڈیکیشن آف دی رائٹس آف ویمن” سامنے آئی جو آج تحریک حقوقِ نسواں کی طرف پہلا قدم سمجھی جاتی ہے ۔ اس کتاب میں میری نے صرف عورتوں کے مساوی حقوق اور ان کی آزادی کی ہی بات نہیں کی بلکہ اس نے عورتوں پر کڑی تنقید بھی کی کہ اپنی پستی کی بڑی حد تک زمہ دار وہ خود بھی ہیں کیونکہ وہ خود کو مردوں کی نسبت کم تر سمجھتی ہیں ، بناؤ سنگھار اور معمولی مسائل پر اپنابیش قیمت وقت صرف کرتی ہیں ، نمود و نمائش کی شوقین اور توہم پرست ہوتی ہیں ، ستاروں کی چال ، زائچوں اور ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھتی ہیں اور ہر وقت اس غم میں غلطاں رہتی ہیں کہ اپنے شوہر یا محبوب کو کس طرح خوش رکھا جائے ۔ میری وول اسٹون کرافت نے عورتوں کو ان کے جن مسائل اور مصائب کا زمہ دار ٹھہرایا تھا ، وہ مغربی اور مشرقی سماج میں دو سو برس سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ راسخ ھو چکے ہیں اور آج بھی تحریک حقوقِ نسواں کی متعدد سرگرم خواتین ، عورتوں کو ان ہی کمزوریوں اور خرابیوں پر لعن طعن کرتی ہیں ۔ جن پر میری وول اسٹون کرافت نے انھیں مطعون کیا تھا ۔
عورت اور مرد کے درمیان اس نا برابری کا ایک دلچسپ پہلو یہ ھے کہ 1843ء میں فلورا ٹریسٹان جب ایک پمفلٹ ‘ ورکرز یونین ‘ لکھا جس میں سوشلزم کی اور عورتوں کے لئے سیاست ، تعلیم اور کام میں مساوی حقوق کی بات کی گئی تھی تو بقول اس کے بورژوازی کی طرف سے اس کے ان سوشلسٹ نظریات کی سخت مخالفت ہوئی اور محنت کشوں نے عورتوں کی مساوات کی بات کو یکسر رد کر دیا ۔
انقلاب فرانس کے بعد فرانس میں عورتوں کی تنظیمیں جس طرح کچلی گئیں ، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والی عورتیں جس طرح جلا وطن ہونے پر مجبور ہوئیں ، یہ تمام باتیں تاریخ کا حصہ ہیں ، اس کے باوجود 1851ء کے پیرس کمیون میں فرانسیسی عورتوں نے ، مردوں کے شانہ بشانہ جان دی ۔
فرانسیسی عورت کو 1870ء میں یونیورسٹیوں میں داخلے کی اجازت ملی ۔ 1875ء میں اسے طب اور 1900ء میں وکالت کو بہ طور پیشہ اختیار کرنے کا حق ملا ۔ 1970ء میں وہ لیبر ورک فورس کا 33فیصد تھی ۔ 1965ء تک کوئ فرانسیسی عورت ذاتی بینک اکاؤنٹ رکھنے کی مجاز نہ تھی ۔ 1969ء میں اسے یہ اجازت ملی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اپنی رائے دے سکے تاہم اگر اس مسئلے پر اس کا شوہر اس سے مختلف رائے رکھتا ھو تو شوہر کی رائے بالا تصور کی گئی ۔
یہ بات بھی شاید بیشتر لوگوں کو ناقابل یقین محسوس ھو کہ 1970ء میں جب فرانس کی سوشلسٹ اور مارکسٹ عورتوں کے ایک گروپ نے یونیورسٹی کے باہر حکومت کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا تو اس مظاہرے کے خلاف سب سے شدید رویہ ‘ریڈیکل ‘ مردوں کا تھا جو خود بھی فرانسیسی حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے ۔ یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ھے کہ فرانسیسی عورت کے حقوق کی لڑائی کی سب سے زیادہ مخالفت کیتھولک چرچ کی طرف کی جاتی ہے اور اس کی سب سے بڑی حمایتی اور معاون فرانس کی کمیونسٹ پارٹی رہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں