مزدور 216

محنت کشوں کی ماہانہ اجرت 20 ہزار روپے کرنے کا فیصلہ فائلوں کی نذر، محنت کشوں کا استحصال جاری

رپورٹ: ارشد حسین جگنو


ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان کے صوبائی بجٹ میں محنت کشوں کی ماہانہ اجرت 20 ہزار روپے مقرر کرنے کی منظورہ دی گئی تھی، منظوری کے باوجود ابھی تک محنت کشوں کی ماہانہ اجرتوں میں اضافہ نہ ہو سکا۔ مالی تنگدستی کی وجہ سے محنت کشوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے اور نوبت فاقہ کشی تک آ پہنچی، ممبران اسمبلی نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیلئے بل تک منظور کرا دیا مگر محنت کشوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

صوبائی بجٹ میں نجی اداروں میں محنت کشوں کی ماہانہ اجرت 20 ہزار روپے کرنے سے متعلق حکومت کے فیصلے پر کوئی عملدرآمد نہ ہو سکا۔ نجی اداروں میں کام کرنے والے محنت کش اجرتوں میں اضافے سے محروم، تاریخی مہنگائی میں لاکھوں محنت کش فاقہ کشی پر مجبور، نجی اداروں میں لیبر قوانین کی خلاف ورزی اور محنت کشوں کا بدترین استحصال جاری۔ ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان کے صوبائی بجٹ میں نجی اداروں میں محنت کشوں کی ماہانہ اجرت 20 ہزار روپے مقرر کرنے کی منظورہ دی گئی۔ منظورہ کے باوجود ابھی تک محنت کشوں کی ماہانہ اجرتوں میں اضافہ نہ ہو سکا۔

گزشتہ دنوں ممبران اسمبلی نے ایوان سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں دس فیصد اضافے کیلئے بل منظور کرا دیا لیکن حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے باوجود محنت کشوں کی ماہانہ اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ قلیل اجرتوں پر موجودہ آسمان کو چھوتی مہنگائی میں لاکھوں محنت کشوں کا گزر بسر کرنا مشکل ہوگیا ۔ مالی تنگدستی کی وجہ سے محنت کشوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے اور نوبت فاقہ کشی تک آ پہنچی ہے۔ دوسری طرف صوبائی حکومت اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کی توجہ مبذول کرانے کے باوجود نجی اداروں میں لیبر قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ نجی اداروں میں ایک طرف قلیل اجرتیں دوسری طرف وقت پر اجرتوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے محنت کشوں کا بری طرح استحصال ہو رہا ہے۔ موجودہ قلیل اجرتوں پر مہنگائی کی اس لہر میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ محنت کشوں کا حکومت سے مطالبہ ہے صوبائی بجٹ میں محنت کشوں کی ماہانہ اجرتوں میں اضافے کی منظور پر فوری عمل درآمد کرایا جائے۔ یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں محنت کشوں کے حقوق سے متعلق ملک میں مروجہ 14 قوانین کو گلگت بلتستان باقاعدہ توسیع دی جا چکی ہے جبکہ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2012 کی بھی گلگت بلتستان توسیع دی جا چکی ہے۔ اور ریاست پاکستان باقاعدہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر بھی لیکن اس کے باوجود آئی ایل او کے چارٹر پر گلگت بلتستان میں کوئی عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں