92

فوجی قیادت کا سوشل میڈیا پر جاری ’پروپیگنڈہ مہم‘ کا نوٹس، مختلف شہروں سے متعدد افراد گرفتار

بشکریہ بی بی سی اردو


پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں ہونے والے فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں بعض حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر پاکستانی ’فوج کو بدنام کرنے کے لیے چلائی جانے والی پروپیگنڈہ مہم‘ کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کی مہم ’ادارے اور سوسائٹی کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے‘۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی افواج ہمیشہ ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اور وہ کسی سمجھوتے کے بغیر اپنے دفاع کے لیے ایسا کرتی رہیں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف نے افسران سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستانی فوج اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرونی اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فورم نے فوجی کی قیادت اور اس کی ہر قیمت پر آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

فوج پر عدلیہ کے خلاف مہم: ایف آئی اے نے گرفتاریاں شروع کر دیں

وفاقی تحققیاتی ادارے ایف آئی اے نے منگل کو آرمی چیف اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے الزام میں متعدد افراد کو حراست میں لیا ہے اور ان کے خلاف تحققیات کا اغاز کر دیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق آرمی چیف کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنانے کے الزام میں لاہور کے علاقے سبزہ زار سے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ اسی سلسلے میں ایک شخص کو ملتان سے گرفتار کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق لاہور سے گرفتار کیے گئے ملزم کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گجرات، پشاور اور کراچی سے بھی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق سائبر کرائم وِنگ نے سوشل میڈیا پر دو ہزار سے زائد اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے، جہاں سے پاکستانی فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف مم چلائی جا رہی تھی۔

ایف آئی اے کے حکام کے مطابق سوشل میڈیا پر یہ اکاؤنٹس گذشتہ چھ ماہ کے دوران بنائے گئے ہیں اور حساس اداروں کے خلاف مہم کے 50 ہزار پیجز کو شارٹ لسٹ کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے حکام کے مطابق حساس اداروں نے اس ضِمن میں ایف آئی اے کو ان اکاؤنٹس کی تفصیلات اور جن علاقوں سے ان اکاؤنٹس کو آپریٹ کیا جارہا ہے، اس بارے میں آگاہ کیا تھا۔

حکام کے مطابق ان معلومات کی روشنی میں کارروائی کرتے ہوئے دس افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر مہم چلائی جارہی تھی اور سوشل میڈیا پر چلنے والی اس مہم میں تیزی چند روز قبل عدالتی فیصلے کے بعد آئی جس میں سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف کا عہدہ سنبھالتے ہی کارروائی کا حکم

وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق شہباز شریف نے اتوار کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس کا نوٹس لیتے ہوئے متعقلہ حکام کو اس بارے میں واضح ہدایات جاری کی تھیں کہ ایسے افراد کے خلاف فوری طور پر کریک ڈاؤن شروع کیا جائے، جو ملک کے حساس اداروں اور ان کے سربراہوں کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں۔

ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ان معاملات پر غور کیا گیا اور حساس اداروں کی طرف سے ایسے اکاؤنٹس کی تفصیلات ملنے کے بعد ان پر تادیبی کارروائی کو تیز کردیا گیا۔

اہلکار کے مطابق اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور کے ڈائریکٹرز اور سائبر کرائم وِنگ کو اس بارے میں ٹاسک دیا گیا کہ وہ اس بارے میں فوری کارروائی کرتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کر کے قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔

ایف آئی اے سائبر کرائم وِنگ کے ایک اہلکار کے مطابق اس ضمن میں ابھی تک دس افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ان کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ حراست میں لیے جانے والے افراد نے سوشل میڈیا پر سینکٹروں مختلف ناموں سے اکاؤنٹس بنائے ہوئے تھے، جہاں سے ملک کے حساس اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی۔

حکام کے مطابق حساس اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم میں تیزی اس وقت آئی جب گذشتہ ماہ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی۔

سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق حساس اداروں کے خلاف مہم چلانے میں ان کی جماعت کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اس وقت کی حکومت نے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ ان کے دور میں ایف آئی اے کے سربراہ کو یہ ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔

سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ان کی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ ارسلان خالد کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور حکام ان کے گھر سے کمپیوٹر اور دیگر سامان اٹھا کر لے گئے۔

تاہم ایف آئی اے حکام کی طرف سے ایسی کسی کارروائی کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق حساس اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے کچھ ایسے اکاؤنٹس کا بھی پتہ چلایا گیا ہے جو کہ بیرون ممالک سے آپریٹ کیے جا رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں