232

پالیسی سازی اور ہماری اسمبلی


عنایت ابدالی


کیا گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب ممبران سے پالیسیاں مرتب کرنے کا اختیار چھین لیا گیا؟؟؟

عالمی مالیاتی ادارے پالیساں بنائیں گے اور ہمارے منتخب نمائندے ان پر صرف دستخط کریں گے۔
‏وزیر امور نوجوانان کے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان یوتھ پالیسی عالمی مالیاتی ادارے کیوں بنا رہے ہیں؟؟
قانون سازی بھی عالمی مالیاتی ادارے این جی آوز کی سفارشات سے کر رہے ہیں تو یہ وزرا کیا کر رہے ہیں؟؟

‏اگر سب کچھ عالمی مالیاتی ادارے اور این جی آوز نے کرنا ہے تو وزرا، مشیران اور کوآرڈینیٹرز کے نام پر قومی خزانے کو کیوں چونا لگا رہے ہیں۔اس ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے حوالہ کرنا باقی رہ گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان کی حکومت نے قانون سازی بھی عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر کرنے میں مصروف ہیں۔

روندو سے منتخب راجہ ناصر علی خان کیا اس قابل نہیں ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کےلیے پالیسی مرتب کریں؟ اگر وہ اس قابل نہیں ہے تو حکومت کو چاہیے کہ فوراً ڈپٹی سپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ،اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈووکیٹ کو نوجوانوں کےلیے پالیسی مرتب کرنے کو کہے دونوں قابل اور قانون سازی سے واقف ہیں۔

اگر گلگت بلتستان حکومت نوجوانوں کے لیے پالیسی مرتب کرنے اور اس کو قانون کا درجہ دینے کےلیے نذیر احمد ایڈووکیٹ اور امجد حسین ایڈووکیٹ کو ذمہ داری دیتے ہیں تو ہم اس پالیسی کا خیر مقدم کریں گے اور اپنے سفارشات ان تک پہنچائیں گے۔ اگر حکومت اس کے باوجود بھی عالمی مالیاتی ادارے سے ہی اس پالیسی کو مرتب کرنے میں بضد ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ پالیسیاں مرتب کرنے کا کام بھی اسلام آباد سرکار نے ان سے چھین لیا ہے۔ اس اسمبلی کا کام صرف بےروزگار سفارشی افراد کو کنٹیجنٹ، پروجیکٹ اور کنٹریکٹ کے نام پر مستقل کرنا رہ گیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ یہ کام بھی عالمی مالیاتی اداروں اور این جی آوز کے حوالے نہ کیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں