220

بھیگور


تحریر: گمنام کوہستانی


بھیگور ایک جنگلی مرغی ہے۔ گاؤری، توروالی اور کلکوٹی سمیت زیادہ تر داردی زبانوں میں اسے بھیگور کہا جاتا ہے۔ داردی زبانوں کے علاؤہ اُردو میں بھی شاید اسے بھیگور کہا جاتا ہہے  البتہ پشتو میں بیگر کہلاتا ہے۔

بزرگوں کے بقول ماضی قریب تک بھیگور ہمارے ہاں سب سے زیادہ پائے جاتے تھے۔ اس وقت شکار چونکہ تیر کمانوں اور نیزوں وغیرہ سے کئے جاتے تھے تو شکار کرنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں تھی۔ بزرگوں کے بقول اس وقت پنجکوڑہ اگرچہ لوہے کے پیدوار کے لئے مشہور تھا جو دریائے پنجکوڑہ کے ریت سے حاصل کیا جاتا تھا اور پھر یہی سے آس پاس کے علاقوں میں بھیجا جاتا تھا لیکن اس کے باجود تیر کمان اور نیزے وغیرہ کاسندور نام کے جنگلی درخت کے لکڑی سے بنائے جاتے تھے۔ کاسندور ایک خاص قسم کا جنگلی درخت ہے جو ابھی بہت ہی کم رہ گئے  ہیں زیادہ تر کاٹے گئے ہیں( ہمارے ایک کھیت میں آج بھی ایک تناور درخت کھڑا ہے)۔

کاسندور کی لکڑی ہلکی لیکن انتہائی سخت ہوتی ہے بزرگوں کے بقول اس وقت کے لوگ اس کی لکڑی سے تیر اور نیزے بناکر پھر ان کے آنی ( تیز دھار والا سر ) آگ میں پکاتے یہاں تک کہ وہ سخت ہو کر لوہے جیسے سخت ہوجاتے۔ لوہے کے بجائے کاسندور کے تیر اور نیزے استعمال کرنے کی وجہ شائد یہ تھی کہ کاسندور لوہے کے مقابلے میں انتہائی ہلکے ہوتے ہیں اور دور تک آسانی سے پھینکے جا سکتے ہیں۔

بھیگور کا شمار بھی ان جنگلی پرندوں میں ہوتا ہے جو اب بھی داردستان ( بالائی سوات و دیر اور چترال سمیت شمالی پاکستان بشمول شمال مشرقی افغانستان) کے جنگلوں میں پائے جاتے ہیں۔ بندوق کے آنے سے پہلے یہ پرندے ہمارے ہاں بکثرت پائے جاتے تھے۔ بعد میں جب بندوق آئی تو ان کی تعداد میں نمایا ں کمی ہوئی لیکن پھر بھی تھوڑے بہت ہی سہی لیکن آج بھی جنگلوں سے ان کے چہچہانے کی آوازیں آتی ہیں۔

بزرگوں کے بقول اس وقت جنگلی جانوروں جیسا کہ کیل شرہ اور رونز ( آئی بیکس، مارخور اور مشک ڈیئر وغیرہ) کا شکار آسان تھا کیونکہ یہ جانور جنگلی پرندوں کے برعکس بڑے جسامت کے ہوتے تھے اور زمین پر چلتے پھرتے تھے تو شکار آسان تھا۔

پرندے زیادہ تر درختوں کے اوپر ہوتے یا شکاری دیکھ کر اڑ جاتے اور چھوٹے بھی ہوتے  تھے جس کی وجہ سے بہت کم شکار ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آج اگرچہ کیل، مارخور اور مشک ڈیئر وغیرہ جیسے نایاب اور قیمتی جانور صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں البتہ جنگلی پرندے وغیرہ آج بھی تھوڑے بہت پائے جاتے ہیں۔

بھیگور کا شمار بھی ان جنگلی پرندوں میں ہوتا ہے جو اب بھی داردستان ( بالائی سوات و دیر اور چترال سمیت شمالی پاکستان بشمول شمال مشرقی افغانستان) کے جنگلوں میں پائے جاتے ہیں۔ بندوق کے آنے سے پہلے یہ پرندے ہمارے ہاں بکثرت پائے جاتے تھے۔ بعد میں جب بندوق آئی تو ان کی تعداد میں نمایا ں کمی ہوئی لیکن پھر بھی تھوڑے بہت ہی سہی لیکن آج بھی جنگلوں سے ان کے چہچہانے کی آوازیں آتی ہیں۔ سردیوں میں جب زیادہ برف پڑتی ہے تو بالائی جنگلوں میں خوراک کی کمی کے وجہ سے یہ زیریں علاقوں بلکہ بعض اوقات آبادیوں کا بھی رخ کرتے ہیں۔ برفباری کے بعد جب موسم صاف ہو جائے اور برف پر دھوپ پڑے تو ان کی آنکھیں جل جاتی ہے جس کے وجہ سے یہ وقتی طور پر اندھے ہو جاتے ہیں۔

دوسرے جنگلی پرندوں کی طرح بھیگور بھی انڈے درختوں کے بجائے گھنے جھاڑیوں میں دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے پرندوں کی طرح انہیں بھی اتنا نقصان شکاریوں نے نہیں پہنچایا جتنا گیدڑوں نے پہنچایا۔ گیدڑ جھاڑیوں میں گھومتے پھرتے ان کے انڈے کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نسل نہیں بڑھتی بلکہ ہر سال کم ہوتی رہتی ہے

ہر سال ایک دو نہیں درجنوں بھیگور اندھے ہو کر آبادیوں کا رخ کرتے ہیں جہاں بچے بوڑھے جوان سب انہیں ہاتھوں سے بآسانی پکڑلیتے ہیں۔ یہ عام جنگلی مرغی ہے جو ہوا میں اڑنے کے ساتھ ساتھ زمین پر بھی چل سکتی ہیں۔ شکاری ان کا شکار صبح سویرے اس وقت کرتے ہیں جب یہ فالتو مرغیوں کی طرح صبح سویرے آوزیں نکالتے ہیں۔  ان کا شکار عموماً موسم خزاں اور سرما میں کیا جاتا ہیں کیونکہ اس موسم میں بچے انڈوں سے نکل کر بڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ شکاری کتے اور مخصوص سہرہ ( کپڑے کا وہ مخصوص ٹوپی جس پر مختلف اقسام کی رنگین لکیریں ہوتی ہے جسے شکاری شکار کے دوران پہن کر اپنا سر اور چہرہ چھپا لیتے ہیں) پہن کر ان کے سامنے آتے ہیں۔ یہ بدقسمت پرندہ سہرہ یا کتے کے تماشے میں محو ہو جاتے ہیں اور شکاری انہیں آسانی سے شکار کر لیتے ہیں۔

دوسرے جنگلی پرندوں کی طرح بھیگور بھی انڈے درختوں کے بجائے گھنے جھاڑیوں میں دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے پرندوں کی طرح انہیں بھی اتنا نقصان شکاریوں نے نہیں پہنچایا جتنا گیدڑوں نے پہنچایا۔ گیدڑ جھاڑیوں میں گھومتے پھرتے ان کے انڈے کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نسل نہیں بڑھتی بلکہ ہر سال کم ہوتی رہتی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ مقامی لوگ گیدڑوں کا شکار کرکے ان کی کھال فروخت کرتے تھے۔ بعد میں گیدڑوں کی کھال خریدنے پر سخت جرمانے ہونے لگے یوں لوگوں نے گیدڑوں کا شکار چھوڑ دیا یوں ان کی تعداد بڑھ گئی اور انہوں نے جنگلی مرغیوں کا صفایا کیا۔اگر یہ گیدڑ وغیرہ جنگلوں سے کم ہوگئے تو یقین کیجئے چار پانچ سالوں میں مرغ زریں سمیت بھیگور اور دوسرے نایاب جنگلی پرندوں کی تعداد کافی بڑھ سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں