Climate Change 380

زمین کا نوحہ

تحریر: احسان شہابی


یہ پشاور شہر ہے، کچھ لوگ اسے  پھولوں کا شہر کہتے ہیں مگر پھول اب  یہاں ناپید ہیں. آج کل تو یہ بھٹی کی طرح دہک رہا ہے. سورج دیوتا آگ برسا رہا ہے.  شہرزادے کنکریٹ کے جنگلوں میں پناہ کی تلاش میں سر گردان ہیں. عمارتوں، دکانوں، برآمدوں، ڈیوڑھیوں  کے در و دیوار  انگارے بنے ہیں. ٹھنڈ کی راحت پہنچانے والی ہر شے شکست کھا چکی ہے… پنکھوں سے نکلنے والی ہوا بادِ سموم بن گئی  ہے، نلکوں سے کھَولتا ہوا پانی برآمد ہو رہا ہے۔. 

آرا مشین کا استرا لے کر زمین کو گنجا کرنے والی مخلوق کو سائبان کی تلاش ہے. برگد کے سائے  تلے چارپائی  پر بیٹھے  گھڑے میں سے مٹی کا برتن بھر کر پینے والے سفید ریش کِشتِ پختہ کی گرم گرم دیواروں کے آس پاس  سائے  ڈھونڈ رہے ہیں. دھواں چھوڑتی گاڑیوں کا ہجوم لشکرِ غنیم کی طرح شہر پر چڑھ دوڑ رہا ہے. انسان مشینوں کو  کام پر لگا کر بھول چکا ہے. جنگلات و باغات اور سبزہ گل کی جگہ پلازے اُگ رہے ہیں. مضافات تیزی سے شہر میں ڈھل رہے ہیں. نالے ایسے سوکھے ہیں کہ پنچھی کی چونچ ہری نہیں ہوتی۔.

شہر سے باہر لمبی گردنوں والی کرینیں پہاڑیوں کو کھود رہی ہیں، کریش مشینیں پتھروں کو بجری میں بدل کر بڑی بڑی گاڑیوں میں لوڈ کرکے شہر کے جانب روانہ کر رہی ہیں. چاروں طرف گرد و غبار ہے. کہیں کہیں اداس  پیڑوں کی لرزتی شاخیں، مرجھائی ٹہنیاں، ٹہنیوں پر کُملائے پرندے….. جو چہکنا بھول چکے ہیں…. ماضی کی  باقیات کے طور پر ملتے ہیں….. مالک اس سیارے پر یہ نوبت کیسے آئی……

یہ شہر کا سب سے بڑا ہسپتال ہے….. جسے پہچاننے کے لیے کسی سائن بورڈ کی ضرورت نہیں….. ایک بہت بڑی عمارت کے آس پاس ہسپتالی گند جیسے  استعمال شدہ سرنج، ڈرپ، بوتل، ڈبے، خون آلو روئی، جیسی چیزوں کے انبار  ہی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہسپتال ہے. بیماروں، تیمارداروں اور عملے کے لوگوں کا انبوہ ہر وقت موجود رہتا ہے.  ہسپتال کے احاطے میں دہکتی دھوب میں مریض ادھر، ادھر پڑے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹروں سے مل کر باہر آنے والے مریضوں کو دوائی اور لیبارٹری مافیا ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں. ڈاکٹر ایک مرض کے لیے درجنوں ادویات لکھتا ہے.  یہ زچہ و بچہ کا وارڈ ہے. یعنی انسانی پیداوار کا کارخانہ. یہاں کا منظر بھی قیامت خیز ہے. سراپا برقعوں میں لپٹی، پسینے میں شرابور، درد زہ سے کراہتی ٹیڑھی پسلیاں خود چل کر، کسی کے سہارے یا سٹریچر  پر  اندر لے جائے جا رہے ہیں..

انسان سے انسان کا وجود جنم لیتا ہے

نوزائدہ بچوں کی گلکاریاں اور رونے کی آوازوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ہیں. کچھ زچے بچے جنتے جنتے خود اگلے جہاں سِدھار جاتی ہیں….. زیادہ تر خواتین ادھیڑ عمر کی ہیں. لگتا ہے کہ چھٹا، ساتواں یا آٹھواں بچہ جننے آئی ہیں. گویا پوری پلٹن کے والدین  بننے کے بعد انہیں دنیا کے گرم سرد تھپیڑوں کے حوالے  کرکے خود جلدی جلدی  مرنے کی تیاری کرنے لگیں گے. درخت لگانے کی سرکاری مہم کو ہم سب نے تضحیک کا نشانہ بنایا. شجرکاری اب اہم نہیں  بلکہ کرہ ارض کو بچانے کی آخری کاوش ہوگی. یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم بڑھتے درجہ حرارت کو لگام دے سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں