sparco and isro 162

پاکستان اور انڈیا کے سپیس پروگرام: تقابلی جائزہ

توصیف حیدر


پاکستان کی اسپیس ایجنسی سپارکو 1961 میں بنی جسکے بانی فزکس کے ںوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔ سپارکو کا ہیڈکوارٹر کراچی میں تھا۔
اسکے مقابلے میں بھارت کی سپیس ایجنسی آئی ایس آر او بہت بعد میں یعنی 1969 میں تشکیل پائی جسکا ہیڈکوارٹر بینگلور تھا۔

سپارکو نے اپنی بنیاد کے ایک سال بعد ہی یعنی 1962 میں ناسا کی مدد سے رہبر۔1 نامی راکٹ لانچ کا خلا میں کامیاب تجربہ کیا جس سے سپارکو جنوبی ایشیا کی سالڈ فیول راکٹ لانچ کرنے والی پہلی اور دنیا کی دسویں سپیس ایجنسی بن گئی۔ اسی کی دہائی میں سپارکو نے چائنہ کی مدد سے پاکستان کے دفاعی میزائل نظام حتف اور شاہین کا آغاز کیا اور سویلین مقاصد کے لئے تحقیق کم و بیش نام کی رہ گئی۔
سپارکو کے چند قابلِ ذکر سٹلائٹ جو چائنہ کی مدد سے خلا میں بھیجے گئے جن میں بدر 1, بدر بی، پاک سیٹ 1 اور پھر 2018 میں

PRSS-1

اور

ہیں۔ PakTES-1

یہ تمام سیٹلائٹس موسمیاتی یا کمیونکیشن سٹلائیٹس تھے۔ سپارکو کا موجودہ بجٹ 45 ملین امریکی ڈالر ہے۔ یہ صاف لگتا ہے کہ پاکستان کا سپیس پروگرام 80 کی دہائی کے بعد سے زوال کا شکار ہے اور ہمارے ہاں سپیس پروگرام کو زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ ہماری ترجیحات مہذب دنیا کے لئے مذاق ہیں۔

اب نظر دوڑاتے ہیں بھارت کے آئی ایس آر او پر۔ اسکا موجودہ بجٹ 1.8 بلین ڈالر ہے۔ یعنی سپارکو سے قریب 40 گنا زیادہ۔
بھارت نے اپنا پہلا سیٹلائٹ 1975 میں سویت یونین کی مدد سے خلا میں بھیجا۔ اسکے بعد پہلا کمیونیکیشن سٹلائٹ 1982 میں۔ اب تک آئی ایس ار او ایک سو سے زائد خلائی مشنز پر کام کر چکا ہے۔ 79 کے قریب راکٹ لانچ اور چاند اور مریخ تک اپنے سپیس کرافٹ اور لینڈر بھیج چکا یے۔ آئی ایس آر او کا سپیس لانچ کا نظام باقی ممالک کے راکٹ لانچ نظام سے کہیں سستا ہے۔
چند اہم مشنز میں چندریان جو چاند پر بھیجا جانے والا پہلا بھارتی مشن تھا اور

Mars Orbitar Mission

شامل ہیں جو 2014 سے مریخ کے مدار میں گھوم رہا ہے۔
مستقبل قریب میں آئی ایس آر او اس تگ و دو میں ہے کہ چاند اور مریخ پر اپنے رؤرز اور لینڈرز بھیجے اسکے علاوہ مختلف انسانی مشنز پر بھی کام جاری ہے۔

افسوس کہ ہم اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسپیس پروگرام میں کہیں پیچھے رہ گئے ہیں حالانکہ دوڑ ہم نے پہلے لگائی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں