کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے

تحریر: کریم اللہ کھوار زبان چترال کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور سوات کے علاقہ کلام میں بولی جاتی ہے۔ چترال کی سب سے بڑی زبان ہونے کے...

308

دو ماہ سے زائد عرصہ بعد مغوی 12 سالہ فلک نور عدالت میں پیش


رپورٹ: نور نعید

 دو ماہ سے زائد عرصہ پہلے اغواء ہونے والی 12 سالہ لڑکی فلک نور کے مبینہ اغواء کاروں کو گلگت پولیس  عدالت میں پیش کرنے میں ناکام ہوگئی۔ پولیس نے صرف کم سن مغوی لڑکی فلک نور کو عدالت میں پیش کیا جبکہ اغواء میں مبینہ ملوث ملزمان کو پیش نہیں کیا گیا۔

گزشتہ تاریخ 2 اپریل 2024 کو چیف کورٹ گلگت بلتستان نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ  6 اپریل کو فلک نور کو عدالت کے سامنے پیش کریں۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس دفعہ عدالتی حکم سے سرتابی کی گئی تو پولیس حکام سے کوئی رعایت نہیں برتی  جائے گی اور توہینِ عدالت کے  تحت ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ایس ایس پی گلگت بلتستان محمد ایاز اور ان کے ٹیم نے آج مطلوبہ تاریخ سے دور روز قبل ہی مغوی فلک نور کو چیف کورٹ کے معزز جج علی بیگ کی غیر موجودگی میں سیشن کورٹ گلگت میں پیش کر دیا۔

سیشن کورٹ گلگت میں معزز جج منہاج علی راجہ نے کیس کی سماعت کی۔

مغوی فلک نور کو عدالت میں پیش کرنے کے بعد دارالامان منتقل کر دی گئی

دوران سماعت فلک نور نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ” مجھے کسی نے اغواء  نہیں کیا۔ میں نے اپنی مرضی سے فرید سے شادی کی ہے اور میں اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں”۔

اس بیان پر سجی احمد جان کے 5 رکنی وکلاء کی ٹیم نے  میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو پچی ابھی کم سن ہے اوپر سے اس وقت وہ ذہنی طور پر شدید دباؤ میں ہے۔ اس لئے اس بیان کی قانونی حیثیت کمزور ہے۔

فلک نور کے والد نے ذرائع ابلاغ  سے بات چیت کرتے ہوٸے کہا کہ پولیس نے ان کی بیٹی کو بازیاب کرکے عدالت میں پیش تو کر دیا مگر اغواء کے مبینہ ملزمان کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ والد کے مطابق پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم 6 تاریخ تک بیل پہ ہے۔ اس لٸے چھ تاریخ کو اصل ملزم کو مغویہ کے ساتھ عدالت میں پیش کریں گے۔ لیکن آج گاڑی ڈراٸیور اور دیگر ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف سماعت تھی۔ پولیس نے ہمیں بتائے بے غیر اچانک سے میری بیٹی  کو عدالت میں پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے حکم کے باؤجود ابھی تک بیٹی سے ملاقات کرنے نہیں دی گئی ۔ پولیس نے چھ تاریخ کو بیٹی سے ملاقات کرانے کی بات کی ہے۔

 لڑکی کی جانب سے اپنی مرضی سے بھاگنے کے سوال پر والد نے کہا کہ بچی چھوٹی ہے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق کم عمری میں اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی۔ ملزمان کے دباؤ میں وہ ایسے بیانات دے رہی ہے۔

پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغویہ کے ساتھ ساتھ ملزمان کو بھی عدالت میں پیش کرے۔ عدالت کو بھی اغواء میں ملوث ملزمان کی عدم پیشی کا نوٹس لینا چاہٸے تھا۔ پولیس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگلی پیشی میں صرف فلک نور کو ہی نہیں بلکہ اغواء میں ملوث ملزمان، نکاح خواں اور تمام گواہوں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں