Baam-e-Jahan https://baam-e-jahan.com/ A window to High Asia and Central Asia Fri, 10 May 2024 14:35:06 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.4.4 https://baam-e-jahan.com/wp-content/uploads/2018/12/small.png Baam-e-Jahan https://baam-e-jahan.com/ 32 32 کالم قطرہ قطرہ: گونر فارم کے المناک حادثے کے بعد جنم لینے والے سوالات https://baam-e-jahan.com/story/15529 https://baam-e-jahan.com/story/15529#respond Sun, 05 May 2024 13:10:09 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15529 تحریر: اسرارالدین اسرار شاہراہ قراقرم گلگت بلتستان کے باسیوں کے لئے ہمیشہ موت کا کنواں ثابت ہوا ہے۔ گذشتہ کیٗ دہائیوں سے تواتر سے رونما ہونے والے حادثات سے لے کر دہشت گردی کے واقعات تک اور قدرتی آفات سے مزید پڑھیں

The post کالم قطرہ قطرہ: گونر فارم کے المناک حادثے کے بعد جنم لینے والے سوالات appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>


تحریر: اسرارالدین اسرار


شاہراہ قراقرم گلگت بلتستان کے باسیوں کے لئے ہمیشہ موت کا کنواں ثابت ہوا ہے۔ گذشتہ کیٗ دہائیوں سے تواتر سے رونما ہونے والے حادثات سے لے کر دہشت گردی کے واقعات تک اور قدرتی آفات سے لے کرمسافر بسوں کی لوٹ مار تک اس شاہراہ پر اپنے عزیزوں اور پیاروں کی قیمتی جانیں کھونے والے ہزاروں لوگوں پر اس شاہراہ کا نام سنتے ہی سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔

اس روڑ پر رونما ہونے والا ہر حادثہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے قیامت خیز ہوتا ہے۔ یہاں کا ہر ذی شعور شخص ہر المناک واقع کے بعد غم زدہ ہوتا، کف افسوس ملتا اور بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔

یہ سارے واقعات خودبخود رونما نہیں ہوتے بلکہ ان میں قدرت سے زیادہ انسانی کوتاہیوں کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ سیکورٹی سے لے کر روڑ سیفٹی تک کے تمام معاملات متعلقہ محکموں کی بہتر منصوبہ بندی کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر حادثے کے بعد کچھ عرصے تک حکومتی و سماجی حلقوں سے تعزیعتی بیانات جاری ہوتے ہیں اس کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے اگلے حادثے کا انتظار ہوتا ہے۔


حالیہ روڑ حادثہ جس میں بیس سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں اور اتنے ہی مسافر زخمی ہوئے ہیں، نے جہاں لوگوں کو غمزدہ کیا وہیں دیامر کے مقامی لوگوں نے اپنی بہترین روایات کی پاسداری کرتے ہوئے لاشوں اور زخمیوں کو سنھبالا اور ان کے عزیزوں کے حوالے کردیا۔ جس کے لئے وہ تمام رضاکار خراج تحسین کے مستحق ہیں جو ہر واقع کے بعد فورا جائے حادثہ پر پہنچ جاتے ہیں اورمثالی انسانی خدمت بجالاتے ہیں۔


یہ حادثہ کسی مہذب معاشرے میں رونما ہوتا تو متعلقہ وزیر یا محکمہ کا سربراہ استعفی دیتا، قوم سے مانگتا، تحقیقات کے بعد کوتاہی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دلانے کا اعلان کرتا لیکن ہمارے ہاں اس کی توقع رکھنا عبث ہے۔ گذشتہ ایک دو سالوں کے عرصے میں گلگت بلتستان میں پچاس سے زائد روڑ حادثات وقوع پذیر ہوئے ہیں جن میں درجنوں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔

مذکورہ حادثے نے ماضی کے حادثات کی طرح کئ سوالات کو جنم دیئے ہیں۔ ان سوالات کا جواب یقننا کہیں سے نہیں آئیں گے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیں گے کہ ان سوالات کے جوابات اگر بروقت مل جائیں تو ایسے خوفناک حادثات میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اس اہم تجارتی و امدو رفت کے حامل شاہراہ پر سفر کے اوقات کون طے کرتا ہے؟
کیا اس شاہراہ پر رات کے اوقات سفر کرنا مناسب ہے؟
اس شاہراہ پر سفر کرنے والی بسوں کی فٹنس سرٹیفیکیٹ کون جاری کرتا ہے؟
کیا اس بات کی تسلی کی جاتی ہے کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے بس کا مکمل معائنہ کیا گیا ہو؟
اس طویل اور کٹھن شاہراہ پر بسیں چلانی والی پرایٗوٹ کمپنیوں کے لئے کیا قواعد و ضوابط طے کئے گئے ہیں؟
ہر بس میں کتنے ڈرائیورز ہوتے چاہیے، کیا ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ سفر سے پہلے ان کی نیند پوری ہونے کا موقع ملا تھا یا نہیں؟
کیا ان ڈرائیورز کی تعیناتی سے قبل ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کا معایٗنہ اور امتحان لیا جاتا ہے یا ان سے میڈیکل سرٹیفیکیٹ طلب کیا جاتا ہے؟
کیا ڈرائیورز کی تنخواہ اتنی ہوتی ہے کہ وہ ذہنی سکون اور یکسوٗی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں؟
کیا ڈرائیورز کو لیبر قوانین کے مطابق دیگر سہولیات اور مراعات دیئے جاتے ہیں، جن میں ان کے میڈیکل الاونس، رسک الاونس، انشورنس وغیرہ شامل ہیں تاکہ ان کے لئے ڈرائیونگ کے سخت اصول طے کئے جاسکیں؟
کیا ڈرائیورز پر نشے کی حالت میں گاڑی چلانے پر پابندی ہے؟
کیا بس پر سامان اور مسافروں کے وزن کی کوئی حد مقرر ہے؟ٰ
کیا اس روٹ کے اوپر مختلف مقامات پر رک کر کمپنی کے ذمہ داروں کی طرف سے بس کا معائنہ کیا جاتا ہے اور ڈرائیورز کی جسمانی اور ذہنی کیفت دریافت کی جاتی ہے؟
کیا اس روٹ پر تیز رفتاری پر کوئی قدغن ہے؟ اس کی حد کیا ہے اور کون اس پر نظر رکھتا ہے؟
اس روٹ پر سیفٹی کے لوازامات کو دیکھنا کس محکمہ کی ذمہ داری ہے؟
روڑ کی خستہ حالی، حفاظتی دیواروں اور جنگلوں کا نہ ہونا کس کی کوتاہی ہے؟
جن کے پیارے اور عزیزجاں بحق ہوتے ہیں کیا ان کے لئے معاوضہ کمپنی دیتی ہے؟
کیا مسافروں کا انشورنس ہوتا ہے؟
جو جواں سال لوگ اس روڑ پر سفر کے دوران حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں ان کے لواحقین اور بال بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کس کے سر پر ہوتی ہے؟
کیا ایسے حادثات کے بعد ٹرانسپورٹ کمپنی سمیت متعلقہ محکموں کے ذمہ داروں سے باز پرس کرنا ہی کافی ہے یا ان پر بھاری جرمانہ عائد کی جانا چاٗیے اور سخت سے سخت سزا دی جانا چاہئے تاکہ وہ ٹرانسپورٹ کے بنیادی اصولوں اور قوانین پر عملدامد کو یقینی بنا سکیں؟
کیا گلگت بلتستان کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والے دیگر آسان راستوں، جن میں بابوسر کاغان ناران روڑ، استور سے کشمیر کا روڑ اور غذر چترال روڑ شامل ہے، کی بروقت تکمیل اور ان کو سارا سال قابل استعمال کرنے سے ایسے حادثات کے امکانات کم نہیں کیا جا سکتا؟
کیا دنیا بھر میں روڑ حادثات کے بعد حکومتیں تعزیتی بیانات پر اکتفا کرتی ہیں یا ہر حادثے کے بعد کچھ سبق سیکھ کر اپنی پالیسیوں یا قوانین میں تبدیلی لاتے ہیں؟
ہمارے ہاں حکومتیں کب انسانی جانوں کی حفاظت کو اپنی اولین زمہ داری سمجھیں گی؟

کیا اس اہم ترین شاہراہ کی مرمت اور مینٹینینس کے ذمے دار اداروں کے خلاف مجرمانہ غفلت برتنے پر کوٗی کاروایٗی عمل میں لاٗی گٗی ہے؟

ان سوالات پر غور کرنا اور ان کے جوابات تلاش کرنا انتہاٗی اہم ہے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات کو روکا جا سکے۔


اسرارالدین اسرار سینٗر صحافی اور حقوق انسانی کمیشن پاکستان گلگت بلتستان کے کوا ٗرڈینیٹر ہیں۔ وہ بام جہاں میں ‘قطرہ قطرہ’ کے عنوان سے مختلیف سماجی مسایل پر مضامین لکھتے ہیں۔

المناک حادثہ

The post کالم قطرہ قطرہ: گونر فارم کے المناک حادثے کے بعد جنم لینے والے سوالات appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15529/feed 0
چیلاس بس حادثہ: تین خواتین سمیت 22 مسافر جاں بحق، 13 زخمی https://baam-e-jahan.com/story/15519 https://baam-e-jahan.com/story/15519#respond Fri, 03 May 2024 05:01:25 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15519 نیوز ڈیسک گلگت: چلاس گونر فارم  میں قراقرم ہائی وے پر مسافر بس حادثے کا شکار۔ بیس سے زاiڈ مسافر جاں بحق اور متعدد زخمی۔ میڈیا اور ریسکیو 1122 ذرائع کے مطابق رات کے آخری پہر پنڈی سے گلگت جانے مزید پڑھیں

The post چیلاس بس حادثہ: تین خواتین سمیت 22 مسافر جاں بحق، 13 زخمی appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

نیوز ڈیسک


گلگت: چلاس گونر فارم  میں قراقرم ہائی وے پر مسافر بس حادثے کا شکار۔ بیس سے زاiڈ مسافر جاں بحق اور متعدد زخمی۔

میڈیا اور ریسکیو 1122 ذرائع کے مطابق رات کے آخری پہر پنڈی سے گلگت جانے والی  مارکو پولو ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس گورنر فارم کے قریب گہری کھائی میں جا گری۔  جس کے نتیجے میں تین خواتین سمیت 22 مسافر جاں بحق ہوئے اور  13 دیگر لوگ زخمی ہوئے۔ بس میںں 35 مسافر سوار تھے۔

اطلاع ملنے پر ریسکو 1122 کی کارکن جائے حادثہ پر پہنچ  گئے اور لاشوں اور زخمیوں کو دریائے سندھ کے کنارے کھائی سے نکال کر چیلاس ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچا دئیے۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ 

حادثہ یشوکل داس کے قریب چلاس تھانہ کے حدود میں پیش آیا جب مارکوپولو پرائیوٹ کمپنی کی بسLES 8813   تیز رفتاری کے باعث سڑک سے نکل کر نیچے دریائے سندھ کے کنارے جا گری۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق جان بحق ہونے والوں میں عارف ساکن سکردو، ممتاز  سکنہ چارسدہ، خالد چارسدہ، توفیق، مانسہرہ؛ اظہار علی، ہنزہ؛ سمیع اللہ شیخپورہ؛ صدام، مانسہرہ؛ فیصل دنیور گلگت؛ محمد علی خومر گلگت؛ افتخار احمد بالاکوٹ؛ مطیع اللہ کوٸٹہ؛ محمد غازی نگر؛ عامر حسین نگر؛ عبدالستار گلگت، سپاہی سلطان صلاح الدین، خانیوال، محمد سجاد بہاولنگر؛ عبدالزاق ہنزہ؛ ناصر آزاد کشمیر کی شناخت ہو چکی ہے۔  جبیکہ تاحال تین لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی۔

The post چیلاس بس حادثہ: تین خواتین سمیت 22 مسافر جاں بحق، 13 زخمی appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15519/feed 0
پولیس نے پروفیشنل انداز سے تفتیش کرکے رفیق علی کے قتل کا سراغ لگا لیا۔ محمد عتیق شاہ، ڈی پی او اپر چترال https://baam-e-jahan.com/story/15511 https://baam-e-jahan.com/story/15511#respond Tue, 30 Apr 2024 14:31:39 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15511 رپورٹ: کریم اللہ 21 اپریل کو ریشن میں نوجوان کی لاش برآمد ہوئی تھی جس کے قتل ہونے یا حادثاتی موت کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی تاہم اپر چترال پولیس نے پروفیشنل انداز سے اس کیس کی تفتیش کی مزید پڑھیں

The post پولیس نے پروفیشنل انداز سے تفتیش کرکے رفیق علی کے قتل کا سراغ لگا لیا۔ محمد عتیق شاہ، ڈی پی او اپر چترال appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

رپورٹ: کریم اللہ


21 اپریل کو ریشن میں نوجوان کی لاش برآمد ہوئی تھی جس کے قتل ہونے یا حادثاتی موت کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی تاہم اپر چترال پولیس نے پروفیشنل انداز سے اس کیس کی تفتیش کی اور مختلف شواہد نیز گواہاں کے بیانات کی بنیاد پر اس قتل میں ملوث ریشن گول سے تعلق رکھنے والے اکرم نواز ولد شیر نواز تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

آج اپنے دفتر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او اپر چترال کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشکل کیس تھا جسے پولیس نے ذمہ داری سے تفتیش کی اور اس اندھے قتل کا سراغ لگا لیا۔

اس موقع پر ایس پی انوسٹی گیشن اجمل خان، ایس ڈی پی او مولائی شاہ اور ایس ایچ او تھانہ بونی خلیل احمد بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

اس موقع پر ڈی پی او اپر چترال  نے کہا کہ ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ مقتول رفیق علی نے ان سے نشست کے دوران بعض ایسے الفاظ ادا کئے جو ان کے لئے ناقابل برداشت تھی جس کی وجہ سے وہ غصے سے ان کے سر پر پتھر مار کر انہیں قتل کر دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا اکرم نواز نے اپنے بعض انتہائی قریبی رشتہ داروں کو بھی اس واقعے کے متعلق آگاہ کیا تھا اور ان کے وہی قریب ترین رشتہ داروں نے بھی آج کورٹ میں باقاعدہ گواہی دی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پولیس نے سارے شواہد اکٹھا کئے ہیں اور یہ ایک مضبوط کیس ہے جس میں مجرم کو سزا ملے گی۔

اپر چترال پولیس ذرائع نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ رفیق علی کے سر پر پتھر سے ضرب کے چوٹ تھے اور ملزم نے اس کی نشاندہی بھی ہے۔ اس کے علاوہ سی ڈی آر یعنی کال ڈیٹیلز ریکارڈ کی مدد سے بھی پولیس نے اس کیس کی تفتیش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کے حوالے سے مزید تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ 21 اپریل 2024ء کو ریشن کڑوم شغور میں ریشن ہی سے تعلق رکھنے والے رفیق علی کی لاش ملی تھی جس کی موت سر پر چوٹ لگنے اور زیادہ خون بہنے کے باعث واقع ہوئی تھی۔

The post پولیس نے پروفیشنل انداز سے تفتیش کرکے رفیق علی کے قتل کا سراغ لگا لیا۔ محمد عتیق شاہ، ڈی پی او اپر چترال appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15511/feed 0
رفیق علی کا اندوہناک واقعہ، پولیس کے لئے ٹسٹ کیس؟ https://baam-e-jahan.com/story/15502 https://baam-e-jahan.com/story/15502#respond Mon, 29 Apr 2024 05:30:54 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15502 رپورٹ: کریم اللہ 20 اور 21 اپریل 2024ء کو بالائی چترال کے علاقہ ریشن سے تعلق رکھنے والے انجینئرنگ کے طالب علم رفیق علی  کی لاش گاؤں سے دور سڑک سے کافی فاصلے پر  کھیل کے میدان میں ملی تھی مزید پڑھیں

The post رفیق علی کا اندوہناک واقعہ، پولیس کے لئے ٹسٹ کیس؟ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

رپورٹ: کریم اللہ


20 اور 21 اپریل 2024ء کو بالائی چترال کے علاقہ ریشن سے تعلق رکھنے والے انجینئرنگ کے طالب علم رفیق علی  کی لاش گاؤں سے دور سڑک سے کافی فاصلے پر  کھیل کے میدان میں ملی تھی جس کے ساتھ موٹر سائیکل بھی گرے ہوئے تھے تاہم ذرائع کے مطابق موٹر سائیکل میں کوئی زیادہ خرابی نہیں دیکھی گئی جس سے یہ حادثہ ظاہر ہو سکیں۔

اس سلسلے میں گزشتہ ایک ہفتے سے پولیس تفتیش کر رہی تھی تاہم گزشتہ روز یعنی 26 اپریل کو اس وقت کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی جب پولیس نے طویل تفتیش کے بعد اس قتل کے مبینہ ملزم اکرم نواز ولد گل نواز سکنہ ریشن گول کے خلاف دفعہ 302 کے تحت قتل کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا۔

ریشن میں قتل ہونے والا نوجوان رفیق علی کی فائل فوٹوز

اس سلسلے میں تفتیشی آفیسر اور ایس ایچ او تھانہ بونی اپر چترال خلیل الرحمن نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ ابتدائی طور پر اس واقعے کے حوالے سے ابہام پائے جاتے تھے کیونکہ اس کو کلئیر قتل قرار نہیں دے سکتے تھے تاہم اپر چترال پولیس نے اس کیس کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور تفتیش کرنے کے بعد کال ڈیٹیلز ریکارڈز یعنی سی ڈی آر اور دوسرے ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے بعد اس قتل میں اکرم نواز کے ملوث ہونے کے کافی ثبوت پائے   جس کی بنیاد پر ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ملزم اکرم نواز سے مزید تفتیش کا سلسلہ جاری ہے اور بہت جلد اس کیس میں بڑی پیش رفت ہو گی۔

اس سلسلے میں مقتول رفیق علی  کے بھائی اور دوسرے ورثاء نے ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے  اپر چترال پولیس کی تفتیش پر اعتماد کا اظہار کیا تاہم انہوں نے پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا کہ اس کیس کو مزید جامع انداز سے تحقیقات کر کے کیس میں اگر کوئی اور بھی ملوث ہے تو ان تک پہنچنے کی کوشش کی جائے اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

اس سلسلے میں ریشن کے سماجی حلقوں نے ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومت کے انسانی حقوق کے اداروں اور ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی رفیق علی کے بہیمانہ قتل میں ملوث افراد کو سزا دلوانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔

رفیق علی مرحوم کے خاندانی ذرائع نے ہمارے نمائندے بتایا کہ ان کے سر کے پچھلے حصے میں شدید زخم تھے اور ان سے بہت زیادہ

خون بہنے کے باعث ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔

یاد رہے کہ اپر اور لوئر چترال میں گزشتہ کئی سالوں سے قتل کے اندوہناک واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں مگر شواہد نہ ہونے اور مقتولیں کے لواحقین کی جانب سے کیسز میں دلچپسپی ظاہر نہ کرنے  کے باعث ایسے کیسز کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اور اکثر واقعات کو خود کشی کا نام دے کر دبا دیا جاتا ہے۔

ایسے واقعات میں مقتولیں کے ورثاء اور سول سوسائیٹی کو بھر پور آواز اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ چترال کے اندر رونما ہونے والے ایسے واقعات کی روم تھام ممکن ہو سکیں۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ رفیق علی کا قتل اپر چترال پولیس کے لئے ایک ٹسٹ کیس ہے جس کی جامع انداز سے تحقیقات کرکے اگر ملزماں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا تو اس سے عوام کی نظروں میں پولیس کے وقار میں بھی اضافہ ہو گا۔

The post رفیق علی کا اندوہناک واقعہ، پولیس کے لئے ٹسٹ کیس؟ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15502/feed 0
گل حماد فاروقی! چترال میں جدید طرز صحافت کا معمار https://baam-e-jahan.com/story/15493 https://baam-e-jahan.com/story/15493#respond Sun, 28 Apr 2024 15:46:04 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15493 تحریر: کریم اللہ چترال سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور رپورٹر گل حماد فاروقی گزشتہ روز حرکت قلب بند ہونے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے خدا ان کی روح کو دائمی سکون نصیب فرمائیں۔ آمین گل حماد مزید پڑھیں

The post گل حماد فاروقی! چترال میں جدید طرز صحافت کا معمار appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

تحریر: کریم اللہ


چترال سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور رپورٹر گل حماد فاروقی گزشتہ روز حرکت قلب بند ہونے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے خدا ان کی روح کو دائمی سکون نصیب فرمائیں۔ آمین

گل حماد فاروقی بنیادی طور پر محکمہ موسمیات کے ملازم تھے جہاں پر ان کا تبادلہ چترال ہو گیا وہاں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد وہ صحافت سے منسلک ہو گئے اور زندگی بھر اسی پیشے سے وابسطہ رہے۔

گل حماد فاروقی سے قبل چترال میں صحافت محض ڈائننگ رومز تک محدود تھی عوام کے مسائل کو ان کے دہلیز میں جا کر ذرائع ابلاغ کی مدد سے حکام بالا تک پہنچانے کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی کوئی متحرک صحافی یا میڈیا پرسن۔ فاروقی نے اس کمی کو پورا کرنے کی ٹھان لی اور انتھک محنت سے چترال کے کونے کونے تک پہنچ گئے لوگوں کے مسائل کو اجاگر کیا اور اسی وجہ سے ہی بہت سارے مسائل حل ہو گئے۔

یہی نہیں چترال میں آج بمشکل الیکٹرانک اور ڈیجیٹل صحافت یعنی (آڈیو اور وڈیو صحافت) کا آغاز ہو گیا ہے وہ بھی زیادہ تر نوجوان اپنی کوششوں سے کر رہے ہیں جبکہ فاروقی مرحوم نے الیکٹرانک صحافت کا آغاز بھی ایسے دور میں کیا جبکہ یہاں کے صحافی بمشکل پرنٹ میڈیا کے لئے خبریں بنا رہے تھے۔

ایسے میں گل حماد فاروقی کو چترال میں جدید الیکٹرانک میڈیائی صحافت کا معمار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

آپ نے بہت سارے ملکی و غیر ملکی میڈیا گروپوں کے ساتھ کام کیا اور چترال کے مسائل کو اجاگر کرتے رہے ساتھ ہی یہاں کے پوٹینشل کو بھی دنیا کے سامنے لانے میں پیش پیش رہے۔

آپ ایک نڈر صحافی تھے جو کسی بھی مسئلے کو جان فشانی کے ساتھ اجاگر کرتے تھے۔ گزشتہ چند ماہ سے وہ چترال شندور روڈ پر ناقص کام کے حوالے سے مسلسل رپورٹنگ کرتے رہے تھے اور لوگوں کو بتانے کی کوشش کی کہ اتنے بڑے پیمانے پر کس طرح ناقص کام ہو رہا ہے۔ اسی پاداش میں فاروقی صاحب کے خلاف ٹھیکیداروں کی جانب سے ایف آئی آر بھی درج ہوا اور ان کے کردار کشی بھی کی گئی مگر وہ تسلسل کے ساتھ اس مسئلے کو اجاگر کی۔

 لیکن اجل کو کچھ اور ہی منظور تھا زندگی بھر خبریں دینے والا اچانک خود ہی خبر بن گیا۔ گل حماد فاروقی کی طرز صحافت سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کے پیشہ ور یعنی پروفیشنل اور متحرک صحافی ہونے میں کسی بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ آج چترال کے لئے میڈیا میں آواز اٹھانے والے ایک بااثر آواز بند ہو چکا ہے۔ فاروقی کی رحلت یقینا چترال میں ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔

The post گل حماد فاروقی! چترال میں جدید طرز صحافت کا معمار appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15493/feed 0
سینئر صحافی گل حماد فاروقی انتقال کر گئے https://baam-e-jahan.com/story/15485 https://baam-e-jahan.com/story/15485#respond Sat, 27 Apr 2024 11:27:47 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15485 چترال سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی گل حماد فاروقی اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ جنہیں ان کے آبائی گاؤں چارسدہ میں سپردِ خاک کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق گذشتہ رات ان کے سینے میں مزید پڑھیں

The post سینئر صحافی گل حماد فاروقی انتقال کر گئے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

چترال سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی گل حماد فاروقی اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ جنہیں ان کے آبائی گاؤں چارسدہ میں سپردِ خاک کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق گذشتہ رات ان کے سینے میں درد محسوس ہونے پر انہیں ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال پہنچایا گیا تھا وہیں انتقال کر گئے ہیں۔

گل حماد فاروقی چترال میں صحافت کو نئے انداز سے متعارف کیا انہوں نے پہلی مرتبہ الیکٹرانک میڈیا میں چترال کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے لوگوں کے مسائل ارباب اختیار تک پہنچاتے رہے جبکہ انہوں نے اپنی صحافتی کیرئیر کے دوران پیدل چل کر مصیبت زدہ لوگوں کے پاس پہنچتے اور ان کے مسائل کو رپورٹ کیا۔

اس موقع پر ہائی ایشیاء ہیرالڈ  کی جانب سے گل حماد فاروقی کو ان کے شاندار صحافتی خدمات پر خراج تحسین پیش کی جاتی ہے۔

The post سینئر صحافی گل حماد فاروقی انتقال کر گئے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15485/feed 0
گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار https://baam-e-jahan.com/story/15477 https://baam-e-jahan.com/story/15477#respond Thu, 25 Apr 2024 12:24:11 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15477 از: عزیزعلی داد کمزور سماج میں مصنوعی ذہانت (AI) انفرادی نفسیات کے کونے کھدروں میں مخفی خواہشات، خوابوں، محرومیوں اور فنتاسیاتی تصورات کو تصویری جامہ پہنائے گی اور یوں حقیقت سے فرار کا ایک راستہ مہیا کرے گی۔ اس کی مزید پڑھیں

The post گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

از: عزیزعلی داد

کمزور سماج میں مصنوعی ذہانت (AI) انفرادی نفسیات کے کونے کھدروں میں مخفی خواہشات، خوابوں، محرومیوں اور فنتاسیاتی تصورات کو تصویری جامہ پہنائے گی اور یوں حقیقت سے فرار کا ایک راستہ مہیا کرے گی۔ اس کی ایک جھلک گلگت بلتستان کے مختلف مقامات کی فیوچرسٹک تصویریں ہیں جس میں بہتے دریا اور سرسبز کھیتوں کے درمیان سے ٹرین گزر رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے خوبصورت مقامات پر بااثر لوگوں اور طاقت ور اداروں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا ہے تو ذرا استور، پھنڈر، نلتر، ہنزہ اور سکردو وغیرہ پہ ایک نظر ڈالیں۔ ایک ہم ہیں کہ بچے کی طرح کھلونے کے ٹرین کو چلا کر سمجھ رہیں ہیں کہ علاقے میں ریلوے کا نظام آگیا۔

جب حقیقت بہت تلخ ہو تو خواب ہی پناہ گاہ بن جاتے ہیں۔ ہماری حقیقت کو تلخ بنانے میں اس ریاستی نظام کا قصور ہے جس نے ایک ایسی خوف ناک معروضی حقیقت کی تشکیل کی ہے جہاں ہم اپنے آپ سے بے گانہ ہوگئے ہیں، زمین اتنی زہر آلود ہو گئی ہے کہ کوئی خواب نہیں اگ سکتا، اور سماج ایسا کہ ہر لحظہ ایک ہیرو کی تلاش میں ہر دن ایک ایسا ہیرو تیار کر رہا ہے جو اصل ہیرو کی پرجھائی بھی نہیں۔

 

پینٹگ: پہلی پینٹگ مصنوعی ذہانت کی بنائی ہوئی ہے۔

دوسری پینٹنگ میں فرانس کا اپنے نوآبادت کے لوگوں کے ساتھ سلوک دکھایا جا رہا ہے۔

بریخت کے ڈرامے "گلیلیو” میں گلیلیو کا شاگرد اندریاس کہتا ہے "غم سے معمور ہے وہ زمین جس میں کوئی ہیرو نہیں ہے”۔ گلیلیو جواب میں کہتا ہے "نہیں غم ناک صورت حال اس کی سرزمین کی ہے جسے ہیروز درکار ہیں۔”

ہماری حالت یہ ہے کہ آج ہم کارٹون کا ایک کردار اپنے بچوں کے لیے نہیں بنا سکتے ہیں۔ مگر دیدہ و نادیدہ قوتیں ہر دن ایک نیا ہیرو تیار کرکے سماج میں لانچ کر رہی ہیں۔ ہر شعبے میں سینکڑوں ہیروز نظر  آتے ہیں۔ ہر پانچ سال بعد ایک نیا آرڈر آتا ہے۔

گلگت بلتستان کا مروج نظام دنیا کے واٹر ٹاور میں پانی اور بجلی نہیں دے سکا تو مصنوعی ذہانت ہمارے معروضی حالات سے نکالنے کے لیے ایک نجات دہندہ بن کے سامنے آیا ہے۔یہ دور معروض سے فرار کا ہے۔ اگر یہ روش رہی تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا جہاں معروض میں ہمارا جسم ہوگا اور ذہن اور روح مصنوعی ذہانت کو مقروض ہوگا۔ مصنوعی ذہانت کے لیے اصلی ذہانت چاہئے۔ آپ مصنوعی ذہانت سے اصلی حقیقت کو پینٹ کریں۔ یہ تبھی ممکن یوگا جب آپ کو معروض کی آگاہی ہوگی۔

ہماری موضوعیت کے سوتے ہماری معروضی حقیقت سے ہی پھوٹتے ہیں۔ اسی لیے اگر خوبصورت سماج اور خواب کی تعبیر چاہتے ہو، تو معروض بدلو۔ ورنہ گلگت بلتستان والو تم یہ صدی بھی فرسودہ نظام کے تشکیل دئیے گئے بھیانک خواب میں ہی گزارو گے۔

عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں

عزیز علی داد

The post گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15477/feed 0
کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے https://baam-e-jahan.com/story/15475 https://baam-e-jahan.com/story/15475#respond Wed, 24 Apr 2024 11:26:31 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15475 تحریر: کریم اللہ کھوار زبان چترال کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور سوات کے علاقہ کلام میں بولی جاتی ہے۔ چترال کی سب سے بڑی زبان ہونے کے علاوہ گلگت بلتستان کی بھی دوسری یا تیسری بڑی زبان مزید پڑھیں

The post کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

تحریر: کریم اللہ

کھوار زبان چترال کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور سوات کے علاقہ کلام میں بولی جاتی ہے۔ چترال کی سب سے بڑی زبان ہونے کے علاوہ گلگت بلتستان کی بھی دوسری یا تیسری بڑی زبان ہے۔ کھوار زبان کے آغاز و ابتداء کے حوالے سے کوئی مستند دستاویز  موجود نہیں کہ اس زبان کا آغاز کب اور کیسے ہوا اور اس کی جنم بومی کونسا علاقہ ہیں۔ البتہ چترال اور غذر کے علاقوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالوں سے انسانی آبادی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق میں بالائی چترال کے علاقہ پرواک، نصرگول وغیرہ میں چار عیسوی سے لے کر 850ء تک کے انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں یہ تحقیق دو ہزار دو عیسوی میں ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کی ٹیم نے کی تھی۔ جس کی رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ بالائی چترال میں آثار قدیمہ پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی البتہ ہزارہ یونیورسٹی ہی کے ماہریں نے لوئر چترال سینگور گان کورینی کے مقام پر بھی دو مرتبہ کھدائی کی ہے سینگور کی پہلی کھدائی کی رپورٹ کے مطابق پرواک و نصرگول اور سینگور میں انسانی زندگی کے آثار کی تاریخ یکسان ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں چترال میں کونسے لوگ رہ رہے تھے اور ان کی زبان و لسانی شناخت کیا تھی یہ تو ہنوز تحقیق طلب ہے۔ البتہ چترال کے بعض محقیقیں بالخصوص ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، پروفیسر اسرار الدین اور اس قبیل کے دیگر دانشوروں کی رائے ہے کہ بالائی چترال کے لوگ کھو تھے جبکہ زریں چترال میں کلاش یا گجر رہائش پزیر تھے۔ البتہ  فخر الدین  اخونزدہ کی حالیہ شائع شدہ کتاب "چترال کی زبانیں” میں گجر برادری کی چترال آمد کو اٹھارہویں اور انیسویں صدی بتایا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا "کھو” کوئی نسلی و لسانی گروہ ہے۔؟؟ کیا کھوار بولنے والے سارے  "کھو” کہلائیں گے۔۔؟

کھوار بولنے والوں کے لئے "کھو” کی اصطلاح ایکیڈیمیا میں تسلسل کے ساتھ مستعمل ہے مقامی مصنفیں کے علاوہ یورپی مصنفیں کی تحریروں میں بھی کھوار بولنے والوں کے لئے "کھو” کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ (کاکوپارڈو برادرز کی کتاب  گیٹس آف پارستان، اخونزدہ کی، چترال کی زبانیں، چترال ایک تعارف، فیضی، اسرار وغیرہ)۔

 کیا سارے کھوار بولنے والے "کھو” ہو سکتے ہیں۔؟ کیا "کھو” کوئی نسلی یا لسانی شناخت ہے یا علاقائی شناخت۔۔؟ بالائی چترال میں "کھو” کن لوگوں کو کہا جاتا ہے۔؟ کیا گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے کھوار بولنے والے بھی "کھو” ہو سکتے ہیں۔؟

کھو:

مستوچ یعنی پارپیش سے لے کر ڑاسپور اور یارخون کے آخری گاؤں انکیپ تک کے کھوار بولنے والے لوگ موڑکھو اور تورکھو کے لوگوں کے لئے "کھو” کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ان کے نزدیک موڑکھو اور تورکھو سے تعلق رکھنے والے لوگ "کھو” ہیں جبکہ موڑکھو اور تورکھو سے مستوج جسے بیار بھی کہا جاتا ہے کے علاقوں میں نقل مکانی کرکے آباد ہونے والوں کے لئے بھی "کھو” کی اصطلاح استعمال کی جاتی  ہیں یعنی ان لوگوں کو کھو، کھوان دیہہ اور کھوان دور کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

اسی طرح بیار کا کوئی بھی کھوار بولنے والا خود کو کبھی بھی "کھو” نہیں کہتا اور نہ اس مسلط شدہ شناخت کو کبھی ان علاقوں کے لوگوں نے اپنانے کی کوشش کی۔ ایسے میں سارے کھوار بولنے والوں پر "کھو” شناخت مسلط کرنا دانشمندانہ فعل نہیں۔ کیونکہ درحقیقت "کھو” کوئی لسانی شناخت نہیں بلکہ ایک علاقائی شناخت ہے اور خصوصا موڑکھو کے لوگوں کے لئے "کھو” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

"کھو” شناخت بھی موجودہ تحصیل موڑکھو یا تورکھو کے سارے باسیوں کے لئے مستعمل نہیں کیونکہ ریاستی دور میں "کھو” علاقے کی زرین سرحد موژگول اور بالائی سرحد سور وخت ہوتے تھے جبکہ تریچ کی اپنی علیحدہ شناخت ہوتی تھی۔ آج بھی کوشٹ، موردیر، لوٹ اویر وغیرہ کے لوگ موژگول سے بالائی علاقوں کے باسیوں کو”موڑکھویچی” کہتے ہیں جبکہ تریچ کے باسیوں کے لئے "تریچھیغ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہیں۔

اس لئے یہ کہنا کہ کھوار بولنے والے سارے "کھو” ہیں درست تصور ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کھوار بولنے والے "کھو” نہیں تو ان کی شناخت کیا ہے۔؟

اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ لازمی نہیں کہ ہر ایک شناخت لسانی ہو کھوار زبان اور اردو کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان دونوں زبانوں میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے جس طرح اردو زبان پاکستان اور ہندوستان میں رہائش پزیر کروڑوں لوگوں کی زبان تو ہے لیکن ان کروڑوں لوگوں کی لسانی شناخت نہیں۔ اردو بولنے والے کوئی ایک قومیت میں نہیں آتے بلکہ پاکستان میں اردو بولنے والے خود کو مہاجر شناخت دینے کی غیر فطری کوشش کرتے ہیں۔

ٹھیک اسی طرح کھوار بولنے والے کوئی لسانی گروہ نہیں اور نہ ہی کھوار بولنے والے سب کو ہم "کھو” شناخت دے سکتے ہیں۔ کیونکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں واخان و بدخشان اور دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے ترک وطن کرکے چترال میں آکر آباد ہو گئے اور اب یہ لوگ مکمل طور پر نہ صرف کھوار بولتے ہیں بلکہ وہ یک لسانی ہو گئے ہیں کیا وہ لوگ بھی "کھو” لسانی شناخت میں شامل ہو گئے ہیں۔؟

اسی طرح کلاش برادری کے لوگ جب مسلمان ہو جاتے ہیں تو اپنی زبان بھی چھوڑ کر کھوار کو اپناتے ہیں کیا وہ لوگ بھی "کھو” کہلائیں گے۔؟

گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے بالائی علاقوں کے باشندے صرف یک لسانی ہیں یعنی ان کی زبان صرف کھوار ہے اور یہ لوگ یہاں کے مقامی باشندے ہیں نہ کہ چترال یا بالائی چترال سے ہجرت کر کے وہاں آباد ہو گئے ہیں یہ لوگ کبھی بھی خود کو "کھو” نہیں کہتے کیا ہم ان پر بھی "کھو” شناخت مسلط کر سکتے ہیں۔؟

دراصل ہمارے ایکیڈیما کے بعض دانشوروں نے سارے کھوار بولنے والوں  پر "کھو” نام کے ایک خالص علاقائی شناخت کو تھوپنے کی کوشش کی۔

 ایکیڈیمیا میں تسلسل کے ساتھ اس مسلط شدہ شناخت  کا تکرار ہوتا رہا ہے مگر چترال کی سماجی و  عمرانیات اور روزمرہ کی بول چال میں "کھو” کی یہ مسلط شدہ شناخت جگہ نہیں بنا سکی اور یہاں کے لوگ آج بھی "کھو” علاقائی شناخت کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک غیر فطری شناخت کو مسلط کرنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ "کھو” ایک علاقائی شناخت ہے جبکہ کھوار زبان اس شناخت سے بڑھ کر  زیادہ وسیع زبان ہے۔

مصنف کے بارے میں

کریم اللہ فری لانس جرنلسٹ، کالم نویس اور ڈیجیٹل کانٹینٹ کریٹر ہے جو کہ عرصہ پندرہ سالوں سے مختلف علاقائی و ملکی سطح کے نشریاتی اداروں کے ساتھ بطور صحافی و بلاگر کے کام کر رہے ہیں تاریخ و ثقافت اور روزمرہ کے واقعات پر ان کی نظر ہوتی ہے۔

کریم اللہ

The post کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15475/feed 0
زمان علی شاہ ایک بے باک سیاسی و سماجی رہنماء بھی چل بسے https://baam-e-jahan.com/story/15470 https://baam-e-jahan.com/story/15470#respond Fri, 19 Apr 2024 18:39:42 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15470 تحریر: فرمان بیگ وادئی آفگرچ آج ایک سچے ،بہادر انقلابی اور ایک عظیم سماجی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ زمان علی شاہ جس نے ساری زندگی عوامی حقوق کی جدوجہد میں گزاری جمعہ کے روز 19 اپریل 2024 کو 97 برس مزید پڑھیں

The post زمان علی شاہ ایک بے باک سیاسی و سماجی رہنماء بھی چل بسے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

تحریر: فرمان بیگ


وادئی آفگرچ آج ایک سچے ،بہادر انقلابی اور ایک عظیم سماجی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ زمان علی شاہ جس نے ساری زندگی عوامی حقوق کی جدوجہد میں گزاری جمعہ کے روز 19 اپریل 2024 کو 97 برس کی عمر میں رحلت فرما گئے۔

انھوں نے ایک شاندار اور بھرپور زندگی گزاری وہ عوامی حقوق کی جنگ میں ہمیشہ صف اول میں رہے۔ سیاسی طور پر ان کا تعلق پیپلز پارٹی کے ان سرکردہ کارکنان میں شامل تھے جنھوں نے سابق ریاست ہنزہ پر مسلط شخصی آمرانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی۔ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنے سیاسی اصولوں اور عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔

وہ خنجراب ویلجرز آرگنائیزیشن کے بانیوں میں سے تھے۔ انھوں نے بطور سماجی کارکن کے بہت سارے اداروں میں خدمات سرانجام دئیے۔ وہ عوامی حقوق کو اہمیت دیتے تھے اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ جب بھی طاقتور اداروں اور افراد کی جانب سے عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہوئی وہ اس کے خلاف مزاحمت میں کھڑے ہو گئے۔ برگیڈئیر اسلم ہوٹل کیس ہو یا خنجراب نشنل پارک میں عوامی حقوق کا معاملہ، وہ ہمیشہ صف اول میں رہے۔

سماجی تبدیلی اور انصاف کے پرجوش کارکن کے طور پر انھوں نےاپنے پیچھے ایک ایسا ورثہ چھوڑا ہے جسے آنے والی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ عوامی اجتماعی وسائل کی تحفظ اور دوسروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے غیر متزلزل عزم کے ساتھ اپنے آپ کو سیاسی اور سماجی کاموں کے لیے وقف کر دیا تھا جس کا مقصد مساوات ،برابری اور سماجی انصاف پر مبنی ایک خوشحال معاشرے کی تعمیر تھا۔

وہ اپنی صاف گوئی، پرجوش تقریروں اور انتھک جدوجہد کے لیے مشہور تھے۔

زمان علی شاہ کے انتقال سے گوجال میں سیاسی اورسماجی سطح پر ایک گہرا خلا پیدا ہوا ہے۔ گوکہ جسمانی طور پر اب وہ ہمارے ساتھ نہیں رہے لیکن اس کی قربانیاں ہمیں ایک بہتر کل کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ دیتی رہے گی۔ایسے بے لوث رہنماوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ نوجواں نسل کو ان کی جدوجہد سے اگاہی دیا جائے اور ان کی عملی جدوجہد اور میراث کو آپنائیں۔ اس میراث کو جاری رکھ کر ہی ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ممکن ہے جو انصاف اور مساوات پر مبنی ہو۔

The post زمان علی شاہ ایک بے باک سیاسی و سماجی رہنماء بھی چل بسے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15470/feed 0
خون آشام نظام https://baam-e-jahan.com/story/15449 https://baam-e-jahan.com/story/15449#respond Tue, 09 Apr 2024 08:19:11 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15449 آج گلگت بلتستان میں ریاستی ادارے شہریوں کی محافظ کی بجاۓ، ان کے بنیادی سیاسی و انسانی حقوق کو سلب کرنے کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ اب یہ نظام مکمل طور پر تباہ ہونے سے پہلے گلگت بلتستان کے لوگوں کی زندگی تباہ کرکے رکھ دے گا

The post خون آشام نظام appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

از: عزیز علی داد




جس علاقے کو قانون اور جدید انتظامی اصولوں کی بجاۓ آرڈر سے چلایا جاتا ہے،

وہاں نراجیت ہی کی حکمرانی ہوتی ہے۔

گلگت بلتستان میں لاشاری ہو یا منرلز اور مائنز کے لائسنس،

ابھرتی ہوئی مارکیٹیں ہوں یا پی ٹی ڈی سی ہوٹلز کی نجکاری کا معاملہ،

فلک نور کا کیس ہو یا کینگرو کورٹس،

پولیس کی بے بسی ہو یا بجلی کا بحران،

انسانی حقوق کی پامالی ہو یا کے آئی یو میں طالبات کی ہراسانی،

اپاہج صوبائی اسمبلی ہو یا لینڈ مافیا،

نیٹکو کا مالی بحران ہو یا سماج میں فرقہ واریت،

ان سب بلاوں اور بیماریوں کا منبع آرڈر کے ذریعے گلگت بلتستان میں لاگو کیا گیا وہ نظام ہے

جو مقامی لوگوں سے انسانی حقوق چھین کر غلام بنا دیتا ہے،

زندگی سے خواب چھین کر وحشت بھر دیتا ہے،

کمانڈرز کو آزاد اور شہریوں کو قید کرتا ہے،

انسانیت چھین کر فرقہ واریت دیتا ہے،

اختیار کی جگہ بیساکھی دیتا ہے،

بیمار نظام کو بیمار لوگوں کے حوالے کرتا ہے اور

خرد کو جنون کے بھینٹ چڑھاتا ہے۔

پینٹگ میں ایک نظام کے قیدی تباہی کے راستے پر رواں دواں ہیں۔

ایسے سماج اور نظام کا انجام آدم خوری اور خون ریزی پر ہی ہوتا ہے۔

 آج گلگت بلتستان میں ریاستی ادارے شہریوں کی محافظ کی بجاۓ،

ان کے بنیادی سیاسی و انسانی حقوق کو سلب کرنے کے آلہ کار بن گئے ہیں۔

اب یہ نظام مکمل طور پر تباہ ہونے سے پہلے گلگت بلتستان کے لوگوں کی زندگی تباہ کرکے رکھ دے گا۔

میں تو صبح طلوع ہونے والے سورج کے کرنوں میں نور کی دھاریں کم اور خون کی دھاریں زیادہ دیکھ رہا ہوں۔

فلک نور کا کیس گلگت بلتستان میں آنے والے وقت اور حالات کی محض ایک ہلکی سی جھلک ہے جو اس کو اپنے محدود عینک سے دیکھ رہے ہیں،

وہ اس خون آشام نظام اور سوچ کا پہلے حصہ اور آخر میں شکاربن جائینگے۔

یہ بھی پڑھئے: گلگت بلتستان میں حیوانی معاہدہ


عزیزعلی داد کا تعلق گلگت-بلتستان سے ہے۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر ان کے مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عزیز برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہ چکے ہیں۔

The post خون آشام نظام appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15449/feed 0