Baam-e-Jahan

سرینہ ہوٹلز اور سٹاف کے مطالبات

سرینہ ہوٹلز اور سٹاف کے مطالبات

بشکریہ پراگریسیو گلگت بلتستان


جی ایم سرینہ ہوٹلز نارتھ اور اسکے چمچہ گیری کرنے والے انتہائی نالائق اور تعصبی آیچ آر نے مل کے گلگت بلتستان کےتمام سرینہ ہوٹلز کے سنئیر اور جونئیر سٹاف کو سالوں سے ذہنی مریض بنایا ہوا ہے اور ان کو حق دلانے کے بجائے اسلام آباد میں بیٹھے سی ای او اور انکی ٹیم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کئی سٹاف ممبرز جو کہ سالوں سے کام کر رہے تھے یا تو نکال دیا ہے یا پھر ادارے کے اندر بلیک لسٹ کر کے رکھ دیا ہے جسکا مطلب انکی ترقی نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ ایچ آر اور ذہنی مریضہ جی آیم کے نشانے پر ہونگے. آیچ آر اور جی آیم کی امتیازی سلوک کی وجہ سے کئی سٹاف ممبرز اسی سال مستعفی ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہیں. یاد رہے ان خواتین کی سروس سات سالوں سے بھی زیادہ تھی. گلگت سرینہ کے سٹاف کی طرف سے بار بار ایچ آر اور جی ایم کو ہٹانے کی درخواست اور کئی بار احتجاج کرنے کے باوجود سی ای او سرینہ ہوٹلز نے کبھی ایکشن نہیں لیا اور نہ ہی سالوں سے ان سٹاف سے ملنے کی زحمت کی ہے. کرونا وبا کے دوران کئی سٹاف جو کہ جی ایم اور ایچ ار کے نشانے پر تھے’ بڑی آسانی سے فارغ کر دیا گیا. پچلے سال ہنزہ سرینہ میں ملازم کا ایک ڈائریکٹر جو کہ اسلام آباد ہنزہ سرینہ چھوٹیاں بِتانے کے لئے آئے تھے معمولی تکرار پے باہر کر دیا جو کہ آٹھ سالوں سے اس ادارے میں کام کر رہے تھے. اس سے پہلے جی ایم نارتھ نے ہنزہ کے دو اور خواتین جو کہ مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہی تھی بلاوجہ فارغ کر دیا اور جب تک وہ ادارے کا حصہ تھے کام کرنے نہیں دیا. اسی سال پچلے دو مہینوں کے اندر پانچ سے زیادہ سینئر سٹاف مستعفی ہو چکے ہیں.کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی حساب کتاب نہیں. اس ادارے میں جنگل کا قانون چل رہا. جب بھی سٹاف اپنے حق اور ادارے کے اندر ہونے والے نا انصافیوں کی بات کرتے ہیں تو جی ایم اور ایچ آر ان سٹاف کو ٹارگٹ کرتے ہیں اور تنگ کرتے رہتے ہیں. یاد ریے ایچ آر سرینہ ہوٹلز ایک ناقابل اور انتہائی تعصب کرنے والا شخص ہے اور انہوں نے ادارے کو برباد کر دیا ہے. یہ ادارہ کراچی والوں کا تو تھا ہی اور اب پنجابی ٹھکاداروں کا ادارہ بن چکا ہے جو کہ کروڑوں کا کرپشن کر کے اپنا کام بھی یہاں کے سٹاف سے لے رہے. اِن سب کا زمہ دار صرف اور صرف جنرل منیجر سروت مجید جنکا تعلق کراچی سے ہے اور ایچ آر منینجر اعجاز ہیں جوکہ اس ادارے کو برباد کر رہا ہے اور انتہائی محنتی اور قابل سٹاف کو خاموشی سے استفٰی دینے پر مجبور کررہا ہے. بہت ہوا! اس سے زیادہ خاموش نہیں رہ سکتے.یہ کیسا اداراہ ہے جہاں سی ای او کروڑوں تنحوا لینے کے باوجود اپنے ادارے کے ساتھ مخلص نہیں.سال میں ایک بار موسم بہار کے مزے لینے آجاتا ہے اور پھر چوری چھپے بغیر کسی سٹاف سے ملے ہیلی میں واپس چلا جاتا ہے. اس سے زیادہ خاموشی اختیار نہیں کر سکتے ہمارے نوجوان جو دن رات اس ادارے کی خدمت کر رہے ہیں’ ٹاپ منیجمینٹ کی غلط پالسیوں کی وجہ مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے ہیں. ہم جماعتی اداروں کے اعلی عہدداران اور دیگر حقوق کی بات کرنے والے افراد سے گزارش کرتے ہیں کی جیسے آپ گورنمنٹ سے اپنے حقوق منوانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اسی طرح ان اداروں کے اندر آئے اور دیکھیں کیسے میرٹ کو پامال کیا جاتا ہے. کیسے مند پسند لوگوں کو پروموشنز اور فائدے دیے جاتے ہیں اور کیسے یہاں کے سٹاف کو تنگ کیا جاتا ہے. یہ ادارے ہمارے ہیں اور ہزہانس نے لوگوں کو معاشی طور پے مضبوط بنانے کے لئے بنائیں ہیں. باتیں بہت ہیں اگر اس بار بھی سی ای او نے سٹاف کے ساتھ ہونے والے ناانصافی کا ازالہ نہ کیا تو یہاں کے سٹاف مین سٹیریم میڈیا سے رجوع کریں گے اور گلگت بلتسان لیول پے اجتجاج کرنے پر مجبور ہو جاینگے. آپ کو اگر مزید معلومات چاہیے کہ کس سٹاف نے کب استعفا دیا ہے تو انباکس کریں اپکو پوری انفارميشن دی جائے گی. ہم میڈیا سے گزارش کرتے ہیں کہ ان اداروں کے سٹاف سے انٹرویوز کیا جائے اور انکے مشکلات کا گورنمنٹ لیول پے منسٹرز اور سی ایم صاحب نوٹس لے. کوئی سی ای او سے اتنا پوچھے کہ وہ یہاں کے سٹاف سے کیوں نہیں مل رہا. کیا وجوہات ہیں کہ بھاگ رہے ہیں. آخر میں اتنا کہنا ہے کہ یہ ادارہ ہمارا ہے, یہ علاقہ بھی ہمارا ہے جی ایم یہاں کا ہی ہونا چاہیے, ہمیں کوئی پنجابی اس ادارے کا ہیڈ قابل قبول نہیں کیونکہ وہاں سے جو بھی اتا ہے چمچہ بن کے ہی آتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے