Baam-e-Jahan

سیاحت، ماحولیات اور ہنزہ


تحریر: فرمان بیگ


وادی ہنزہ اپنی پرفضا قدرتی مناظر، بلند وبالا پہاڑوں، گلیشرز،  حیاتیاتی تنوع، جنگلی حیات اور معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے ساتھ سی پیک کا داخلی راستہ ہونے کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہیں۔

وادی ہنزہ کے مشہور سیاحتی مقامات میں بلتت (کریم آباد)، عطاء آباد جھیل اور درہ خنجراب چند ایک نمایاں نام ہیں۔

بلتت ہنزہ گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ مشہور سیاحتی مقام کا درجہ رکھتا ہے جو اسلام آباد سے تقریبا ٦٨۵ کلومیٹر اور گلگت شہر سے ڈھائی گھنٹے کے مسافت پر واقع ہے۔ بلتت کے اردگرد موجود سرسبز و شاداب باغات، اونچے برف پوش پہاڑ اور خوبصورت مناظر ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں بالکل اسی طرح جیسے کسی زمانے میں مری لوگوں کی توجہ کا مرکز ہواکرتا تھا ۔

خطہ اس وقت بری طرح موسمیاتی تبدیلی کی زد میں ہے جس کے اثرات گزشتہ کئی عرصے سے خصوصا ہنزہ میں بہت تیزی کے ساتھ ظاہر ہونے لگی ہیں۔ پہاڑی چوٹیوں میں موجود برف پگھل رہے ہیں بے موسم بارشوں اور برفباری سے سیلابی صورت حال سے دوچار ہے لوگوں کی اراضی ان سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں فصلوں اور باغات مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر سوکھ رہے ہیں۔

ہنزہ کے حسین نظاروں سے لطف اٹھانے کے لیے سیاحوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ سیاحتی شعبوں اور سی پیک کا داخلی روٹ ہونے  کی وجہ سے کاروبار کے وسیع مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ سیاحت کے شعبے کی ترقی کے لیے مواصلات کا نظام جیسا کہ  سڑکیں، بجلی، پینے کا صاف پانی، سیورج کا نظام، ریسٹورنٹ اور عمارتین بنیادی چیزیں ہیں مگر دولت کے حرص میں بنیادی انفراسٹکچر کی عدم موجودگی کے باوجودسیاحت سے پیدا معاشی مواقع سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی غرض سے سرمایہ کار عموماً عمارتوں کی تعمیر کی حکمت عملی پر عمل کررہی ہیں جس کے کئی سماجی ماحولیاتی اور انتظامی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

دوسری طرف خطہ اس وقت بری طرح موسمیاتی تبدیلی کی زد میں ہے جس کے اثرات گزشتہ کئی عرصے سے خصوصا ہنزہ میں بہت تیزی کے ساتھ ظاہر ہونے لگی ہیں۔ پہاڑی چوٹیوں میں موجود برف پگھل رہے ہیں بے موسم بارشوں اور برفباری سے سیلابی صورت حال سے دوچار ہے لوگوں کی اراضی ان سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں فصلوں اور باغات مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر سوکھ رہے ہیں۔

مگر المیہ یہ ہے کہ ہنزہ کے سیاحتی مقامات، خوبصورت نظاروں اور قدرتی وسائل کو غیر مقامی افسر شاہی، غیر منتخب سماجی، ثقافتی اور بااثر مراغات یافتہ حلقوں کی مدد سے سرمایہ داروں کو بغیر کسی روک ٹھوک کے مواقع فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔

 جہاں سرمایہ کار علاقائی رواجوں، ماحولیاتی اصولوں اور بنیادی ضروریات کو خاطر میں لائے بغیر کنکریٹ سے بھرے عمارتوں کی تعمیرات میں مصروف ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات اور خدمات جیسے تعلیم ، صحت ، بجلی ، پینے کا صفاف پانی وغیرہ کی نجکاری کے انتہائی بدصورت اور وحشیانہ نظام زر کےجکڑ بندیوں کا شکار بنایا جارہا ہے۔

آج وادی ہنزہ میں وہی کچھ ہورہا ہیں جوماضی میں مری کے پرفضا مقام میں ہوتا رہا ہیں موسمیاتی تبدیلی سے ابتر ہوتی ہوئی صورتحال، بے ہنگم سیاحت کی وجہ سے آمدورفت میں اضافہ اور چوبیس گھنٹے بجلی حاصل کرنے کے لیے جنریٹرز کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔

ہنزہ کی مراغات یافتہ اشرافیہ نے تعلیم صحت کو پرائیوٹ کاروبارکے ہاتھوں بیچنے، تاریخی ورثہ اور اجتماعی اثاثوں کو اجاراہ داروں کے حوالےکرنےکے بعد اب قدرتی وسائل یعنی پانی، دریا، گلیشرز اور معدنیات بھی ان بڑے غیر مقامی اور بااثر سرمایہ داروں کے حوالہ کرنا چاہتی ہے۔

آج وادی ہنزہ میں وہی کچھ ہورہا ہیں جوماضی میں مری کے پرفضا مقام میں ہوتا رہا ہیں موسمیاتی تبدیلی سے ابتر ہوتی ہوئی صورتحال، بے ہنگم سیاحت کی وجہ سے آمدورفت میں اضافہ اور چوبیس گھنٹے بجلی حاصل کرنے کے لیے جنریٹرز کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔

 وہی عمارتوں کی تعمیر سے متعلق قوانین کے فقدان عوامی نمائندوں پر مشتمیل بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی، آفسر شاہی تمام تر اختیارات کے مالک و مختار ، عوامی سطح پر عدم دلچسپی اور لاشعوریت، منتخب عوامی نمائندوں کی مبہم ترجیحات، سول سوسائٹی اور بااثر مراعات یافتہ اشرافیہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری جیسے صورت حال کے ہوتے ہوئے ہنزہ کے مشہور سیاحتی مقامات بلتت اور عطاء آباد جھیل کے کناروں پر کنکریٹ کے جنگل کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہیں۔ وہی مقامی آبادی کے ضررویات کے لیے موجود انفراسٹکچرز مثلا پینے کا صاف پانی، بجلی، نکاسی آب کے نظام پر اضافی بوجھ ڈالا جا رہا ہیں۔

بے ہنگم سیاحت اور ہوٹلوں سے نکلنے والے گند ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں اکثریت نئے تعمیراتی ڈھانچے ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار اور باآثر افراد کررہے ہیں جو یہاں ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس کھول کر ہنزہ کو ماحولیاتی طور پر تباہ و برباد کرنےکے درپے ہیں جن میں مشہور چین ہوٹلز بھی شامل ہیں۔

 بے ہنگم سیاحت اور ہوٹلوں سے نکلنے والے گند ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں اکثریت نئے تعمیراتی ڈھانچے ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار اور باآثر افراد کررہے ہیں جو یہاں ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس کھول کر ہنزہ کو ماحولیاتی طور پر تباہ و برباد کرنےکے درپے ہیں جن میں مشہور چین ہوٹلز بھی شامل ہیں۔

ان میں ایک مشہور چین ہوٹل نے خاص طور پر بلتت میں اپنے آپ کو اتنا پھیلایا ہےکہ اب یہ ایک دیو کی طرح بیٹھ کر وادی کے قدرتی نظاروں کا ایک بڑا حصہ ہاک کر چکا ہے۔

ہوٹلوں کو چوبیس گھنٹے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے  جنریٹرز کے استعمال سے پیدا شور اور تیل کے جلنے سے دھواں و گردغبار سے نہ صرف مقامی باشندوں کے صحت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں، بلکہ یہ موسم کی حدت میں اضافے کا سبب بھی بن رہا ہے۔

 دیہی زرعی زمینوں، باغات پر کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے ہوٹل مافیا کی منافع کی ہوس تو پوری ہوجائے گی مگر جب سانس لینے کے لئے آکسیجن کی قلت ہوگی تو لوگ اپنی وسائل سے آکسیجن راشن میں لینے پر مجبور ہوں گے ۔

 گلیشرزکے پگھلنے کے رفتار میں تیزی آرہی ہے سیلابی ریلوں سے مقامی آبادی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔

اسی طرح عطاء آباد جھیل کے کنارے تعمیرشدہ ہوٹلوں سے نکلنے والے گٹر کا پانی جھیل کے صاف وشفاف پانی پر رسی کی طرح ایک لمبی لکیر ڈال چکی ہیں۔

جہاں بلتت کے قدرتی نظاروں کو اس دیو قامت کنکریٹ کے ڈھانچے نے چھپایا ہے وہی عطاء آباد جھیل کے اندر غرق آب آئین آباد کے مکینوں کے پیاروں کے قبروں پر بننے والے جھیل کے نظارے اور فطرت کے مناظر سے لطف اٹھانے کے لیے آنے والے لوگوں کو ان مہنگے ترین ہوٹلوں میں داخل ہونے کے لیے اضافی فیس ادا کرنا پڑ رہا ہیں جنھوں نےہنزہ کے قدرتی وسائل کو بھی اپنا ملکیت بنایا ہوا ہیں۔

 مگربدقسمتی سے ہماری مجموعی صورت حال اس مرے ہوئے مردے  کی طرح ہے جس کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے مال دولت کون لےکر جارہا ہے۔

اس لیے نہیں کہ وہ یہاں کے مقامی کمیونٹی کی مدد کررہے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ اس موقع سے بھر پور معاشی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

سرمایہ دار کو زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول میں دلچسپی ہیں نہ انھیں موسمیاتی تبدیلی کی فکر ہیں نہ مقامی ثقافت، رواج اور قوانین سے غرض ہیں انھوں نے یہ دیکھنا ہے کہ منافع میں کس طرح اضافہ کیاجاسکتا ہے جس کے لیے چاہے انفراسٹرکچر کسی کچے پہاڑی پر کیوں نہ بنے وہ اپنے تمام وسائل استعمال میں لاکر اپنے اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 دیہی زرعی زمینوں، باغات پر کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے ہوٹل مافیا کی منافع کی ہوس تو پوری ہوجائے گی مگر جب سانس لینے کے لئے آکسیجن کی قلت ہوگی تو لوگ اپنی وسائل سے آکسیجن راشن میں لینے پر مجبور ہوں گے ۔

اب یہ ان باشعور حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ آج کے لیے نہیں بلکہ اپنے  آنے والے کل کے نسلوں کا سوچیں جنھوں نے اس فضائی ماحول میں ستر سے اسی سال جینا ہے جب کہ دنیا میں ہر سال 70 لاکھ اور پاکستان میں 1 لاکھ 28 ہزار براہ راست اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں جس کی تین بڑی وجوہات گاڑیوں، فیکٹریوں اور جلنے والے کچرے سے نکلنے والا دھواں ہے۔

 مگربدقسمتی سے ہماری مجموعی صورت حال اس مرے ہوئے مردے  کی طرح ہے جس کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے مال دولت کون لےکر جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے