تحریر:عزیزعلی داد

یہ غالباً دو ہزار دس کی بات ہے میں کچھ دوستوں کے ساتھ ایک معروف ادارے میں فیض احمد فیض کے بارے میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شریک تھا۔ اس میں پاکستان کے نامی گرامی ادیب مقررین کے پینل میں شامل تھے۔ ان میں سے ایک ادیب فیض سے اپنے تعلق بتا رہے تھے۔ دوران تقریرانھوں نے جب یہ کہا "جب فیض لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے ۔” تومیرے پہلو میں بیٹھے پاکستانی سماج سے تنگ آئے ہوئے ایک جگری دوست نےفورا کہا۔ "لندن میں جلاوطنی کی زندگی کاش ہمیں بھی نصیب ہوتی۔ مگر یہ ہمارے نصیب میں نہیں۔ پاکستان میں یہ بڑے لوگوں کا کام ہے۔”
تب مجھے اندازہ ہوا کہ بعداز نوآدباتی دور میں جلاوطنی کےمعنی یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں جلاوطنی کے نام سے مشقت، جبر اور تشدد کے تصورات ذہن میں ابھرتے تھے۔ جلاوطنی کی خوفناک زندگی کا جیتا جاگتا استعارہ کالا پانی کا جزیرہ تھا، جہاں سےکوئی دنیا میں بمشکل ہی واپس لوٹ سکتا تھا۔
نوآبادیاتی دور میں جلاوطنی کے نام سے مشقت، جبر اور تشدد کے تصورات ذہن میں ابھرتے تھے۔ جلاوطنی کی خوفناک زندگی کا جیتا جاگتا استعارہ کالا پانی کا جزیرہ تھا، جہاں سےکوئی دنیا میں بمشکل ہی واپس لوٹ سکتا تھا۔
اسی طرح زار روس کے دور میں سائبیریا میں جلاوطنی موت کی وادی کی طرف پہلا قدم ہوتا تھا۔ جلاوطنی کے لئے تیار کئے گئے یہ دور افتادہ جزیرے اور علاقے دراصل دنیا میں ہی زندہ لوگوں کے لیے بنائے گئے جہنم تھے۔ آج کل جو لوگ مغرب میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو جلا وطن قرار دیتے ہیں، تو وہ ایک مضحکہ خیز کیفیت کو جنم دیتے ہیں۔ ایسے جلاوطن لوگوں کا جلاوطن کے لفظ کا استعمال ذہن میں کسی خوف ناک زندگی کا تصور پیدا نہیں کرتا، بلکہ چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔کہاں مولانامحمد جعفر تھانسیری کی کالا پانی میں جلا وطنی میں گزاری ہوئی کرب ناک زندگی اور کہاں الطاف حسین کی لندن میں جلاوطنی کی زندگی۔
زار روس کے دور میں سائبیریا میں جلاوطنی موت کی وادی کی طرف پہلا قدم ہوتا تھا۔ جلاوطنی کے لئے تیار کئے گئے یہ دور افتادہ جزیرے اور علاقے دراصل دنیا میں ہی زندہ لوگوں کے لیے بنائے گئے جہنم تھے۔
مندرجہ بالا باتوں سے پس یہ ثابت ہوتا ہے کہ جلاوطنی کے لفظ سے روایتی معنی کشید ہوچکے ہیں۔یہ لفظ اب اس لیموں کی مانند ہو گیا ہے جس سے سارا رس کشیدہ گیا ہو۔ مطلب جلاوطنی کا لفظ اس چھلکے کی طرح رھ گیا ہے جس کے اندر سے پھل نکل چکا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ چھلکے کو دکھا کر لوگوں کو پھل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
پینٹنگ- موت کا مکان: زار روس کے دور میں سائبیریا میں جلاوطنی۔
آرٹسٹ: ڈینیل بیئر ایلن لین