تحریر۔عرفان خان
سال 2004ء سے 2022ء کے دوران ریاست پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ 8 مرتبہ امن مذاکرات کئے ۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں 3 مرتبہ امن معاہدوں پر دونوں جانب سے دستخط کئے گئے جن میں 3 بڑے امن معاہدوں میں شکئی معاہدہ، سراروغہ معاہدہ اور سوات امن معاہدہ شامل ہیں۔ اگرچہ ان 3 معاہدوں کے علاوہ دیگر غیر تحریری معاہدے بھی ہوئے تاہم یہ تمام معاہدے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اکتوبر2021ء میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ شروع ہونے والا مذاکراتی عمل جون 2022ء سے تعطل کا شکار ہے۔

شکئی معاہدہ (نیک محمد)
سابق لیفٹیننٹ جنرل علی محمد جان اورکزئی نے اپنی کتاب ”Beyond Tora Bora میں لکھا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین نے 27 سال کے نیک محمد سے ملاقات کی۔ بعد میں اس ملاقات کی کہانی شکئی معاہدہ کے نام سے سامنے آئی جو پاکستان مخالف تنظیم کے ساتھ سب سے پہلے مذاکرات تھے جسے شکئی معاہدہ بھی کہتے ہیں۔ حکومت نے 24اپریل 2004 کو یہ معاہدہ پاکستان میں ڈرون حملے کے پہلے شکار کالعدم تنظیم کے بانی نیک محمد کے ساتھ کیا تھا۔ نیک محمد پر الزام تھا کہ ان کی پناہ میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عرب، ازبک، چیچن اور افغان جنگجو تھے جبکہ افغان طالبان سے منسلک افراد بھی شامل تھے۔ جو افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کر رہے تھے۔ پاکستان نے نیک محمد کو مذاکرات کی پیشکش کی جسے نیک محمد نے قبول کیا۔
شکئی امن معاہدے کے مطابق پاکستان نے یہ شرط قبول کی کہ وہ نیک محمد کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کرے گا جبکہ فوجی آپریشن کے دوران ہونے والے نقصان کے ازالے کیلئے مقامی افراد جن میں جنگجو شامل ہیں کو رقم دی جائے گی۔ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے شدت پسندوں کو رقم دی گئی تاہم غیر ملکی جنگجووں کو فوج کے حوالے کرنے سے انکار کیا گیا۔ اس معاہدہ میں ریاست پاکستان نے نیک محمد سے بیرون ممالک سے وزیرستان میں پناہ لئے ہوئے جنگجو عرب، ازبک اور چیچن کو حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ابتداء میں نیک محمد نے بیرون ممالک کے جنگجو حکومت کے حوالے کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی تاہم بعد میں وہ اپنے وعدہ سے مکر گئے جس کے بعد حکومت نے جون 2004ء میں آپریشن شروع کیا۔ اسٹیوکول نے اپنی کتاب ’ڈائریکٹوریٹ ایس‘ میں لکھا ہے کہ شکئی معاہدہ ختم ہونے کے ایک ماہ بعد نیک محمد کو ڈرون سے اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے سیٹلائیٹ فون پر کسی سے گفتگو کر رہے تھے۔

سراروغہ معاہدہ (بیت اللہ محسود)
فروری 2005ء کو6 شقوں پر مشتمل سراروغہ معاہدہ بیت اللہ محسود کے ساتھ کیا گیا۔ اس سے قبل ریاست پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کو بعد میں امن معاہدہ کی شکل دی گئی۔ سراروغہ معاہدہ کی ناکامی نے نہ صرف مسلح تنظیموں کو یکجا اور مضبوط کیا بلکہ بیت اللہ محسود کی سربراہی میں تحریک طالبا ن پاکستان چپٹر کا اعلان بھی کیا گیا۔ سراروغہ معاہدہ کے تحت بیت اللہ محسود نے حکومتی اہلکاروں اور دفاتر پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی اور یہ بھی کہ وہ غیر ملکی شدت پسندوں کو پناہ فراہم نہیں کریں گے۔ جبکہ اس کے بدلے میں انہوں نے اپنے اورساتھیوں کیلئے معافی کے اعلان کی شرط رکھی۔ ریاست پاکستان اس معاہدے کے ذریعے طالبان کا دیگر علاقوں تک پھیلاؤ روکنا چاہتی تھی مگر اس مقصد میں کامیابی نہ مل سکی۔ مسلح تنظیموں اور حکومت کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کاروائیوں میں نہ صرف اضافہ ہوتا گیا بلکہ خودکش حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ بیت اللہ محسود گروپ کی جانب سے سراروغہ میں واقع سکاؤٹس قلعے پر حملے کے بعدمعاہدہ بھی ٹوٹ گیا۔ اور یوں دوسرا بڑا امن معاہدہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ بیت اللہ محسود کو اگست 2009 میں امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ مگر وہ حکیم اللہ محسود کیلئے مضبوط تحریک طالبان پاکستان چھوڑ گئے۔ بعد میں یہاں آپریشن راہ نجات کرتے ہوئے علاقے کو کلیئر کرنا شروع کیا۔
سوات امن معاہدہ (ملا فضل اللہ)
دلفریب وادی سوات میں 2001ء سے شدت پسندی سر اٹھارہی تھی جبکہ اس دوران تحریک نفاذ شریعت دن بدن نئی قوت کے طور پر ابھر رہی تھی۔ اس علاقہ میں ملا ریڈیو کے نام سے مشہور ملا فضل اللہ حکومت اور فوج کے خلاف ایف

ایم ریڈیو پر خطبے دیتے۔ ملا فضل اللہ کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا اور وہ سوات سمیت پورے ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ریاست اور ملا فضل اللہ کے درمیان 16 نکات پر مشتمل تیسراامن معاہدہ 21 مئی 2008ء کو سوات میں ملا فضل اللہ کے ساتھ ہوا۔ تاہم معاہدے کے چند دن بعد ہی ملا فضل اللہ اور صوفی محمد نے ہتھیاڑ ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پہلے سکیورٹی فورسز ان علاقوں سے نکلے اور ان کے گرفتار کئے گئے ساتھیوں کو پہلے رہا کیا جائے۔ اگر چہ اس وقت کی خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے سوات میں طالبان کی شریعت پر مبنی ’نظام عدل‘ نافذ کرنے پر امادگی بھی ظاہر کی تھی ھی۔ جس کے بعد ملا فضل اللہ نے سیز فائر کا اعلان کیا تاہم یہ معاہدہ بھی ناکام ہو گیا۔ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد سوات میں تشدد اور خونریزی کے واقعات بڑھ گئے اور طالبان سوات سمیت بونیر اورشانگلہ تک پھیل گئے جو دارلحکومت اسلام آباد سے صرف 60 کلومیٹر کی دوری پر تھے۔ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد حکومت نے سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن راہ حق شروع کیا۔ آپریشن کے بعد ملا فضل اللہ اپنے ساتھیوں سمیت سوات سے قبائلی اضلاع اور پھر افغانستان فرار ہوگئے۔ افغانستان فرار ہونے والے ملا فضل اللہ کو 2018ء میں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں امریکی ڈرون حملہ کا نشانہ بنایا گیا۔
حافظ گل بہادر کیساتھ غیر تحریری معاہدہ
ان معاہدوں کے علاوہ بھی ریاست پاکستان نے شمالی وزیرستان میں مختلف گروپ کیساتھ غیر تحریری معاہدے کئے جو ناکام ثابت ہوئے۔ ان معاہدوں میں ایک غیر تحریری معاہدہ 2006ء میں شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر کیساتھ کیا گیا۔ گل بہادر شوری مجاہدین گروپ کی سربراہی کر رہے تھے اور ان پر افغانستان میں حملوں کا الزام تھا۔ اس معاہدہ میں سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف کاروائیاں نہ کرنے کی شرط رکھی گئی تھی۔ یہ معاہدہ 2008 میں دوبارہ کیا گیا اور اس گروپ نے سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں روک دیں۔ تاہم 2014 میں جب پاکستان نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز کیا تو حافظ گل بہادر گروپ نے اس آپریشن کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ افغانستان میں اپنی کارروائیاں روک کر پاکستان میں کاروائیاں کریں گے۔

منگل باغ کیساتھ معاہدہ
2008ء ہی میں ضلع خیبر میں لشکر اسلام کے منگل باغ اور انصار الاسلام کے قاضی محبوب کے ساتھ بھی امن معاہدہ
کیا گیا لیکن یہ معاہدہ بھی زیادہ دیر تک نہیں چل سکااور ریاست کو ان کے خلاف آپریشن صراط مستقیم شروع کرنا
پڑا۔
مولوی فقیر محمد
سال 2008ء میں ریاست پاکستان نے باجوڑ کے مولوی فقیر کے ساتھ بھی امن معاہدہ کیا مگر یہ معاہدہ بھی ناکام ثابت ہوا جس پر ان علاقو ں سے مسلح تنظیموں سے خالی کرانے کے لئے آپریشن شیر دل شروع کرنا پڑا۔
سال 2013ء کا امن معاہدہ
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی ایک اور کوشش 2013 میں بھی کی گئی تھی مگر وہ مذاکرات کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے اور مذاکرات کے ناکامی پر ایک بار پھر فوجی آپریشن شروع کردیا گیا تھا۔ 2014ء میں شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت خیبر کو مسلح تنظیموں سے پاک کرنے کےلئے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا جس میں سکیورٹی فورسز نے کامیابی حاصل کرتے ہوئے مسلح تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس جنگ میں سکیورٹی فورسز نے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی جس کو یاد رکھا جاتا ہے۔
ٹی ٹی پی کیساتھ آخری مذاکرات
اکتوبر2021ء میں ریاست پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان سے شروع ہونے والے مذکرات کا طریقہ کار تبدیل کیا۔ سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور سابق کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے مذاکراتی عمل شروع کیا۔ اس بار تین مختلف طریقہ سے تین وفود کے ذریعے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا گیا۔ پہلا وفد اعلیٰ عسکری حکام پر مشتمل تھا، دوسرا وفد قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ماضی اور موجودہ منتخب عوامی نمائندے، ملکان اور مشران پر مشتمل تھا جبکہ تیسرا وفد مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں علماء پر مشتمل تھا۔ تحریک طالبان پاکستان میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے شمالی و جنوبی وزیرستان، مہمند، باجوڑ، اورکزئی اور خیبر سے شامل افراد سے بات چیت کے لئے ان علاقوں سے ماضی اور موجودہ منتخب عوامی قیادت، مشران پر مشتمل وفد افغانستان بھیجے گئے جبکہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان سے مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں علماء کا وفد بھی بھیجا گیا۔ افغانستان میں امارت اسلامی کی حکومت میں شامل حقانی گروپ کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے تحریک طالبان پاکستان اور ریاست پاکستان کو مذکرات کی میز پر بٹھانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود کو مذکرات پر آمادہ کیا۔ پاکستان نے علماء کی خدمات اس لئے حاصل کیں کہ بیشتر طالبان کے رہنماء ان مدارس سے فارغ التحصیل ہیں اور ان علماء کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امکان یہ ظاہر کیا جارہاتھا کہ پاکستانی علماء ان کے مدارس سے فارغ التحصیل طالبان کو مذاکرات پر راضی کرلیں گے۔ اگر چہ ٹی ٹی پی میں شامل بعض تنظیموں کے سربراہ ان مذاکرات کے حق میں نہیں تھے مگر پھر بھی ایک سال سے زائد عرصہ یہ کوششیں جاری رہیں۔ اس بار ٹی ٹی پی اور ریاست پاکستان کے مذاکرات کے لئے دونوں جانب سے سخت ترین شرائط سامنے آئے تھے مذکراتی عمل کے دوران یہ خبر بھی سامنے آئی کہ ٹی ٹی پی قبائلی اضلاع کی پرانی حیثیت بحال رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ پاکستان نے شرط رکھی کہ طالبان بے غیر اسلحہ کے پاکستان میں رہائش رکھیں گے اور انہیں لائسنس یافتہ اسلحہ دیا جائے گاجبکہ نادرا میں ان کا ریکارڈ بھی ہوگا جس سے طالبان نے انکار کیا۔ طالبان نے شرط رکھی کہ سکیورٹی فورسزقبائلی اضلاع خالی کریں گے، وزیرستان ہمارے کنٹرول میں ہوگا۔ اس شرط پر پاکستان نے کچھ حد تک اتفاق کیا تاہم جون 2022ء سے ریاست پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے۔

عرفان خان سینئر صحافی اور اینکر پرسن ہے۔ جو کہ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ بطور اینکر پرسن اور تجزیہ نگار کام کر رہےہیں۔ وہ سیاست، پارلیمانی امور اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔