2018ء کے انتخابات میں سندھ اور بلوچستان مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر اپنے تحفظات کے ساتھ گئے۔ 2013ء سے 2018ء کے درمیان خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ رہنے والے پرویز خٹک نے بھی اسمبلی اور حکومت کی آئینی مدت کے اختتام سے قبل مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپنا وزن سندھ اور بلوچستان کے پلڑے میں ڈال دیا یوں ایک صوبہ ایک طرف اور تین صوبے دوسری طرف تھے۔
تحریر: حیدر جاوید سید
لگ بھگ سال بھر سے بالعموم اور سپریم کورٹ میں سی سی پی او (اس وقت کے) لاہور کی درخواست کی سماعت کرنے والے 2 رکنی بنچ کی سفارش پر لئے گئے پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس کےبعد ان سطور میں تواتر کے ساتھ یہ عرض کرتا آ رہا ہوں کہ فریقین کے ساتھ عدالت بھی جس اہم نکتہ کو نظر انداز کر رہی ہے وہ ہے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق 2023ء کے انتخابات کا نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر انعقاد۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رُکئے ۔ ایک گلاس ٹھنڈا پانی پیجئے۔ 2017ء کی مردم شماری متنازعہ ہوگئی تھی سب سے زیادہ قانونی اعتراض سندھ حکومت کے تھے ان اعتراضات پر 15 فی صد بلاکس میں دوبارہ مردم شماری کی تجویز دی گئی بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔
2018ء کے انتخابات میں سندھ اور بلوچستان مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر اپنے تحفظات کے ساتھ گئے۔ 2013ء سے 2018ء کے درمیان خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ رہنے والے پرویز خٹک نے بھی اسمبلی اور حکومت کی آئینی مدت کے اختتام سے قبل مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپنا وزن سندھ اور بلوچستان کے پلڑے میں ڈال دیا یوں ایک صوبہ ایک طرف اور تین صوبے دوسری طرف تھے۔
2018ء میں تحریک انصاف کو اقتدار میں لایا گیا بعد ازاں مشترکہ مفادات کونسل نے متفقہ فیصلہ کیا کہ آئندہ انتخابات (2023ء) نئی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے جب دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے از خود نوٹس لیا تو عرض کیا، دونوں اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کی گئی ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی سمری میں موجود قانونی سقم کو ابتداء میں دیکھ لیا جائے۔
قانونی سقم یہ تھا کہ ” کیا اسمبلی کسی پیشگی معاہدہ کے تحت تحلیل کرنے سے آئینی تقاضے پورے ہوتے ہیں؟ ” دوسرا نکتہ یہ اٹھایا تھا کہ اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 5 سالہ آئینی مدت کے لئے ہونے ہیں تو پھر ان پر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کا اطلاق ہوگا۔
باقی ماندہ مدت کے لئے دوبارہ انتخابات کے لئے اسمبلی کی تحلیل کے آئینی عمل میں خاموشی ہے۔ افسوس کہ نہ تو فریقین نے ان نکات کو مد نظر رکھا نہ ہی ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جبکہ میں مسلسل عرض کرتا رہا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت دستور و قانون کے مطابق معاملات کو دیکھنے کی بجائے سہولت کاری کے جس راستے پر تیزی سے دوڑ رہی ہے اس سے آئینی بحران جنم لینے کا اندیشہ ہے۔
بار دیگر عرض کر دوں 2023ء کے انتخابات کو ہر صورت مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق نئی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر ہی ہونا ہے۔ اس سے سوا راستہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ حکومت الیکشن کمیشن یا کوئی عدالت مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی فیصلے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
ان سطور میں مئی اور جون کے مہینوں میں پھر سے صورت حال پر متوجہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ چونکہ 31 مئی تک مردم شماری کے نتائج کا حتمی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا اس لئے نئی حلقہ بندیاں شروع نہیں ہو پائیں۔
حکومت کے پاس اب دو ہی راستے ہیں اولاً یہ کہ آئینی ترمیم لائے تاکہ انتخابات مقررہ وقت پر پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر منعقد ہوں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ حکومت اسمبلیوں کی مدت 6 ماہ آگے لے جائے اس طرح حلقہ بندیوں کے لئے چار سے ساڑھے چار ماہ کا وقت مل جائے گا۔
2023ء کے انتخابات کو ہر صورت مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق نئی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر ہی ہونا ہے۔ اس سے سوا راستہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ حکومت الیکشن کمیشن یا کوئی عدالت مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی فیصلے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
پہلے کام یعنی آئینی ترمیم کے راستہ میں خود اسمبلی کی عددی پوزیشن حائل ہے۔ قومی اسمبلی کے مستعفی ارکان میں سے زیادہ تر کے معاملے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔
ضمنی انتخابات کے خلاف حکم امتناعیوں کی بھی بھر مار ہے۔ دوسرے راستے پر عمل کی صورت میں مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری کر کے حلقہ بندیوں کا عمل شروع بھی کیا جائے تو یہ کام بجٹ کے بعد شروع ہوگا۔
مثال کے طور پر اگر بہت جلد بھی شروع ہوتا تو 15 جولائی سے قبل ممکن نہیں تھا 15 جولائی سے حلقہ بندیوں کے آغاز کا مطلب یہ ہوتا کہ یہ کام تقریباً 15 نومبر تک مکمل ہوتا اس کے بعد 90 دن میں الیکشن کرانے ہوتے یہ فروری میں ہوتے 60 دن کی صورت میں جنوری میں۔
سیاسیات و صحافت کے طالب علم کے طور پر میرا تجزیہ یہی تھا (جو ان سطور میں قبل ازیں عرض بھی کیا) کہ عام انتخابات 25 فروری سے 10 مارچ کے درمیان ہی ممکن ہیں یعنی معاملہ 6 ماہ آگے لے جانے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہوگی۔
یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا اسمبلی کی مدت میں اضافے کے لئے محض ایک قرار داد کافی ہوگی یا قانون سازی کی ضرورت پڑے گی۔
پچھلے مہینہ بھر سے حکمران اتحاد کی بڑی جماعت (ن) لیگ کے اہم وزراء ملی جلی باتیں کرتے دیکھائی دیئے۔ کچھ وزراء کہتے تھے انتخابات پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ کچھ کے خیال میں ابھی چونکہ فیصلہ نہیں ہوا اس لئے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اس موضوع پر سب سے زیادہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک دوسرے وفاقی وزیر احسن اقبال نے بات کی تبھی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ احسن اقبال مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور رانا ثناء اللہ صوبائی صدر ایک عامل صحافی کی حیثیت سے ان کے بیانات کو، بس بیانات سمجھنا کم از کم میرے لئے بہت مشکل ہے۔
بار بار یہ سوال ان سطور میں پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا آ رہا ہوں کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے (انتخابات کے حوالے سے ) کے برعکس جانے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے گی۔ آئین دو تہائی کی اکثریت سے آئینی ترمیم کی گنجائش دیتا ہے۔ میرے بعض پڑھنے والے اور کچھ صحافی دوست سال سوا سال سے میری اس رائے سے اختلاف کر رہے ہیں۔
کہ تحریک انصاف جس کے دور اقتدار میں مشترکہ مفادات کونسل کا متفقہ فیصلہ ہوا وہ بھی فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے بدنیتی کا شکار تھی۔ دیگر وجوہات کے ساتھ قومی اسمبلی سے اس کے ارکان کے مستعفی ہونے کو بدنیت پروگرام کا ہی حصہ سمجھتا ہوں۔
یہ سطو لکھتے وقت میرے سامنے وزیراعظم کے دو حالیہ بیانات ہیں وزیراعظم کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ کیسے کیا قانون سازی کی جائے گی۔ یا پھر اسمبلی کی مدت بڑھالی جائے گی۔ کوئی تیسرا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو وہ کیا ہوگا یا ہوسکتا ہے؟
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسمبلیاں اگر 9 اور 10 اگست کی درمیانی شب تحلیل بھی کر دی جاتی ہیں تو انتخابات نومبر میں نہیں ہو سکیں گے۔ ایک صورت ہو سکتی ہے حکومت کے خاتمے کے بعد صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پرانی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا اعلان کیا جائے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسمبلیاں اگر 9 اور 10 اگست کی درمیانی شب تحلیل بھی کر دی جاتی ہیں تو انتخابات نومبر میں نہیں ہو سکیں گے۔ ایک صورت ہو سکتی ہے حکومت کے خاتمے کے بعد صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پرانی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا اعلان کیا جائے۔
صدارتی آرڈیننس کی مدت 90 دن ہوتی ہے۔ تین ماہ میں انتخابی عمل مکمل کرا کے نئی اسمبلی آرڈیننس کو قانون کی شکل دے دیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ معاملہ نئی حلقہ بندیوں کی طرف جائے گا اس کی مختلف وجوہات ہیں۔
اہم ترین مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو پھر لگ بھگ 15 دسمبر تک حلقہ بندیاں ہوں گی۔ 90 دن میں انتخابات کا مطلب 15 مارچ کو انتخابات یا پھر وہی تاریخ جو بالائی سطور میں عرض کی کہ 25 فروری سے 10 مارچ کے درمیان قومی انتخابات کا انعقاد۔
مارچ میں سینیٹ آف پاکستان کے نصف ارکان سبکدوش ہوجائیں گے انتہائی ضروری ہے کہ اس سے پہلے سینیٹ ارکان کے چناؤ کا الیکٹوریل کالج صوبائی اسمبلیاں منتخب ہوچکی ہوں ورنہ آئینی بحران پیدا ہوگا۔
مکرر آپ کی خدمت میں یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ اگر نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات ہونے ہیں تو یہ فروری مارچ 2024ء میں ممکن ہیں۔ پرانی حلقہ بندیوں پر نومبر میں ہو سکتے ہیں لیکن اگر فروری مارچ 2024ء میں انتخابات کسی بھی وجہ سے نہیں ہو پاتے تو پھر یہ کم از کم دو سال ہوتے دیکھائی نہیں دیتے۔
حرف آخر یہ ہے کہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جانا چاہیے جو آئین سے انحراف کے زمرے میں آتا ہوں (یہ الگ بات ہے کہ اس ملک میں آئین سب سے بے بس و لاچار چیز ہے) سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آئین کی حفاظت کریں ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے دستور گریز قوتوں کو کھیل کھیلنے کا موقع ملے اور انتخابی عمل ایک خواب بن کر رہ جائے۔

مصنف کے بارے میں:
حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔