Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان: سچ کی قربان گاہ

عزیز علی داد

علم بشریات کامطالعہ قربانی کے بکرے بننےکی نفسیات پر ہمیں اچھی طرح آگاہی فراہم کرتا ہے۔ قدیم زمانے میں بلاد الشام کے معاشروں کو جب گناہوں اور بدی کی قوتوں سے پاک کرنا ہوتا تھا تو ایک بکرےکو پکڑا جاتا تھا، اور مندر کا مذہبی رہنما اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا تھا تاکہ بدی کی بساری قوتیں اس میں منتقل ہوسکیں۔ بعد میں اس جانور کو بیابان میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور یہ تصور پائے جاتے تھے کہ معاشرہ اب گناہوں اور بدی سے پاک ہو چکا ہے۔

تحریر: عزیز علی داد


سبق: ذبح شدہ سچ جھوٹ کی حلال خوراک ہے۔

بزدل معاشروں کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں حقیقت کاسامنا کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔ ان کی ہمیشہ کوشش رہتی ہےکہ وہ حقیقت سے دور رہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ جھوٹ میں پناہ لیتے ہیں اور اسی پناہ گاہ میں بیٹھ کر کسی قربانی کے بکرے کو تلاش کرتے رہتے ہیں تاکہ اس کو جھوٹ کے دیوتا کےحضور میں قربانی کے لیے پیش کیا جا سکے۔

جھوٹ کا آدم خور دیوتا انسانوں کےخون کا اتنا پیاسا ہوتا ہےکہ وہ ہر وقت سچ کی قربانی طلب کرتا ہے کیونکہ ذبح شدہ سچ جھوٹ کی حلال خوراک ہے۔ اس طرح معاشرے کے مقتدر حلقوں اور لوگوں کی ساری زندگی اس سچ کی قربانی کی تلاش اور اس کوذبح کرنے میں گزر جاتی ہے۔ یوں ایسا معاشرہ ایک خون آشام منحوس چکر میں پھنس جاتا ہے۔

علم بشریات کامطالعہ قربانی کے بکرے بننےکی نفسیات پر ہمیں اچھی طرح آگاہی فراہم کرتا ہے۔ قدیم زمانے میں بلاد الشام کے معاشروں کو جب گناہوں اور بدی کی قوتوں سے پاک کرنا ہوتا تھا تو ایک بکرےکو پکڑا جاتا تھا، اور مندر کا مذہبی رہنما اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا تھا تاکہ بدی کی بساری قوتیں اس میں منتقل ہوسکیں۔ بعد میں اس جانور کو بیابان میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور یہ تصور پائے جاتے تھے کہ معاشرہ اب گناہوں اور بدی سے پاک ہو چکا ہے۔

آج کل گلگت بلتستان کی بھی ہو بہو یہی صورت حال ہے۔ چونکہ ہم نفسیاتی طور پر جھوٹ اور مغالطوں میں رہنے کےعادی ہیں اس لیے ہم جلدی سے الزام کسی اور پر ڈال کر اپنےاندر کی بدی کی خصلت اورخفت کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی ہمیں ہمارے اندر کی بیماری اور بدی کو دکھانے یاخواب غفلت سے جگانے کی کوشش کرتا یا کرتی ہے تو  اسے قربانی کا بکرا بنا کر اس کی شخصیت کشی کی جاتی ہے۔ اسی لیے ہمارا معاشرہ ہر خرد پسند کو اذیت کے تاریک زندانوں میں ڈال دیتا ہے۔

قدیم میکسیکو کے پینٹنگ
پینٹنگ میں قدیم میکسیکو کے آزٹیک لوگ اپنے دیوتاوں کو انسانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ اس رسم میں مرکزی کردار میں بادشاہ، وزراء، سپاہی اورمعبد کا مذہبی رہنما ہیں۔

چونکہ اس معاشرے میں پنہاں بدی ہمیں حقیقت سے اندھا کر دیتی ہے، اس لیے یہ شیطان کو نجات دہندہ سمجھ کر گلے لگائے رکھتا ہے اور نجات دہندہ کو شیطان سمجھتا ہے۔ یوں معاشرے کے اقدار منتشر ہو جاتے ہیں۔

اہالیان گلگت بلتستان کو  پتہ ہےکہ ہم نے مذہبی شیطانوں کی ایماء پر جوہر علی ایڈوکیٹ کےساتھ کیا سلوک کیا۔ مرحوم کو اتنا شیطان بنا کر پیش کیا کہ وہ معاشرہ تو چھوڑئیے اپنے ہی گھر میں تنہا رہ گئے۔ جوہر علی وہ مرد قلندر اور خرد کا ترجمان تھا جسےآدم خور مذہبی معاشرہ نگل گیا۔ ہم نے جوہرعلی کی خرد کی روشنی سے منہ موڈ کرجہالت کے اندھیروں میں پناہ لی۔اسی لئے آج گلگت کا معاشرہ اجتماعی پاگل پن میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اس پاگل پن میں ہم نےخرد افروزی کی طرف رجوع کرنے کے بجائے، علاج کے لئے ان کی طرف رجوع کیا ہے جن کا کام ایک نئے معاشرے اور سوچ کی تخلیق نہیں، بلکہ نت نئے جھو ٹے بت تراشنا ہے اور آدم خور نظام اور سوچ کے دیوتا کے لیے قربانی کے بکرے تلاش کرنا ہے۔

چلو دیکھتے ہیں کہ ہم سچ سے بچنے کے لیے قربانی کے بکرے کہاں تلاش کرتے ہیں۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، تب سےگلگت میں خون میں لتھڑے ہوئے الفاظ ہی ذہن کو ملے ہیں۔ جب بھی گلگت میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری ہوتی ہے تو کہا جاتا ہےکہ اس میں باہر کا ہاتھ ہے۔

گلگت بلتستان میں حالیہ فرقہ وارانہ کشیدگی پر بھی یہی کہا گیا کہ اس میں را کا ہاتھ ہے۔ یہ کتنا لمبا ہاتھ ہے کہ ہر گھر تک پہنچ جاتا ہے۔؟ یہ کیسا ہاتھ ہے اس کو میں آپ کو دو ہزار پانچ کے ایک واقعے سے سمجھاتا ہوں۔ 2005ء  میں گلگت شہر ٹارگٹ کلنگزز اور فرقہ وارانہ قتل کی وجہ سے  ہمیشہ فائرنگ کی آوازوں سے گونجتا رہتا تھا۔ جب بھی لوگ اکھٹے ہوتے تھے تو کہتے تھےکہ اس میں انڈیا کے ایجنسی راکا ہاتھ ہے، مگر اکیلے میں دوسرےفرقے کے لوگوں کو مارنےکا پلان بناتے تھے۔

اس سلسلے میرے محلے کا ایک بندہ ہر واقعہ کو  انڈیا سے منسوب کرتا تھا۔ اس کی خود اپنی حالت یہ تھی کہ بچوں کو معاشی تنگ دستی کی وجہ سے سکول نہیں بھیج سکا تھا۔ چھوٹی موٹی مزدوری کر کے گزر  بسر کرتا تھا۔

 یہ غالبا اکتوبر 2005ء  کا مہینہ تھا۔ گلگت شہر میں کسی اہم شخصیت کاقتل ہوا۔ پھر کیا تھا کہ پورا شہر دھماکوں سے لرز اٹھا اور گولیوں کی تھر تھراہٹ سے گونجنے لگا۔ میرے گھر کے ساتھ جڑے ہمسائے کے گھر میں دستی بم پھینکا گیا۔ کہتے ہیں کہ کچھ جگہوں پہ راکٹ لانچرز بھی استعمال ہوئے۔ کچھ پرندے گولیاں لگنے سے مر کر میرے گھر کے صحن میں گرے۔ انھی دنوں میں پی آئے  اے کا فوکر طیارہ فائرنگ کی وجہ سےگلگت ایئر پورٹ پر لینڈ نہیں کر سکا۔ اس دوران میرےگھر کے عقبی دروازے، جو محلے کی اندرونی گلیوں کی طرف نکلتا ہے، کے باہر شدید فائرنگ ہو رہی تھی۔ میں دروازہ سرکا کر دیکھا تو پتہ چلا معاشی تنگ دستی کامارا میرا وہ محلے دار جو اپنے بچوں کوسکول میں نہیں پڑھا سکتا ہے ایک آٹومیٹک بندوق جسے مقامی زبان میں پشپشا (Tommy gun کی طرح) کہا جاتا ہے سے ہوائی فائرنگ کر رہا ہے۔

مختصراً یہ کہ میرے محلہ دار نے اس گن کی گول میگزین جس میں کوئی ستر یا اسی گولیاں جاتی ہوں گی خالی کی۔ یوں ایک میگزین آج کےحساب سے پندرہ سے بیس ہزار کی پڑتی ہے۔ اس نے دس منٹ میں کوئی چھ میگزین خالی کردئیے۔ پھر جاتے ہوئے کہنے لگے "باڑے کے پٹھانوں کے اسلحے کی نالی جلدی گرم ہو جاتی ہے اور گن لاک ہو جاتا ہے۔ ان جہنمیوں کے لیے انگریز کا اسلحہ ٹھیک علاج ہے۔”اب یہ ہوائی فائرنگ یہ بندہ اکیلا نہیں کر رہا تھا۔ یہ فائرنگ ہر گھر سے ہو رہی تھی۔ ہوائی فائرنگ کا مقصد مخالف فرقے کے لوگوں کو اپنے پاس موجود اسلحے کی طاقت دکھانا ہوتا ہے۔ تب میرے ذہن میں سوال آیا کہ "کیا ہر گھر کے اندر ملک دشمن ایجنٹس کاہاتھ ہے؟

جس گھر اور ہاتھ سےفائرنگ ہو رہی ہے، ان کے مالک ہم ہی ہیں۔ ہم تو ایک دوسرے کے ہاتھ کا پکایا ہوا نہیں کھاتے ہیں، تو باہرکے لوگوں کا ہاتھ کیسے تھام سکتے ہیں۔؟

 یہ غالبا اکتوبر 2005ء  کا مہینہ تھا۔ گلگت شہر میں کسی اہم شخصیت کاقتل ہوا۔ پھر کیا تھا کہ پورا شہر دھماکوں سے لرز اٹھا اور گولیوں کی تھر تھراہٹ سے گونجنے لگا۔ میرے گھر کے ساتھ جڑے ہمسائے کے گھر میں دستی بم پھینکا گیا۔ کہتے ہیں کہ کچھ جگہوں پہ راکٹ لانچرز بھی استعمال ہوئے۔ کچھ پرندے گولیاں لگنے سے مر کر میرے گھر کے صحن میں گرے۔ انھی دنوں میں پی آئے  اے کا فوکر طیارہ فائرنگ کی وجہ سےگلگت ایئر پورٹ پر لینڈ نہیں کر سکا۔ اس دوران میرےگھر کے عقبی دروازے، جو محلے کی اندرونی گلیوں کی طرف نکلتا ہے، کے باہر شدید فائرنگ ہو رہی تھی۔ میں دروازہ سرکا کر دیکھا تو پتہ چلا معاشی تنگ دستی کامارا میرا وہ محلے دار جو اپنے بچوں کوسکول میں نہیں پڑھا سکتا ہے ایک آٹومیٹک بندوق جسے مقامی زبان میں پشپشا (Tommy gun کی طرح) کہا جاتا ہے سے ہوائی فائرنگ کر رہا ہے۔

اس وقت گلگت تو ویسے ہی شیعہ اور سنی علاقوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔حد یہ تھی کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹس، سکول، کالج، ہسپتال، ائیر پورٹ سے نکلنےکی جگہ، حکومتی دفاتر اور سب کچھ سنیوں اور شیعوں کے لئے الگ الگ قائم ہوگئے تھے۔ سب اپنے فرقے کی آغوش میں جا چکے تھے۔ اس میں کسی بھی بندےکا اپنے مخالف فرقےکے محلے میں جانا تو درکنار،کوئی پرندہ بھی وہاں پر بھی نہیں مار سکتا تھا۔ ایسےمیں کیسے بیرونی سازشی عناصر لوگوں کےگھروں میں داخل ہو گئے  یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ البتہ اس دن کے بعد میرے لیے یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ گلگت کا معاشرہ کس طرح ایک جھوٹ کے بلبلے میں رہ رہا ہے اور کس طرح یہ جھوٹ ان کےذہنوں کوماؤف کر رہا ہے اور دلوں کو وحشی بنا رہا ہے۔

اسی لیے گلگت میں جو جتنا مذہبی ہو گا، وہ اتنا ہی وحشی نکلتا ہے۔جب ہم ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں تو ہمیں باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ گلگت سےہمارے صحافی دوست امتیاز علی تاج ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ہم خود ہی ایک دوسرے  سے لڑ ر ہے ہیں تو کسی بیرونی ایجنسی کواپنا پیسہ اور توانیاں ہم پر خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

اب چلتے ہیں حالیہ واقعات کی طرف۔ ان  کا جائزہ  لے کر اس حقیقت سے متنفر ذہنیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا لازمی ہےکہ میکس ویبر نے جدید ریاست کی بنیاد تشدد اور  اجارہ داری پر قائم کیا ہے۔ ریاست کے علاوہ جو بھی تشتدد کا مرتکب ہو گا، وہ سزا کا مستحق ہوگا۔

 گلگت بلتستان کے حالیہ فرقہ وارانہ تناؤ میں لوگ کھلم کھلا قتل اور عبرت ناک نتائج کی دھمکیاں بلا خوف و خطر دے رہے تھے۔ مگر ریاست نے ان  کو گرفتار کرنے  کی جرات نہیں کی۔ اس کی جرات صرف ایک طالب علم رہنما تجمل حسین مرحوم کوMPO یعنی نقص عامہ کے قانون کےتحت گرفتاری کی صورت میں سامنے آئی۔ تجمل قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں طالب علموں کے فیسوں میں اضافے کے خلاف آواز اٹھا رہےتھے۔ اب اہل اقتدار تشتدد پر آمادہ لوگوں سے نظریں چراتے ہیں اور اپنی عقابی نظریں بےضرر طلباء پر جماتے ہیں۔

یہ ہمارے لیڈر اقبال کے شاہین نہیں، بلکہ گدھ ہیں جو مردوں کی بدولت ہی زندہ رہتے ہیں۔

 مختصر یہ کہ معاشرےکی طرح ہماری ریاست میں بھی حقیقت کاسامنا کرنے کی جرات نہیں۔ اسی لیے تو حکومتی عہدہ دار فرقہ وارانہ کشیدگی کا ذمہ دار بھارتی ایجنسی کو ٹہرا رہے  ہیں۔ یہ حرکات اور بیانات ہماری بزدل نفسیات کے محرکات اور حرکیات کو عیاں کرتے ہیں۔

اب حقیقت سے  بھاگ کر کسی جھوٹ میں پناہ لینے کے ایک اور مظہر کو دیکھئے۔ آج کےانفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید ابلاغ کے اس دور میں گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کو اکتوبر تک بند کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سےکشیدگی پھیلتی ہے۔ کمال کی منطق ہے جو کشیدگی پھیلا رہے ہیں، ان کو سلاخوں کے پیچھے بند کرو نہ کہ معلومات تک رسائی کو۔

اس فیصلےکاخمیازہ آن لائن کاروبار سے وابستہ ہزاروں لوگ اور طلباء بھگت رہے ہیں۔ ہماری طرز حکمرانی کو دیکھ کر دنیا کے لوگ ہنستے ہیں اور ہم ہیں کہ اپنی طرز حکمرانی پر ناز کر رہے ہیں ترک زبان میں ایک محاورہ ہےکہ

یہ بھی پڑھئے: روشن خیالی ایک فریب ہے اور رُجعت پسندی ایک ناسور!

یہ مضمون بھی پڑھ لیں: بے تخیل دانشوری

جب بادشاہی مسخرےکے ہاتھ میں آ جاتی ہے، توسارا دربار سرکس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

آج کل گلگت بلتستان کی سیاست اور معاشرےکو دیکھ کر پاگل خانےکا  گمان زیادہ ہوتا ہے۔ آج  ہمارا معاشرہ سچ کی قربان گاہ بن گیا ہے جہاں جھوٹ کو خوش کرنے کے لیے اس کو ذبح کیا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا تجربوں اور اس اسے حاصل ہونے والے سبق کی وجہ سے آج مجھے شازشی تھیوریز اور شازشی بیانیوں پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔ پہلے مجھے ان سب چیزوں پہ زیادہ ہنسی آتی تھی۔پر اب ہنسی بھی نہیں آتی:

پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

پر اب کسی بات پہ نہیں آتی۔

ہنسی نہ آنے کی وجہ سے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔کیونکہ ہنسی نہ آنا رونے کی تمہید ہے۔ یاد رکھنا اگر ہم شازشی اور حقیقت سےگریزاں جھوٹے ذہن کے معاشرے، سیاست، ریاست اور حکومت پر سیادت اسی طرح جاری رکھیں، تو ہم سب سے مسکراہٹیں چھین جائیں گی اوربہت جلد ہمیں دائمی طور پر رونا ہوگا، کیونکہ تاریخ جب دوسری مرتبہ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو وہ المیہ کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔

اس المیہ کےتخلیق کار کوئی اور نہیں ہے۔اس کے تخلیق کار ہمارہ بزدل معاشرہ اور اس کی حقیقت گریز ذہنیت ہی ہیں۔

پینٹنگ میں قدیم میکسیکو کے آزٹیک لوگ اپنے دیوتاوں کو انسانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ اس رسم میں مرکزی کردار میں بادشاہ، وزراء، سپاہی اورمعبد کا مذہبی رہنما ہیں۔

مصنف کے بارے میں:

عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں

عزیزعلی داد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے