تحریر: غلام امین بیگ
گلگت بلتستان، جو نایاب ارضی معدنیات (Rare Earth Minerals) سے مالا مال ہے، تیزی سے بین الاقوامی طاقتوں—چین، امریکہ، بھارت کے درمیان ایک اسٹریٹجک مقابلے کا میدان بنتا جا رہا ہے۔
ان ممالک کا سرمایہ سرحدوں کی پروا کیے بغیر معدنی وسائل کے حصول اور اثر و رسوخ کے فروغ کے لیے رواں دواں ہے، جبکہ گلگت بلتستان کے عوام سیاسی لحاظ سے محرومی کا شکار اور معاشی مواقع سے محروم ہیں۔
گلگت بلتستان چین کے لیے کئی اسٹریٹجک مواقع فراہم کرتا ہے، جن میں ہنزہ کے ماضی میں چینگ سلطنت کے ساتھ تاریخی و ثقافتی تعلقات، شاہراہ ریشم سے جڑا ہوا مضبوط تجارتی ورثہ، اقتصادی راہداری (CPEC) سے جڑی ملازمتوں کے لیے موزوں نوجوان آبادی، اور دیگر علاقوں کے مقابلے میں نسبتاً پُرامن ماحول شامل ہیں۔
اسی طرح چین, گلگت بلتستان کو متعدد مواقع فراہم کر رہا ہے جن میں پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تجارتی راستوں اور لاجسٹک مراکز کے ذریعے سنکیانگ اور دیگر چینی علاقوں سے روابط شامل ہیں۔ نوجوانوں کے لیے توانائی، ٹرانسپورٹ اور تعمیرات کے شعبوں میں روزگار اور مہارتوں کی تربیت کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ مقامی مصنوعات اور کاروباروں کے لیے چینی منڈیوں تک رسائی بہتر ہو رہی ہے، جبکہ سیاحت کو فروغ دے کر چینی سیاحوں کو گلگت بلتستان کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کان کنی، قابلِ تجدید توانائی اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے امکانات موجود ہیں۔ گلگت بلتستان اور سرحدی علاقوں میں زبان، تعلیم اور ثقافتی تبادلے کے ذریعے دونوں خطوں کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے مواقع فراہم کر رہا ہے.
تاہم، سنکیانگ کے ساتھ گلگت بلتستان کی اقتصادی شراکت داری کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سب سے اہم اس کا متنازعہ آئینی مقام، تجارت، صنعت، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بنیادی ڈھانچے کی کمی، ترقی کے غیر مساوی اثرات کے باعث نسلی و فرقہ وارانہ اثرات , پاکستان پر مکمل اقتصادی انحصار اور مالیاتی خودمختاری کا فقدان، اور ہنر مند افراد کی مسلسل شہروں اور بیرونِ ملک ہجرت شامل ہیں۔
مستقبل چین اور سنکیانگ کے ساتھ قریبی تعاون میں مضمر ہے۔
اس تناظر میں، گلگت بلتستان کے عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئینی حقوق کا پُرزور مطالبہ کریں، ایک شفاف اور جامع علاقائی معدنیاتی پالیسی تشکیل دیں، مقامی اداروں اور نگرانی کے نظام کو مضبوط کریں، اور ایسے بین الاقوامی شراکتی تعلقات قائم کریں جو پائیدار ترقی، ماحولیات کے تحفظ اور مقامی خودمختاری پر مبنی ہوں۔ اگر دانشمندی سے حکمتِ عملی اپنائی جائے تو گلگت بلتستان نہ صرف استحصال سے بچ سکتا ہے بلکہ ایک ذمہ دار اور بااختیار نگران کی حیثیت سے عالمی سطح پر اپنی پہچان بھی قائم کر سکتا ہے۔
بالآخر، گلگت بلتستان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہوگا کہ چین اور پاکستان مقامی آبادی، بالخصوص نوجوانوں کو ترقیاتی عمل ، فیصلہ سازی اور فیصلہ ساز اداروں میں مؤثر طریقے سے شامل کریں، ان کی شناخت، ثقافت اور خودمختاری کا احترام کریں، اور ان کے لیے ایسے مواقع پیدا کریں جو انہیں اس خطے کے مستقبل کے تعین میں شراکت دار بنائیں، نہ کہ صرف مشاہدہ کرنے والا۔
علاوہ ازیں، گلگت بلتستان جیسے ماحولیاتی لحاظ سے حساس اور قدرتی طور پر شفاف خطے میں ماحولیاتی تحفظ بھی چین اور پاکستان کے لیے ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے۔ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر، ہائیڈرو پاور، اور معدنی ترقی کے منصوبوں سے اس خطے کی نازک ماحولیاتی توازن کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ مستقبل میں چین-گلگت بلتستان تعلقات کی کامیابی اس بات پر بھی منحصر ہوگی کہ ترقی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی پائیداری، گلیشیئرز اور دریائی نظام کا تحفظ، اور قدرتی وسائل کا محتاط استعمال کیسے یقینی بنایا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام ایک نئی عظیم گیم (Great Game) کے بیچ میں آ چکے ہیں، جس کا محور قدرتی وسائل پر کنٹرول اور تجارتی راہداریوں کا حصول ہے۔ اس صورتحال میں عوام اُس وقت ہی حقیقی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب وہ ایک مثبت ذہنیت کے ساتھ خود کو اس عمل میں شریک کریں، باہم ربط پیدا کریں، نیٹ ورکنگ کریں، اور برابری کی بنیاد پر تعاون کو فروغ دیں۔ ساتھ ہی، اُنہیں ہر اُس کوشش کا پرامن طور پر مقابلہ کرنا ہوگا جو زمینوں، وسائل پر قبضے، یا شناخت کو دبانے کی صورت میں ہو، اور پرامن بقائے باہمی (peaceful coexistence) کے اصولوں کی پاسداری کے ساتھ اپنے حقوق اور مستقبل کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔

غلام امین بیگ حال مقیم اسلام آباد کا تعلق بالائی ہنزہ کے سب ڈویزن گوجال سے ہے۔ وہ کمیونٹی کی ترقیاتی پرہجیکٹس، کے ماہر، و تحفظ جنگلی حیات، کے کارکن ہیں وہ اکثر گلگت۔بلتستان اور چترال کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔