از ضمیر عباس
پیش لفظ
یہ تحاریر روایتی کتابوں سے ہٹ کر مولانا کا ایک تعارف پیش کرنے کی ایک کاوش ہے۔ بنیادی خیال یہ ہے کہ ۲۱ ویں صدی کے بدلے ہُوئے حالات میں تیرھویں صدی کے ایک صوفی شاعر کو ایسے متعارف کرایا جائے کہ اُن کے اشعار( جو جا بجا کتابوں اور سوشل میڈیا کی وساطت سے دستیاب ہیں) کی تفہیم و تشریح بہتر انداز میں کی جاسکے۔
شمس تبریزی سے مُلاقات
پچھلی اقساط میں مولانا کا مختصر تعارف، شہرت کی وجوہات اور اُن کی شاعری کے پس منظر پر روشنی ڈالی گئی۔ اوائل عمری میں اپنے صوفی والد کی صحبت اور دینی تعلیم حلب و دمشق کے اسلامی مراکز سے حاصل کرنے کے بعد مولانا نے بطور مفتی، پیشوا، واعظ، شیخ و دیگر القابات کے ساتھ قونیا میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔ یہ منصب ایسا ہی تھا جیسے دورِ حاضر میں کسی بھی مفتی، علامہ، مولانا، واعظ یا ایسی ہی کسی مذہبی شخصیت کا ہو۔ چونکہ یہ ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے اور مولانا کی شاعری اور فکر پر اِس کی گہری چھاپ ہے، اس لیے اس قسط میں کوشش ہوگی کہ اس متعلق مطبوعہ تاریخی حقائق اور فرضی واقعات کا جائزہ لیا جائے۔
سب سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ اس موضوع پر مشرق و مغرب کے مصنفین، شارحین ، سوانح نگاران اور محققین کیا کہتے ہیں۔ چند کتابوں سے اقتباسات پیش ہیں:
“مولانا ایک روز اپنے شاگردوں کے حلقۂ میں رونق افروز تھے۔ چاروں طرف کتابوں کے ڈھیر تھے کہ اچانک شمس تبریز قلندرانہ انداز سے آپہنچے اور کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وہ چیز ہے جس سے تم واقف نہیں ہو۔ مولانا کا یہ فرمانا تھا کہ اچانک کتابوں میں آگ لگ گئی۔ مولانا نے شمس تبریز سے کہا یہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ چیز ہے جس سے تم وقف نہیں اور یہ کہہ کر مجلس سے روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ سے مولانا کی حالت دگر گوں ہوگئی۔ تمام گھر بار اور شان و شوکت کو خیرباد کہا اور صحرا نوردی شروع کردی۔ ملک کے گوشوں میں شمس تبریز کو تلاش کرتے پھرے لیکن ان کا کہیں پتہ نہ چلا۔ مولانا کے مُرید چونکہ مولانا کی اس کیفیت سے سخت پریشان تھے، کہتے ہیں کہ مولانا کے کسی مرید نے شمس تبریز کو مار ڈالا۔”
“کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شمس کو ان کے پیر بابا کمال الدین جُندی نے بھیجا۔۔۔۔شمس نے مولانا سے سوال کیا کہ مجاہدہ اور ریاضت کا مقصد کیا ہے ؟ مولانا نے فرمایا اتباع شریعت۔ شمس تبریز نے کہا یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن اصل مقصد علم و مجاہدے کا یہ کہ وہ انسان کو منزل تک پہنچا دے اور پھر حکیم سنائی کا یہ شعر پڑھا
علم کز تو ترا نہ بستاند
جہل زاں علم بہ بود بسیار
(جو علم تجھے جاہلوں سے ملے نہ لے ، اس علم سے جہل بہت بہتر ہے)
ان جُملوں سے مولانا اس قدر متاثر ہوئے کہ فورًا شمس تبریز کی ہاتھ پر بیعت ہوُئے”۔
( مثنوی مولوی معنوی، دفتر اول، مترجم قاضی سجاد حسین، الفیصل ناشران و تاجران, لاہور۔ صفحات ۱۰-۱۱)
مذکورہ مصنف نے شمس تبریزی کے ہاتھوں مولانا کی کتابوں کو کنویں میں پھینکا جانا اور اُن کو خشک حالت میں باہر نکالے جانے کابھی ذکر کیا ہے یعنی شمس کی کرامت یا معجزہ آرائی کا مظاہرہ جس نے مولانا کو اُن کی مریدی پر مائل کیا۔ اسی طرح ایک ابن بطوطہ سے منسُوب واقعے کو بھی نقل کیا ہے کہ مولانا نے ایک حلوہ فروش سے ایک قاش یا ٹُکڑا خرید کرکھا لیا جس سے مولانا کے احوال یکسر بدل گئے۔ اکثر خاموش رہتے جب بولنے لگتے تو زبان پر اشعار جاری ہوتے۔
مندرجہ بالا کرامات کا تذکرہ قاضی صاحب کے علاوہ بہت سارے اور مشرقی مصنفین اور مولانا کے متعلق عمومی گُفتگو میں مِل جاتا ہے۔
دورِ حاضر میں انسانی ترقی اور تاریخ کو سائنسی انداز سے پرکھنے کے رُجحان نے ہمارے ذہنوں کو معجزاتی واقعات سے زیادہ ایسی روایات کو صحیح ماننے کی طرف مائل کیا ہُوا ہے جو عقلی لحاظ سے قابلِ قبول ہوں
ضمیر عباس
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کرامات اور معجزات کا بیان بالخصوص اِلہامی اور بالعموم غیر الہامی دینی کتابوں میں متواتر ملتا ہے جیسے حضرت عیٰسی کی پیدائش اور مُردوں کو زندہ کرنا، حضرت موسٰی کا عصا سے جادوگروں کو شکست دینا، دریا نیل کا بہاؤ رُک جانا، ایک “اُمّّی” کے زبان فصاحت و بلاغت کے کلمات کا ادا ہوجانا وغیرہ۔ اسی طرح ہندو رزمیہ کہانی “راماین” میں رام کے مافوق الفطرت کارنامے اور قدیم بحیرہ روم اور یہاں سے یورپ تک پھیلی ثقافت اور مذاہب میں ایسے معجزاتی وا قعات کا تذکرہ معمول کے مطابق پایا جاتا ہے۔
مگر دورِ حاضر میں انسانی ترقی اور تاریخ کو سائنسی انداز سے پرکھنے کے رُجحان نے ہمارے ذہنوں کو معجزاتی واقعات سے زیادہ ایسی روایات کو صحیح ماننے کی طرف مائل کیا ہُوا ہے جو عقلی لحاظ سے قابلِ قبول ہوں۔ لہٰذا مولانا اور شمس کی مُلاقات کے متعلق کوئی ایسا بیان، واقعہ یا قِّصہ ہی صحیح مانا جائیگا جِس کی عقلی تشریح کی جاسکے۔ اس سلسلے میں ذیل میں بیان کیا گیا واقعہ زیادہ معقول لگتاہے ۔
یہ بھی پڑ ھئے
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے؟ ( پہلی قسط)
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے؟ (دوسری قسط)
میں نے اس واقعے کے متعلق قاضی سجاد حسین کے علاوہ چند مصنفین مثلاً مولانا شبلی نعمانی، خلیفہ عبدالحکیم، این میری شِمل، اے آر نیکلسن،محمد طاہر، فاطمہ کشاور، استاد کریم زمانی، بدیع الزمان فروز نفر اور فرینکلن لیوس کی آراء کا جائزہ لیا۔ اِن مصنفین نے اپنی رائے کو تین کتابوں سے مستعار لیئے ہیں جو مولانا کی وفات ( ۱۲۷۳عیسوی) کے بعد کے ابتدائی سالوں میں لکھی گئیں تھیں۔ اس سسلسے کی پہلی کتاب مولانا کے فرزند سلطان ولد نے “ابتدا نامہ” یا “ولد نامہ” کے نام سے تحریر کی جس میں مولانا کی زندگی کے احوال بیان کئے گئے۔ دوسری کتاب “رسالہُ سپہ سالار” کے نام سے فریدالدین بن احمد سپہ سالار نے لکھی۔ یہ کتاب مولانا کی وفات کے قریب ۵۰ سال بعد منظر عام پر آئی۔ تیسری کتاب “مناقب العارفین “ہے جو شمس الدین احمد افلاکی نے تحریر کی۔ ان کتابوں میں شمس اور مولانا کی مُلاقات کا احوال بیان کچھ اس طرح ہے۔
قونیہ کی کسی راہ گزر پرُمولانا کی مُلاقات شمس سے ہُوئی۔ شمس نے مولانا سے کہا کہ بایزید بسطامی نے تمام عُمر خربوزہ نہیں کھایا کہ اِن کو معلوم نہیں ہوسکا کہ رسولِ خدا نے خربوزہ کس طرح کھایا۔ یہ اُن کی سُنتِ رسول کی پیروی کا جذبہ تھا۔ دوسری طرف مشہور ہے کہ بایزید فرماتے تھے “سبحانی ما اعظم شانی “ (اللہ اکبر میری شان کس قدر بڑی ہے)۔ جبکہ حضور اکرم فرماتے ہیں کہ میں ہر دن میں ستؔر مرتبہ اپنی مغفرت کی دُعا مانگتا ہوُں۔ پھِر شمس نے مولانا سے سوال کیا کہ اِن دونوں باتوں کو کس طرح منطبق کیا جاسکتا ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ بایزید بسطامی اگرچہ بہت بڑے بزرگ تھے لیکن وہ منازل تقرّب میں ایک مقام پر ٹھہر گئے تھے اور اس مرتبہ کی عظمت کے اثر سے ان کی زبان سے ایسے الفاظ جاری ہوتے تھے۔ اور رسولِ خدا مسلسل منازل طے کرتے جاتے تھے اور جب اُونچی منزل پر پہنچتے تھے تو نیچے کی منزل اس قدر پست نظر آتی تھی کہ اس پر استغفار کرتے تھے (بحوالہ، مثنوی معنوی، اردو ترجمہ، قاضی سجاد حسین، صفحہ ۱۲)۔
اگر مولانا کا خاندانی پس منظر اور اس دور کا عمومی ماحول (جس کا احوال راقم نے پچھلی اقساط میں بیان کیا ہے) ذہن میں رکھیں تو شمس کی جانب سے یہ سوال ایک qualification test کی طرح ہے جیسے آجکل مشہور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے سے قبل طلبہ سے امتحان لی جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اِس مُلاقات کے وقت شمس کی عمر تقریباّ ساٹھ اور مولانا کی لگ بھگ چالیس سال تھی۔ یعنی شمس نے یہ سوال جان بوجھ کے اور اپنے پچھلے تجربات کی روشنی میں کیا تھا۔
اگلی قسط میں کوشش ہوگی کہ اس ملاقات پر مزید روشنی ڈالی جائے اور مولانا ہر اس کے اثرات کا تذکرہ ہوسکے۔ (جاری ہے)
ضمیر عباس کا تعلق گلگت۔بلتستان سے ہے اور وہ اس وقت ایک پبلک سیکٹر ادارے کے سربراہ ہیں۔ ادب و سماجی موضوعات بلخصوص رومی پر ان کی انگریزی اور اردو زبانوں میں تحریریں مختلف قومی و مقامی اخبارات میں شاع ہوتے رہتے ہیں۔
