بام جہاں نیوز رپورٹ
علی آباد (ہنزہ) ۰۱ مئی، 2025
ہنزہ کے تمام سیاسی جماعتوں، تاجروں اور ہوٹلوں کی انجمنوں کے نمائندوں نےضلعی انتظامیہ کی جانب سے حال ہی میں جاری حکمنامے جس میں ضلع کے ہوٹلوں کو سیکورٹی رسک قرار دے کر ان پر قدغنیں عائد کی گئیں کو رد کرتے ہوئے اسے "غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی اور معاشی قتل” قرار دیا گیا۔اور اسے فل فور واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔
یہ فیصلہ بدھ کے روز علی آباد میں منعقدہ ایک کل جماعتی ہنگامی اجلاس میں کیا گیا، جس میں ہوٹل مالکان، تاجر تنظیمیں، سول سوسائٹی، مذہبی و سیاسی جماعتوں کےنمائندگان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجلاس کا ایک رکنی ایجنڈا 25 اپریل کو ڈپٹی کمیشنر کی جانب سے جاری کردہ متنازع حکمنامہ ، جس میں ضلع کے 387 ہوٹلوں کو سیکورٹی رسک قرار دے کر ان پر قدغنیں عائد کی گئیں ،تھا۔ اجلاس میں اس اقدام کو متفقہ طور پر "غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی اور معاشی قتل” قرار دیا گیا۔



اجلاس کے شرکاء نے منظور کردہ قرارداد میں واضح کیا کہ ہنزہ پاکستان کا عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مرکز ہے، جہاں سالانہ لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ مقامی ہوٹلیں اس خطے کی ثقافت، مہمان نوازی اور خودانحصاری کی علامت ہیں، اور ان کی ساکھ پر یکطرفہ سیکیورٹی اقدامات سے حملہ دراصل مقامی معیشت پر حملے کے مترادف ہے۔ قرارداد میں صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ متنازع نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لے اور سیکیورٹی کی ذمہ داری مقامی تاجروں کے بجائے انتظامیہ خود سنبھالے۔
مزید برآں، قرارداد میں ہوٹلوں میں اسلحہ بردار چوکیداروں کی تعیناتی کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے اقدامات سے نہ صرف خوف کا ماحول پیدا ہوتا ہے بلکہ مقامی اور غیرملکی سیاحوں میں بداعتمادی جنم لیتی ہے۔ اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ سیاحتی مقامات پر اسلحے کی نمائش پر مکمل پابندی عائد کی جائے، جب کہ بنیادی سہولیات، جیسے صاف پانی، بجلی اور سڑکوں کی مرمت کو فوری ترجیح دی جائے۔
قراردادوں پر سوالات
تاہم سیاسی و سماجی کارکنوں کی جانب سے اس اجلاس اور اس میں منظور کیئے گئے قراردادوں پر سوالات اٹھائے گیئے ہیں اور اسے مبہم اور مصلحت آمز قرار دیا۔
سیاسی و ماحولیاتی کارکن اور ماحول دوست ترقی کے ماہر و لکھاری صفی اللہ بیگ نے آل پارٹیز اجلاس اور اس کے قراردادوں کو حدف تنقید بنایا ہے۔ ان نے سوال کیا ہے کہ "اجلاس کا ایجنڈا اور اعلامیہ عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟ ان کا کہنا ہے کہ آل پارٹیز اجلاس میں تو زیادہ تر پاکستان کے حکمران اشرافیہ پارٹیوں کے نمائیندے نظر آتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ” سیاسی رہنماء مسائل کےاسٹیک ہولڈرز نہیں ہوتے ہیں۔ نیولبرل دانشوروں نے ‘شیر ہولڈرز’ کو بہتر لباس پہنانے کے لیے لفظ’ اسٹیک ہولڈر’ متعارف کرایا تھا۔ سیاسی کارکن مسائل کے حوالے سے بنیادی حقوق اور طبقاتی مفادات رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔
” انہوں نے سوال کیا کہ ہنزہ کے 88 فیصد ہوٹلوں کو ایجنسیوں اور بندوق بردار سیکورٹی کمپنیوں کو دینے کے ڈپٹی کمشنر کا حکم نامہ اگر سوشل میڈیا پر شدید رد عمل کی وجہ سے واپس بھی ہوا ہے تو اس کا نوٹیفیکیشن کہاں ہے؟
صفی اللہ کا کہنا ہے کہ ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن اس مسئلےپر تو گومگو کی حالت میں تھی۔ باقی سیاسی اکابرین (اشرافیہ) کون تھے جن کا دباو کارگر ثابت ہوا ہے ان کا بھی نام آنا چاہیے۔
انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اجلاس میں ہوٹل ایسوسی ایشن نے ماضی میں انتظامیہ کا دست بازو بن کر کام کرنے پر نظرثانی اور پاکستان کے حکمران اشرافیہ کا متنازعہ گلگت بلتستنان پر نوآبادیاتی قبضے کے خلاف عوام جدوجہد میں شامل ہونے کی یقین دہای کرائی؟ کیا ایسوسی ایشن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ اس کے بعد غیرمقامی سرمایہ کاری کی مزاحمت کرینگے؟
"اجلاس کے منظور شدہ قرار داد ں پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ جس میں یہ کہنے کی بجا ئے کہ ” گلگت بلتستان پاکستان کا آیٰینی یا مفتوحہ خطہ نہیں ہے ” جعلی، غیرآیٰینی سہولت کار اور بے اختیار مقامی حکومت کو صوبایئ حکومت قرار دیا گیا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ "اس قرار داد میں متنازعہ گلگت بلتستان اور پاکستان پر قابض حکمرانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہنزہ میں کل جماعتی اجلاس میں شامل لوگوں کو پاکستان کی معشیت کا بڑا فکر ہے لیکن ہنزہ کے عوام پانی، بجلی، تعلیم، صحت، روزگار اور ملازمتوں سے محروم ہیں، اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ اور اب فطری دولت پر بھی قبضہ کرکے حکمران مقامی عوام پر زندگی تنگ کررہے ہیں؛ اور نہ ہی ہنزہ کا موجودہ نوآبادیاتی انتظامیہ کے زیرنگرانی سوست سرحدی تجارت سے لوگوں کی بے دخلی، وفاقی اداروں کے ملازمین کا لوٹ مار اور انتظامیہ کی عوام دشمنی کی واضع الفاظ میں مذمت کی گیی ہے۔ یقینا پاکستان کے حکمران اشرافیہ کے پارٹیوں کے مقامی لیڈر کبھی بھی اسلام آباد میں بیٹھے اپنے آقاوں کے پالیسیوں پر بات نہیں کرینگے۔”

اجلاس کے شرکاء کو عوام سے زیادہ ہنزہ کی عالمی شہرت اور پاکستان کے امیج کا فکر تو ہے۔ مگر بنیادی مسائل سے محروم عوام کی ان کو کم فکر ہے۔
نوٹیفیکیشن کی واپسی پر بغلیں بجانے کے بجاے غیرمقامی سرمایہ کار اور بڑے غیرمقامی ہوٹلوں کا فطری وسائل کی لوٹ مار اور ماحولیات کی تباہی پر ایک جملہ بھی نہیں لکھا گیا۔
عوامی ورکرز پارٹی سمیت کئی مقامی سیاسی حلقوں نے ہوٹل ایسوسی ایشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے موقف میں وہ جرات نہیں جو اس نوآبادیاتی عمل کے خلاف درکار ہے۔ ان کے مطابق، ایسوسی ایشن ماضی میں غیر مقامی ہوٹلوں اور سرمایہ کاروں کی حمایت کرتی رہی ہے، جو ہنزہ کے قدرتی وسائل اور ماحولیاتی توازن کے لیے خطرہ ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کا ردعمل: نوآبادیاتی قبضے کی نئی کڑی
دوسری جانب، عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان نے ضلعی انتظامیہ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے "نوآبادیاتی جبر” قرار دیا۔ پارٹی نے ایک بیان میں کہا ہےکہ یہ اقدام نہ صرف مقامی معیشت کو تباہ کرنے بلکہ خطے کو اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹیشن کونسل کےذریعے ہنزہ کے فطری وسائل کو مکمل فوجی و مالیاتی کنٹرول میں دینے کی سازش ہے۔
پارٹی نے الزام عائد کیا کہ ہنزہ کے مقامی ہوٹلوں کو سیکیورٹی رسک قرار دینا دراصل گرین ٹورازم جیسی کمپنیوں کے لیے راہ ہموار کرنا ہے، تاکہ مقامی کاروباروں کو دیوار سے لگایا جا سکے اور بیرونی اجارہ دار کمپنیاں یہاں کی سیاحت پر قبضہ جما سکیں۔ انہوں نے واضح کیا سیکورٹی کے نام پر نافذ کی گئی پابندیاں مقامی وسائل پر قبضے کے بڑے منصوبے کی جھلک ہیں۔
پارٹی نے یہ بھی کہا کہ مقامی ہوٹلز کسی بھی وقت سیاحوں کے لیے خطرہ نہیں رہے بلکہ یہ ہنزہ کی محنت کش ثقافت کی علامت ہیں، اور ان پر پابندی دراصل مقامی عوام کو خوفزدہ کر کے وسائل سے بے دخل کرنے کی کوشش ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان "نوآبادیاتی ہتھکنڈوں” کے خلاف منظم اور متحد ہوکر احتجاجی تحریکیں شروع کریں۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی قابض انتظامیہ نے اسلام آباد میں بنائے گئے قوانین کو بہانہ بنا کر ہنزہ کے مقامی ہوٹلوں کو نشانہ بنایا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ پابندیاں مقامی آبادی کو معاشی طور پر کمزور کرنے، ان کی زمینوں اور وسائل پر غیرمقامی سرمایہ کاروں کا قبضہ یقینی بنانے، اور نیکٹا جیسے اداروں کے ذریعے خطے کو خاکی سرمایہ دارانہ ایجنڈے کے تابع کرنے کے لیے نافذ کی گئی ہیں۔ انتظامیہ کے دعووں کے برعکس مقامی ہوٹل سیاحوں کے لیے کبھی "خطرہ” نہیں رہے بلکہ یہ ہنزہ کی ثقافت محنت، اور خودانحصاری کی علامت ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر ہنزہ کے ہوٹلوں پر لگائی گئی پابندیاں واپس لی جائیں، ایس آی ایف سی کے نام پر خطے کے وسائل کو غیرمقامیوں کے حوالے کرنے کی تمام کوششوں کو روکا جائے، اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے بنیادی آئینی و جمہوری حقوق دیے جائیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے لیڈروں نے زور دیا کہ سیاحت مقامی آبادی کی معاشی ترقی کا ذریعہ ہے نہ کہ بیرونی سرمایہ داروں کی لوٹ مار کا۔ ہنزہ کی زمینیں، وسائل، اور فیصلے کا حق قانونی اور رواجی طور پر مقامی عوام کے پاس ہیں اور ہونا چاہیے۔