بام جہاں خصوصی رپورٹ
اسلام آباد، ۰۱ مئی 2025
پاکستان میں شہری آزادیوں میں تشویشناک حد تک کمی اور شدت پسندی، دہشت گردی میں اور امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ریاست کے دو ستون: عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات میں کمی اور [انتظامیہ و ریاستی اداروں کی] ،وفاقی نظام پر واضح دباؤ کی نشاندہی کرتی ہے۔ گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے صوبوں بلوچستان، پختونخواہ ، سندھ میں معدنی و آبی وسائل اور سیاحت سے محرومی سے ان علاقوں کے لوگوں میں بے دخلی اور عدم تحفظ اور احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔
یہ حقائق پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی جمعرات کے روز ایک مقامی ہوٹل میں میڈیا کو جاری "پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ۲۰۲۴ سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔ اس موقع پر ایچ آر سی پی کے چیئرمین اسد اقبال بٹ، کو چیئر حنا جیلانی ایڈووکیٹ، سیکریٹری جنرل حارث خلیق، منیزے جہانگیر، اور اسلام آباد چیپٹر کے چیئرپرسن نسرین اظہر کے علاوہ کمیشن کے کونسل ممبرز سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، اور صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھے۔


“اس رپورٹ کے مطابق، فروری 2024 کے عام انتخابات انتخابی دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہے۔ سیاسی غیر یقینی صورتحال کے ماحول میں ایک بڑی سیاسی جماعت کا مستقبل اور اس کی مخصوص نشستوں کی تقسیم غیر واضح رہی۔ نئی آنے والی حکومت نے جلد بازی میں کئی ناقص قوانین منظور کر کے غیر جمہوری عناصر کو گنجائش فراہم کی۔
رپورٹ کے مطابق، 2024 میں شدت پسندی میں تشویشناک اضافہ ہوا: اس سے منسلک ہلاکتوں کی تعداد 2,500 سے تجاوز کر گئی۔ ان میں سے زیادہ تر حملے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔ کم از کم 24 افراد ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے، جن میں سے بعض واقعات، جیسے کہ سوات اور سرگودھا میں، کا تعلق توہینِ مذہب کے الزامات سے تھا۔
رپورٹ کی رونمائی کے موقع پر، ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے ریاستی جبر کی جانب توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ 2024 میں جبری گمشدگی کے کم از کم 379 نئے مقدمات، توہینِ مذہب کے الزام میں دو ماورائے عدالت قتل، اور صرف سندھ و پنجاب میں 4,864 مبینہ پولیس مقابلے رپورٹ ہوئے۔
ایچ آر سی پی کی سابق چیئرپرسن حنا جیلانی نے کہا کہ جبری گمشدگی کسی بھی صورت میں قابلِ جواز نہیں — خواہ جنگ ہو یا بغاوت — اور “کسی بھی مقصد کے لیے تشدد یا دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔” انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی برادری کا مطالبہ ہے کہ “تشدد کے ہر واقعے سے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔”
کم از کم 1,200 افراد کو توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت قید کیا گیا، جنہیں مبینہ طور پر دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر نے سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد شیئر کرنے پر اکسایا۔ احمدی برادری نے مذہبی بنیادوں پر کم از کم چھ قتل، اور 200 سے زائد قبروں و عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی اطلاع دی، جو ریاست کی دائیں بازو کی جماعتوں کے سامنے پسپائی اور شدت پسندی میں اضافے کی علامت ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر مسلسل پابندی، سیاسی موضوعات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی گرفتاریاں، جلسے جلوسوں کی روک تھام کے لیے دفعہ 144 کا بار بار نفاذ، پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی، اور احتجاجی مظاہروں کے خلاف غیر متناسب—بلکہ بعض اوقات مہلک—طاقت کا استعمال، اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست تنقید یا اختلافِ رائے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ایچ آر سی پی کی شریک چیئرپرسن منیزے جہانگیر نے 2024 میں حکومتی قانون سازی اور اظہارِ رائے کی آزادی پر اس کے اثرات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری عہدیداروں کو عام شہریوں کی جائز تنقید سے استثنا نہیں دیا جانا چاہئے۔
ملک بھر میں 24 لاکھ مقدمات زیر التوا ہونے کے باعث عدالتی نظام پر شدید بوجھ رہا۔ اگرچہ، عدالتوں نے کم از کم 174 افراد کو سزائے موت سنائی، لیکن کسی بھی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔ جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کا تناسب تقریباً 228 فیصد رہا۔
ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے نشاندہی کی کہ کان کن، سینی یٹیشن ورکرز اور پولیو ورکرز شدید خطرات سے دوچار رہے اور ان شعبوں میں کم از کم 172 ہلاکتیں ہوئیں۔ خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد بدستور جاری رہا: غیرت کے نام پر قتل کے کم از کم 405، جنسی زیادتی کے 4,175، گھریلو تشدد کی بناء پر قتل کے 1,641، اور بچوں پر تشدد کے 1,630 واقعات رپورٹ ہوئے۔ حکومت نے افغان شہریوں کی واپسی کا عمل جاری رکھا، تاہم یہ خدشات برقرار رہے کہ یہ بے دخلیاں رضامندی اور وقار سے متعلق عالمی معیارات پر پورا نہیں اترتیں۔ تعلیم و صحت کی صوتحال ناقص رہی، جبکہ سال کے مختلف حصوں میں شدید موسم اور آلودہ فضا نے صورت حال کو مزید ابتر دیا۔
ایچ آر سی پی اسلام آباد کی وائس چیئر نسرین اظہر نے تقریب کے اختتام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم نے عدالتی امور میں انتظامیہ کی مداخلت کو بڑھا دیا ہے۔
ایک صحافی کے سوال پر کی مجموعی طور پر پاکستان میں جو سماجی، معاشی ، و جمہوری اداروں کی انحطاط پزیری تو کسی بڑی بیماری کی علامات ہیں اصل بیماری کی نشاندہی کیوں نہیں کی جاتی ،”کمیشن کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے یہ تسلیم کیا کی ان سب بیماریوں کا جڑ ملک کے نیولبرل ترقی کا ماڈل ہے جسے ختم کیئے بغیر ان بیماریوں کا علاج ممکن نہیں۔