تحریر: ضمیر عباس
گُزشتہ اقساط میں مولانا کا تعارف و شہرت، تعلیم و شاعری کا پس منظر اور شمس تبریزی سے مُلاقات پر روشنی ڈالی گئی۔
سوال یہ بنتا ہے کہ مولانا بعد از مُلاقاتِ شمس جس تبدیلی سے گُزرے اسے کیسے سمجھا اور بیان کیا جائے؟
گُزارش ہے کہ اِس بابت دو نظریات پائے جاتے ہیں۔
پہلا یہ کہ مولانا راتوں رات ایک جادُوئی تبدیلی کا شکار ہوئے۔ وہ شاعری سے نابلد تھے اور نہ شاعری کرنا چاہتے تھے لیکن شمس کی رفاقت نے انُہیں ایک بھرپور شاعر بنا دیا۔ وہ یکبارگی سماع کے عادی ہوگئے اور مختلف جگہوں میں اپنے طور پر اور مریدوں کے ہمراہ سماع و وجد کی محفلیں سجانے لگے۔ مزید یہ کہ روزہ، نماز، حج اور دیگر شرعی لوازمات سے ماورا ہوگئے جس کا اظہار اپنے کلام بالخصوص غزلوں میں کرنے لگے۔ اس نظریے کی اولیا کی سوانح نگاری یا Hagiographyمیں کافی مِلتا ہے(ملاحظہ ہو تیسری قسط)۔
دُوسرا نظریہ ہے کہ مولانا ایک جید عالم دِین ہونے کے ناطے ماضی اور فی زمانہ ہونے والے شاعری اور شاعروں سے خوب واقف تھے جس کا ذکر قدرے تفصیل سے راقم نے دُوسری قسط میں کیا ہے یعنی وہ فارسی شاعری کی صدیوں پر محیط روایات، استعارات، تلمیحات اور تشبیہات سے باخبر تھے۔ علاوہ ازیں مولانا کی شاعری اور تصوف کے نظریات سے واقفیت اور والد کی تربیت و صحبت اور بچپن کی تعلیم کا مطلب یہ تھا کہ وہ شمس جیسے پُروجد و باکیفیت شخصیات سے آگاہ تھے۔ ایک روایت (جو تاریخی لحاظ سے صحیح نہیں مانی جاتی) کے مطابق دورانِ سفر اُن کی مُلاقات مشہور صوفی شاعر و نظریہ ساز فریدالدین عطار (۱۱۴۵۔۱۲۲۱) سے بھی ہوئی تھی جنہوں نے مولانا کی اوائل عُمری کے باوجود انُہیں مسقبل کے صوفی کے طور پر پہچان لیا تھا۔
دُوسرا نظریہ تاریخی اور عقلی لحاظ دونوں کی رُو سے درست معلوم ہوتا ہے۔
اس بارے میں فارسی زبان و ادب اور مولانا کے کلام کی اُستاد ڈاکٹر فاطمہ کشاورز نے اپنی کتاب Reading Mystical Lyric, the case of Jalal ud Din Rumi میں مولانا کی فارسی شاعری سے واقفیت اور رغبت کو ایک تاریخی حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے۔
جب یہ طے ہُوا کہ مولانا نے شاعری کا آغاز معجزاتی طور پر نہیں بلکہ اپنے معاشرتی و تاریخی شعور کی بُنیاد پر کرنا شروع کیا تو اگلا سوال یہ ہے کہ اس شاعری سے اُن کی شمس کی مُلاقات کا احوال کیسے اخذ کیا جائے۔
مشہوراسلامی فلاسفر اور شارح ِمولانا عبدالکریم شروش کے نزدیک مولانا اور شمس تبریزی دونوں نے اپنے مطبوعہ کلام میں اس ملاقات کا احوال بیان کیا ہے۔ مولانا کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے میری دانست میں مذکورہ مڈبھیڑ کے متعلق مولانا نے طویل نظم “مثنوی” اور مجموعہ غزلیات “دیوانِ شمس” ( جن کا ذکر میں مستقبل کی اقساط میں کروں گا) میں جس انداز، پیرائے، تشبہات اور استعارات میں کیا ہے وہ کافی حد تک دونوں شخصیات کی ذہنی کیفیت اور طرزِ فکر کو واضح کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شمس تبریزی کی تصنیف “مقالات ِ شمس” میں بھی اس بابت کافی رہنمائی ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیئے
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے؟ ( پہلی قسط)
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے؟ (دوسری قسط)
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے ؟ شمس تبریزی سے مُلاقات (تیسری قسط)
اس کے علاوہ مختتلف مصنفین بالخصوص ڈاکٹر عبدالکریم شروش، فاطمہ کشاورز، آر اے نیکلسن، استاد کریم زمانی، فرینکلن لیوس، قاضی سجاد حسین، مترجم مثنوی اور سکالر جاوید مجددی اور پروفیسر ایلن ولیلمز نے اُن اشعار کی نشاندہی اور تشریح کی ہے جن میں مولانا نے شمس سے مُلاقات کی نوعیت اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والی تبدیلی کو بیان کیا ہے- اِن تذکروں کی بنیاد مولانا کے وہ اشعار ہیں جو ان کے اشاعت شدہ کلام اور شمس تبریزی کے “مکالاتِ شمس” میں موجود ہے۔ ایسے میں یہ بات معقول لگتی ہے کہ مثنوی، دیوانِ شمس اور مکالاتِ شمس سے ہی اس متعلق رہنمائی لی جائے۔
آئیے کوشش کرتے ہیں کہ مولانا کی زبانی اس مُلاقات اور نتیجتاً وقوع شُدہ تبدیلی کا ذکر کریں۔
دیوان شمس کی غزل نمبر ۱۳۹۳ میں مولانا نے استفہامیہ اور مُکالماتی انداز میں بتایا ہے کہ شمس اور اُن کے درمیان کیا بات ہُوئی اور اُس سے اہم یہ کہ اُنہوں نے کِس سوال کا جواب کیا دِیا اور خود کو ایک paradigm shift یا سوچ کی تبدیلی سے گزرتے ہوئے محسوس کیا۔ غزل کے چند اشعار:
مردہ بدم زندہ شدم گریہ بدم خندہ شدم
دولت عشق آمد و من دولت پایندہ شدم
میں مردہ تھا زندہ ہوگیا، رو رہا تھا ہنسنے لگا
عشق کی دولت ملی، میں لازوال مال ہوگیا
گفت کہ دیوانہ نۂ لائق ایں خانہ نۂ
رفتم و دیوانہ شدم سلسلہ در زندہ شدم
اس نے کہا کہ تم دیوانے نہیں ہو، تم اس گھر کے لائق نہیں ہو
میں چلا گیا اور دیوانہ بن گیا، میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگیا
گفت کہ با بال و پری من پر و بالت ندہم
در ہوس بال و پرش بے پر و پرکندہ شدم
اس نے کہا کہ تمہارے پاس بال و پر ہے، میں تمہیں بال و پر نہیں دوں گا
میں بال و پر کے ہوس میں بے پر اور پراگندہ ہوگیا
گفت که: «تو زیرککی، مست خیالی و شکی»
گول شدم، هول شدم، وز همه برکنده شدم
کہا: "تم بہت ہوشیار ہو، اپنے شک کے نشے میں،” میں ایک بیوقوف بن گیا، سیدھا باہر نکل گیا۔
گفت که: «تو شمع شدی، قبلهٔ این جمع شدی»
جمع نیَم، شمع نیَم، دودِ پراکنده شدم
بولا: "تم اس قوم کی شمع ہو،” میں نے کہا، "میں نہیں ہوں، میں دھواں ہوں”
گفت که: «شیخی و سَری، پیشرو و راهبری»
شیخ نیَم، پیش نیَم، امرِ تو را بنده شدم
فرمایا: تم شیخ ہو، قائد ہو۔ (میں نے کہا) ’’میں تیرے حکم کا غلام ہوں۔‘‘
اس غزل کا مکالماتی انداز کسی بھی تحقیقی اور سوانحی مطالعے سے زیادہ بہتر انداز اُس ملاقات کا احوال بیان کرتا ہے۔ مولانا کہتے ہیں میں دُوسری دفعہ زندہ ہُوا اور شیخ، پیشوا، راہبر اور دیگر القابات کو خیرباد کہا کہ شمس ان سے ماورا تھے۔ دیوانِ شمس کی پہلی غزل میں مولانا نے شمس کو “رستخیزِ ناگہاں” یا ایک اچانک برپا ہونے والی قیامت، ہنگامہ یا ہڑبونگ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مولانا دیوان شمس کی غزل نمبر ۳۹۰ میں کہتے ہیں:
شمس تبریزی به دورت هیچ کس هشیار نیست
کافر و مؤمن خراب و زاهد و خمار مست
اے شمس تبریزی تیرے آس پاس کوئی بھی ہوشیار نہیں ہے
کافر و مومن بھی برباد ہیں جبکہ متقی اور شرابی مست ہوجاتے ہیں۔
مثنوی، دیوان، فیہ ما فیہ اور مکتوباتِ مولانا میں شمس ہمیشہ موجود ہیں۔
امید ہے اس مختصر بیان سے شمس و مولانا کی ملاقات اور اس کے بعد وقع پزیر تبدیلی کو سمجھنے میں مدد ملی ہوگی۔
اگلی قسط میں مولانا کے کلام کا تعارف پیش کیا جائے گا۔ (جاری ہے)
ضمیر عباس کا تعلق گلگت۔بلتستان سے ہے اور وہ اس وقت ایک پبلک سیکٹر ادارے کے سربراہ ہیں۔ ادب و سماجی موضوعات بلخصوص رومی پر ان کی انگریزی اور اردو زبانوں میں تحریریں مختلف قومی و مقامی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
