تحریر: ضمیر عباس
پچھلی اقساط میں کوشش کی گئی کہ مولانا کا تعارف، شہرت، شاعری کا پس منظر، شمس تبریزی سے ملاقات کا حال اور بعد از مُلاقات رونما ہونے والی تبدیلی کا تذکرہ کیا جائے۔
مولانا کے کلام کا زیادہ تر حصہ شاعری کی دو کتابوں یعنی مثنوی اور دیوانِ شمس پر مُشتمل ہے۔ چند رباعیات، کچھ خطوط اور درجنوں تقاریر بھی مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں۔
اگر بہت ہی اختصار سے مولانا کے کلام کی تفہیم کا طریقہ بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ مولانا کے نقطہ نظر کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہُ اُن کے اشعار کا فارسی میں مطالعہ کیا جائے۔ ظاہر ہے فارسی سے دورِ حاضر کے قارئین کی اکثریت بابلد ہے تو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فارسی سے اردو/انگریزی کے تراجم اور تشریحات کا مطالعہ کیا جائے۔
جو حضرات اردو سے وا قفیت رکھتے ہیں، اُن کے لئے فارسی پڑھنا اور سیکھنا نسبتْا آسان یُوں ہے کہ اِس زبان کے اکثر الفاظ اردو میں بطورِ عام مستعمل ہیں۔ مثنوی اور دیوان کے الگ تعارف میں اس نقطے پر مزید روشنی ڈالنے کی کوشش کرینگے۔
آئیے مولانا کے ملفوظات (جو مثنوی کے اشعار، دیوانِ شمس کی غزلوں، رباعیات، خطوط اور تقاریر کی صورت دستیاب ہیں) پر روشنی ڈالتے ہیں۔
مثنوی معنوی
مثنوی مولانا کی ایک طویل نظم ہے جو لگ بھگ 26000 اشعار اور چھے جلدوں یا دفاتر پر مشتمل ہے۔ مثنوی شعر گوئی کی ایک صنف ہے جس میں ہر دو مصرے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور دوسرے شعر میں قافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ ادب کے ماہرین کی رائے میں مثنوی کا شاعری میں وہی مقام ہے جو جو نثر میں ناول کا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے ذریعے شاعر حضرات ذاتی تجربات، تمثیلات، اخلاقیات، مذہبی موضوعات، تاریخی واقعات، سوانحِ شخصیات، عقائد کی پرچار اور دیگر اصنافِ سخن کو تحریر کرتے ہیں۔ مثنوی کا پہلا شعر ملاحظہ ہو:
بشنو این نی چون شکایت می کُند
از جدائی ھا حکایت می کُند
اس بانسری کو سنو کیا شکایت کر تی ہے۔ (یہ) جُدائیوں کی داستان بیان کر تی ہے۔
فارسی شعرا (جِن کا ذکر پچھلی اقساط میں ہوتا آیا ہے) کے علاوہ مثنوی کی مثالیں اردو زبان کی شاعری میں بھی مِلتی ہیں۔ مثلاً:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
نواب مرزا شوق
اور
تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام
بُتانِ عَجم کے پُجاری تمام!
علامہ اقبال
یہ بھی پڑھیئے
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے؟ مختصر تعارف اور شہرت ( پہلی قسط)
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے؟ شاعری کا پس منظر (دوسری قسط)
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے ؟ شمس تبریزی سے مُلاقات (تیسری قسط)
مولانا رومی کو کیسے پڑھا جائے؟ شمس تبریزی سے مِلنے کے بعد (چوتھی قسط)
جہاں تک مولانا کی مثنوی کا تعلق ہے، اس بابت درج ذیل نقاط ذہن نشین ہونا ضروری ہے۔
اول یہ کہ مثنوی کو مولانا کا نسبتاً سنجیدہ، معلمانہ یا نصیحت آموز کلام شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں اُن کا انداز تکلم ایک شاعر یا عاشق سے زیادہ اُستاد جیسا نظرآتا ہے جو ایک نو آموز طالبعلم کی تربیت کر رہے ہیں۔ محققین کا ماننا ہے کہ مثنوی کی تالیف 1258 عیسوی میں شروع ہُوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب مولانا شمس سے جُدا ہوئے تھے اور عمر تقریباً 60 سال تھی۔ مثنوی کی شہرت اس امر سے عیاں ہے کہ آج دُنیا بھر میں “مثنوی” کو مولانا سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ اس سے مُراد اردو یا فارسی زبان میں لکھی کوئی بھی طویل نظم ہوسکتی ہے۔ پروفیسر اومید صافی کے مطابق قرآن کے بعد سب سے زیادہ manuscripts یا قلمی نُسخے مثنوی ہی کے دستیاب ہیں۔ مثنوی کے متعلق عمومًا علامہ اقبال اور شیخ بہائی دونوں سے منسوب یہ شعر نقل کیا جاتا ہے :
مثنوی مولوی معنوی
ہست قران در زبان پهلوی
یعنی مولوی (مولانا کا ایک اور توصیفی نام ) کی معنویت سے بھرپور مثنوی فارسی زبان میں قرآن ہے ۔ دوسرے الفاظ میں مولانا نے قرآنی موضوعات کو فارسی زبان میں لکھی اپنی مثنوی میں قلمبند کیا ہوُا ہے۔ بظاہر یہ مبالغہ معلوم ہوتا ہے مگر محقق اور فلاسفر عبدالکریم سروش کے مطابق مثنوی کی ترتیب ویسی ہی ہے جیسی قرآن کی ہے۔ مثلاً قرآن کے ابتدائی حصے میں کفار اور مسلمانوں کو تنبہ اور تشنیع کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ایمان کی کمزوری، منافقت، نافرمانی، فرومایگی، دنیا پرستی وغیرہ جیسی بُرائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسی طرح بعد میں آنے والے سورہ جات میں طرز تکلم نسبتًا نرم ہے۔ سروش کے مطابق ایران کے ایک محقق نے مثنوی میں ایسے 6000 اشعار کی نشاندہی کی ہے جو آیاتِ قرآنی کے براہ راست تراجم ہیں۔ مثنوی کا آغاز بھی جِن کہانیوں سے ہوتا ہے اُن میں ایسے کرداروں کا ذکر ہے جو مال و متاع دنیا کے حصول میں غرق ہیں اور احکام و قوانینِ قدرت و پروردگار کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ مولانا ایسے کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ یا psychoanalysis کرتے ہیں جس کے لئے وہ قرآن، حدیث، علم طب، نفسیات، جنسیات وغیرہ کی تلمیحات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں قاری اُن کی کثیر جہتی تفہیم کا قائل ہوجاتا ہے۔ روایات میں ہے کہ مولانا سے جب کسی نے پُوچھا کہ وہ مثنوی کیوں تالیف کررہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں نے فی زمانہ علوم حاصل کئے ہیں اور چاہتا ہوُں کہ اب انہیں آنے والی نسلوں کو منتقل کردوں۔ مثنوی کی بعد کی کہانیوں میں لب و لہجہ نرم اور موضوعات عشق و عرفان کے گر گھومتے ہیں۔
دُوسرا نقطہ یہ ہے کہ مشرق و مغرب کے شارحین، مترجمین اور محققین نے مثنوی کو پڑھنے کی نہ صرف رہنمائی بیان کی ہوئی ہے بلکہ متن کی تشریح اور الفاط کے معانی پر بھی کافی کام کیا ہے۔ اگلی قسط میں اس بابت چند گزارشات پیش کروں گا ۔ (جاری ہے)
ضمیر عباس کا تعلقگلگت۔بلتستان سے ہے اور وہ اس وقت ایک پبلک سیکٹر ادارے کے سربراہ ہیں۔ ادبو سماجی موضوعات بلخصوص رومی پر ان کی انگریزی اور اردو زبانوں میں تحریریں بامجہاں سمیت مختلف قومی و مقامی اخبارات میںشائع ہوتے رہتے ہیں۔
