عزیز سنگھور
بلوچستان وہ سرزمین ہے جہاں قلم اٹھانا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ یہاں صحافت صرف خبر دینے کا عمل نہیں بلکہ جان ہتھیلی پر رکھ کر سچ بولنے کی جرات کا نام ہے۔
ایسے میں جب صحافیوں کو عدم تحفظ، معاشی عدم استحکام اور مسلسل دباؤ کا سامنا ہو، تو ان کے لیے ایک باوقار اور مضبوط پلیٹ فارم کا قیام کسی نعمت سے کم نہیں۔
22 جون 2025 کو ضلع کیچ کے تاریخی علاقے بلن دشت میں منعقد ہونے والا اجلاس، اسی حوالے سے ایک تاریخی لمحہ تھا، جہاں مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے مل بیٹھ کر ایک نئے دور کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں "مکران یونین آف جرنلسٹس” کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا۔
یہ تنظیم صرف ایک نام یا رسمی ڈھانچہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے۔ وہ نظریہ جو بلوچستان کے صحافیوں کو منظم، باخبر اور محفوظ بنانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ یونین اب صحافیوں کو نہ صرف ملکی سطح پر منسلک کرے گی بلکہ انہیں بین الاقوامی صحافتی اداروں سے بھی جوڑنے میں معاون ہوگی۔ یہ عمل انہیں زیادہ تحفظ، زیادہ تربیت، اور سب سے بڑھ کر زیادہ آواز دے گا۔

بلوچستان میں صحافت ایک ایسا عمل بن چکا ہے جس میں قدم قدم پر خوف اور خطرہ موجود ہے۔ رپورٹرز، فوٹوگرافرز، لکھاری، فلم میکرز اور یوٹیوبرز اکثر میدان میں تنہا ہوتے ہیں۔ انہیں نہ اداروں کا مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے، نہ مالی معاونت، اور نہ ہی قانونی پشت پناہی۔ اسی پس منظر میں مکران یونین آف جرنلسٹس کا قیام ایک جراتمندانہ اور بصیرت افروز قدم ہے۔
اجلاس میں تفصیلی مشاورت کے بعد ایک پانچ رکنی آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں مکران کے تمام بڑے صحافتی مراکز کی نمائندگی شامل ہے۔ پسنی پریس کلب کے ساجد نور یونین کے آرگنائزر، تربت پریس کلب کے طارق مسعود ڈپٹی آرگنائزر مقرر ہوئے جبکہ گوادر پریس کلب کے نور محسن، پنجگور پریس کلب کے عمر جان، اورماڑہ پریس کلب کے محفوظ بلوچ، یونین کے ارکان مقرر ہوئے۔
اس اقدام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یونین علاقائی توازن اور اشتراک کو مدنظر رکھ کر تشکیل دی گئی ہے، جو کہ اس کی شفافیت اور قبولیت کے لیے نہایت اہم ہے۔
یونین کے قیام سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اب صحافیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم میسر ہوگا جہاں وہ اپنے پیشہ ورانہ، قانونی، اور ذاتی تحفظ کے لیے آواز بلند کرسکیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ نوجوان صحافیوں کو تربیت اور رہنمائی کے مواقع بھی فراہم ہوں گے، جو بلوچستان جیسے محروم خطے میں صحافتی معیار کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
آج جب دنیا بھر میں میڈیا پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، بلوچستان کے صحافی ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ مکران یونین آف جرنلسٹس ایک تنظیم نہیں، ایک پیغام ہے کہ سچ دبایا جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔
بلوچستان… وہ خطہ جہاں دھرتی کا رنگ سرخ ہے، اور قلم کاروں کا مقدر لہو ہے۔ یہاں صحافت صرف پیشہ نہیں بلکہ مزاحمت ہے۔ ایسا عمل جس کی قیمت اکثر زندگی سے چکانی پڑتی ہے۔
گزشتہ 22 سالوں میں بلوچستان میں 50 سے زائد صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض ایک گنتی نہیں، بلکہ ان خاموش چیخوں کا نوحہ ہیں جو ہر کالم، ہر رپورٹ، اور ہر نشر شدہ خبر کے پیچھے چھپی ہوتی ہیں۔
بلوچستان ایک طویل عرصے سے شورش، جبری گمشدگیوں اور مزاحمتی تحریکوں کا گڑھ رہا ہے۔ ایسے ماحول میں رپورٹنگ کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں صحافی خود خبر بن جاتے ہیں۔ ان کی جان، قلم سے زیادہ سستی اور سچائی سے زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔
لطیف بلوچ، آواران کے علاقے مشکے سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، جنہیں 24 مئی 2025 کی رات فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔ شریف شہزاد، ضلع خضدار کے نال علاقے میں نومبر 2023 میں قتل ہوئے۔ حب سے تعلق رکھنے والے خادم حسین شیخ کو 14 اپریل 2008 اور خضدار سے تعلق رکھنے والے وصی احمد قریشی 19 اپریل 2009 کو قتل کردیا گیا۔ اسی طرح لالہ حمید بلوچ، سابق صدر گوادر پریس کلب، اغوا کے بعد 18 اپریل 2010 کو لاش ملی۔ محمد خان ساسولی، صدر خضدار پریس کلب، 14 دسمبر 2010 کو اپنے ہی شہر میں نشانہ بنے۔ مکران سے تعلق رکھنے والے صحافی، صدیق عیدو کی لاش 29 دسمبر کو ملی۔ ضلع کیچ میں الیاس نذر کی مسخ شدہ لاش 3 جنوری 2011 کو ملی۔
عیدو رند کو 18 فروری 2011 کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ مچھ سے تعلق رکھنے والے صحافی رحمت اللہ شاہین کی لاش 1 اپریل 2011 کو ملی۔ تربت میں صحافی ظریف فراز کی لاش 25 اپریل 2011 کو "مرگاپ” سے ملی،
روزنامہ توار کے نیوز ایڈیٹر،حاجی رزاق بلوچ کی لاش اگست 2013 میں کراچی سے ملی۔ بارکھان میں صحافی انور جان کھیتران کو 23 جولائی 2020 کو قتل کردیا گیا۔ کوئٹہ میں عبدالواحد رئیسانی اپریل 2021 کو قتل کردیا گیا۔
تاہم یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ کئی صحافی گمنام قتل ہوئے، کچھ اغوا ہوئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ کچھ خوش نصیب صرف دھمکیوں، مارپیٹ، اور بلیک میلنگ تک محدود رہے۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان قتلوں میں سے اکثر مقدمات یا تو درج ہی نہیں ہوئے، یا پھر سرد خانے کی نذر ہو گئے۔ قاتلوں کا تعین تو درکنار، بیشتر کیسز میں صحافیوں کے اہل خانہ کو انصاف کا دروازہ بھی بند نظر آیا۔
بلوچستان میں پریس کلبز اکثر محدود وسائل، سیاسی دباؤ اور خوف کی فضا میں دبے رہتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو قانونی معاونت ہے، نہ حفاظتی اقدامات، اور نہ ہی کوئی مستقل فلاحی ڈھانچہ موجود ہے۔
صحافت ایک ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ لیکن بلوچستان میں یہ ستون گرا ہوا، زخمی اور خاموش ہے۔ صحافیوں کے قتل پر صرف پریس ریلیز، ہمدردی کے بیانات اور کبھی کبھار مشکوک ایف آئی آر درج ہوتی ہے، مگر نہ قاتل ملتے ہیں، نہ انصاف ملتا ہے۔
ایسے میں "مکران یونین آف جرنلسٹس” جیسی تنظیموں کی تشکیل یقیناً ایک امید کی کرن ہے۔ لیکن محض اتحاد کافی نہیں، ریاست، عدلیہ اور بین الاقوامی اداروں کو بلوچستان کے صحافیوں کی آواز سننی ہوگی۔
انہیں جینے کا حق چاہیے، نہ مراعات، نہ استثناء، صرف زندہ رہنے، سچ بولنے اور محفوظ رہنے کا حق مانگتے ہیں۔ بلوچستان کے صحافی صرف رپورٹر نہیں، تاریخ کے گواہ ہیں۔ اگر ان کی آوازیں مسلسل خاموش کی جاتی رہیں تو تاریخ بھی ایک دن خاموش ہو جائے گی۔
سنہ 2001 کی بات ہے، جب مجھے (راقم) کو روزنامہ ڈان کراچی کی جانب سے مکران ڈویژن میں بطور رپورٹر تعینات کیا گیا۔ وہ وقت صحافت کے لیے ایک مشکل، مگر ولولہ انگیز دور تھا۔ مکران کے تینوں اضلاع- تربت، گوادر، اور پنجگور- میں "پریس کلب” کی کابینہ تو تھی، مگر ان کے پاس نہ دفاتر تھے، نہ وسائل، اور نہ ہی تحفظ۔ صحافیوں کی بیٹھکیں فٹ پاتھوں، چائے خانوں اور عوامی پارکوں میں ہوا کرتی تھیں۔
یہ وہ وقت تھا جب ملک پر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، اور بلوچستان ریاستی نظرانداز کا شکار تھا۔ ان حالات میں "تربت پریس کلب” کی عمارت کی تعمیر ایک خواب سے کم نہیں تھی اور یہ خواب ہم نے دیکھا، جھیلا، اور بالآخر شرمندۂ تعبیر کیا۔
تربت کے سینئر صحافی پھلان خان، لال بخش قومی، ارشاد اختر اور میں (راقم) نے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے سرکاری اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے، فائلیں اُٹھائیں، اور سینکڑوں بار حکام سے ملاقاتیں کیں۔ طویل جدوجہد کے بعد فنڈز مختص ہوئے، اور تربت پریس کلب کی پہلی باقاعدہ عمارت تعمیر ہوئی جو آج مکران کی صحافتی شناخت بن چکی ہے۔
یہ عمارت صرف اینٹوں، سریے اور سیمنٹ کا ڈھانچہ نہیں، بلکہ وہ پلیٹ فارم ہے، جہاں سے بلوچ عوام کی آواز بلند ہوتی ہے، جہاں مظلوم اپنی فریاد لاتے ہیں، اور جہاں ریاستی جبر کے خلاف بیانیہ ترتیب پاتا ہے۔
تربت کی عمارت کے بعد صحافت کی یہ لہر گوادر، پنجگور اور پسنی تک پہنچی۔ وہاں بھی پریس کلبز کی عمارتیں تعمیر ہوئیں، جو آج بلوچ سماج میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ وہ مقام ہیں جہاں وہ عوام، جن کی کوئی نہیں سنتا، اپنی آواز خود بلند کرتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں عدالتی نظام سست، مہنگا اور پیچیدہ ہے، وہاں پریس کلبز غریب عوام کے لیے سب سے سستا، فوری اور مؤثر فورم بن چکے ہیں۔ عدالتوں میں جانے کے لیے وکیلوں کی بھاری فیسیں درکار ہوتی ہیں جو مکران کے باسیوں کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ مگر جب وہ پریس کلب آتے ہیں، ایک بیان دیتے ہیں یا احتجاج کرتے ہیں، تو میڈیا ان کی آواز کو نشر کرتا ہے۔ یہی میڈیا کوریج حکام کو حرکت میں لاتی ہے، اور متاثرین کو کسی حد تک ریلیف ملتا ہے۔
ایک وقت تھا جب مکران کے مظلوم عوام کو انصاف کے لیے کراچی پریس کلب جانا پڑتا تھا۔ آج ان کے اپنے شہر، ان کی اپنی زمین، ان کے اپنے پریس کلبز موجود ہیں۔ یہاں وہ کھل کر بات کرتے ہیں، اپنا دکھ بیان کرتے ہیں، اور دنیا تک اپنی آواز پہنچاتے ہیں۔
بلوچستان میں پریس کلبز کی تعمیر اور ان کا متحرک کردار ایک خاموش انقلاب ہے۔ یہ ان صحافیوں کی انتھک محنت، قربانی، اور عوامی اعتماد کا نتیجہ ہے۔
پریس کلبز آج نہ صرف صحافیوں کی پناہ گاہ ہیں، بلکہ بلوچ سماج کا عدالتی، اخلاقی اور جمہوری پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔
فٹ پاتھوں سے نکل کر اداروں تک کا یہ سفر تاریخ کا روشن باب ہے اور ہمیں اس باب کو نہ صرف سنبھالنا ہے بلکہ مزید طاقتور بنانا ہے۔
مکران یونین آف جرنلسٹس کا قیام نہ صرف مکران ڈویژن بلکہ پورے بلوچستان کے صحافتی میدان میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مکران کے بعد اب وقت آچکا ہے کہ بلوچستان کے دیگر خطوں جیسے رخشان، جھالاوان، سراوان، اور گرین بیلٹ میں بھی الگ الگ صحافتی یونینز کے قیام کو عملی شکل دی جائے۔ حب، اوتھل، گڈانی، وندر، بیلہ، اور آواران کے صحافی مل کر ایک مشترکہ تنظیم قائم کریں، اور بولان، بارکھان اور کوہلو کے صحافی بھی اپنی مشترکہ یونین کا اعلان کریں۔
یہ علاقائی صحافتی پلیٹ فارمز بلوچستان کے زمینی حقائق کے مطابق ہوں گے اور ان علاقوں کے صحافیوں کی حقیقی نمائندگی کریں گے۔
ملک میں اس وقت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے تین دھڑے موجود ہیں۔ ہر دھڑا اپنے نیٹ ورک اور وفادار یونٹس (UJs) کے ذریعے صحافیوں کی نمائندگی کا دعویدار ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، پشاور، سکھر اور حیدرآباد جیسے شہری مراکز میں ان کے "یوجیز” (UJs) فعال ہیں۔
مگر کیا بلوچستان کے پسماندہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو بھی وہی حق حاصل ہے جو لاہور یا اسلام آباد کے صحافیوں کو حاصل ہے؟
یہ سوال آج اس لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ ہمیں یاد ہے کہ بیس سال قبل حیدرآباد اور سکھر میں جب مقامی صحافیوں نے یونٹ بنانے کی کوشش کی، تو پی ایف یو جے نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ "یہ صحافی کوالیفائی نہیں کرتے”۔ حالانکہ اس وقت بھی وہاں درجنوں اخبارات شائع ہوتے تھے اور صحافی قابلِ احترام اداروں میں کام کرتے تھے۔ کئی سال بعد ہی سہی، بالآخر ان کی جدوجہد کامیاب ہوئی اور انہیں تسلیم کر لیا گیا۔
آج مکران یونین آف جرنلسٹس کے ساتھ بھی وہی پرانا کھیل دہرایا جائے گا۔ انہیں تسلیم کرنے میں تاخیر کی جائے گی، اعتراضات اٹھائے جائیں گے، اور ان کی اہلیت پر سوال کھڑے کیے جائیں گے۔
مگرپی ایف یو جے کو یاد رکھنا ہوگا کہ مکران کے صحافی محض مقامی رپورٹر نہیں بلکہ وہ روزنامہ ڈان، جنگ، جیو، سماء، اے آر وائی، انتخاب، آزادی، اور دیگر قومی اداروں میں کام کرنے والے مستند پیشہ ور ہیں۔ ان کے پاس باقاعدہ پریس کارڈز، تنخواہ، اخبارات کے ڈیکلریشنز، اور برسوں کا تجربہ ہے۔
ایسے میں اگر پی ایف یو جے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کی یونینز کو تسلیم نہیں کرتا، تو وہ صرف ایک تنظیمی کوتاہی نہیں بلکہ ایک سیاسی و نظریاتی ناانصافی کا ارتکاب کرتا ہے۔
بلوچستان کو مرکزی دھارے میں لانے کے دعوے تبھی حقیقت کا روپ دھاریں گے جب بلوچستان کے صحافیوں کو بھی وہی پلیٹ فارم، تحفظ، رسائی اور نمائندگی حاصل ہو جو باقی ملک کے صحافیوں کو میسر ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے تینوں دھڑوں کو اب اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنا ہوگا۔ انہیں مکران یونین آف جرنلسٹس اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں قائم ہونے والی صحافتی یونینز کو باقاعدہ "یونٹس” تسلیم کرنا چاہیے۔
یہ نہ صرف ایک جمہوری تقاضا ہے بلکہ صحافتی برادری کی وحدت اور بقا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اگر صحافت کو واقعی ایک قومی، شفاف اور طاقتور ادارہ بنانا ہے، تو بلوچستان کو اس دائرے سے باہر رکھ کر ایسا ممکن نہیں۔
بلوچستان کے صحافیوں نے ہر دور میں سچ لکھا، دھمکیاں جھیلیں، قربانیاں دیں اور جانیں دیں۔ اب وقت ہے کہ انہیں ان کا جائز حق، نمائندگی اور پلیٹ فارم بھی دیا جائے۔ نہ کہ انہیں مشروط وفاداری یا "کوالیفیکیشن” کے بہانے نظر انداز کیا جائے۔